حیدر آباد کے ہیرا لال باگڑی برسوں سے کیلے کی تجارت کر رہے ہیں۔ وہ مقامی باغات اور منڈیوں سے کیلا خریدتے اور اسے ملک بھر میں بیچتے ہیں۔ ایک سال پہلے انہوں نے ٹنڈوجام میں بیس ایکڑ پر کیلے کے باغ کا ٹھیکہ لیا تھا جس سے انہیں فی ایکڑ دو سے ڈھائی ٹرک تک پیداوار حاصل ہوئی تھی۔ لیکن اس سال انہیں ہر ایکڑ سے بمشکل ایک ٹرک کیلا ہی حاصل ہو پایا ہے۔
پیداوار میں بھاری کمی ہیرا لال کے لئے بہت پریشان کن ہے۔ ان کو خدشہ ہے کہ اگر پیداوار میں کمی کا سلسلہ برقرار رہا تو انہیں اس ٹھیکے میں بھاری نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔
ہیرا لال کی طرح سندھ کے بہت سے علاقوں میں کاشت کار کیلے کی پیداوار میں کمی کی شکایت کر رہے ہیں۔
حیدرآباد کی سبزی منڈی کے بیوپاری احمد موٹانی کا کہنا ہے کہ منڈی میں کیلے کی رسد کم ہو گئی ہے اور انہیں کیلا مہنگا مل رہا ہے جسے وہ مہنگا بیچنے پر مجبور ہیں۔
سندھ آباد کار بورڈ کے ترجمان اور کیلے کے کاشت کار اسلم مری اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پیداوار میں کمی اور برآمد کی وجہ سے کیلا بہت مہنگا ہوگیا ہے۔ سندھ کی ہول سیل مارکیٹ میں فی من کیلے کی قیمت ساڑھے پانچ ہزار سے آٹھ ہزار روپے تک پہنچ چکی ہے جبکہ پرچون مارکیٹ میں کیلا 220 سے 250 روپے فی درجن میں فروخت ہو رہا ہے۔
سندھ ایگریکلچر یونیورسٹی ٹنڈو جام کے پروفیسر اسماعیل کمبھر نے بتایا ہے کہ ان دنوں سندھ کے کیلے میں فزیورم نامی فنگس آ گیا ہے جسے 'پاناما ولٹ' بھی کہا جاتا ہے اور مقامی لوگ اسے 'جلن والی بیماری' کہتے ہیں۔ بیرون ملک سے آنے والی کیلے کی نئی اقسام یہ بیماری پھیلا رہی ہیں اور اسے کسی سپرے سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ باغ کو اس بیماری سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ متاثرہ پودےکو ہی تلف کردیا جائے۔
سندھ میں کیلے کی فصل کو ہونے والا حالیہ نقصان 96-1995 میں 'بنانا بنچی ٹاپ وائرس' سے ہونے والی تباہی سے مشابہ ہے۔ اُس سال بھی کیلے کی پیداوار اسی طرح کم ہو گئی تھی۔
اسلم مری کا کہنا ہے کہ سندھ کے کیلے میں 'ٹی آر فور' بیماری بھی پائی گئی ہے جو ایک سال سے مختلف علاقوں میں ظاہر ہو رہی ہے۔ تاحال محکمہ زراعت نے اس بیماری کے خلاف کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے۔
"کیلے کی 'گرینڈ نائن' نامی ورائٹی میں اس بیماری کا پھیلاؤ زیادہ ہے۔ ہم اس بیماری سے متاثرہ پودا جڑ سے نکال کر اس کے گڑھے میں آگ جلا دیتے ہیں تاکہ بیماری کے اثرات ختم ہو جائیں۔ اس کے علاوہ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔''
پروفیسر کمبھر موسمی اثرات کو بھی کیلے کی پیداوار میں کمی کا اہم سبب قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال آنے والی بارشوں اور سیلاب سے ایک طرف تو باغات تباہ ہو گئے اور دوسری جانب سیلاب سے پھوٹنے والی نت نئی بیماریوں نے بھی کیلے کی فصل کو بری طرح متاثر کی جس سے پیداوار میں 40 فیصد تک کمی آئی ہے۔
حیدرآباد چیمبر آف کامرس کے سینئر نائب صدر نجم الدین کے مطابق برآمد میں اضافہ بھی مقامی مارکیٹ میں کیلے کی رسد میں کمی کا ایک نمایاں سبب ہے کیونکہ اس مرتبہ ایران کو بھی بڑی مقدار میں کیلا برآمد کیا جا رہا ہے۔
وزارت تحفظ خوراک اور پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل کے مطابق ملک بھر میں کیلے کی مجموعی پیداوار لگ بھگ ایک لاکھ 55 ہزار ٹن ہے جس میں سے 87 فیصد صرف سندھ پیدا کرتا ہے۔ 22-2021 کے سیزن میں 67 ہزار ٹن سے زیادہ کیلا برآمد کیا گیا۔ اس میں 30 ہزار ٹن قازقستان، 28 ہزار ٹن افغانستان اور باقی متحدہ عرب امارات، برطانیہ، تاجکستان، ازبکستان اور رومانیہ کو بھیجا گیا۔ کیلے کی برآمدات میں سندھ کا حصہ 90 فیصد ہے۔
پروفیسر کمبھر کے مطابق پانی کی قلت، درجہ حرارت میں اضافہ، باغات میں زیراستعمال زرعی آلات کا دوسری جگہوں پر استعمال جیسے عوامل اس بیماری کے پھیلاؤ کا باعث بنتے ہیں۔
''ترقی یافتہ ممالک میں تو کاشت کار کسی شخص کو سکریننگ کے بغیر اپنے کھیت اور باغات میں داخل تک نہیں ہونے دیتے تاکہ ان کے ساتھ آنے والا کوئی کیڑا یا وائرس فصل کو نقصان نہ پہنچائے۔ لیکن ہمارے ہاں ایسا شعور نہیں پایا جاتا جس کی وجہ سے زرعی پیداوار کو بہت سا نقصان ہو رہا ہے۔''
تاریخ اشاعت 6 مئی 2023