پاکستانی آم کی ایران کو برآمد پر دو ماہ سے پابندی عائد ہے جس کے باعث ملتان میں آم کے باغبان اور برآمد کنندگان پریشانی سے دوچار ہیں۔
میجر (ر) طارق خان آموں کی برآمد کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ سرکاری محکمے ڈیپارٹمنٹ آف پلانٹ پروٹیکشن کی طرف سے عالمی قواعد وضوابط پر عمل درآمد کے نام پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں جنہوں نے ایران جانے والے آموں کا راستہ روک دیا ہے۔
ایران کو ترسیل بند ہونے سے باغبانوں کو مقامی منڈی میں بھی مندی کا سامنا ہے۔ جو آم پہلے پانچ ہزار سے چھ ہزار روپے من فروخت ہو رہا تھا اب اس کی قیمت گر کر تین ہزار سے ساڑھے تین ہزار روپے فی من پر آ گئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے ایف اے ٹی ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے پہلے ہی سخت ریگولیٹری فریم ورک لاگو ہو چکا ہے جس کے مطابق برآمد ہونے والے آم کی ادائیگی اگر ایک ہفتے میں نہ ہو تو برآمد کنندہ کا اکاﺅنٹ بلاک کر دیا جاتا ہے۔
ممبر ایگزیکٹو کمیٹی ملتان چیمبر آف کامرس کی ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبر، انجمن آڑھتیاں کے صدر اور آم کے برآمد کنندہ اعظم صابری نے بتایا کہ ملتان سمیت ملک بھر میں آم دھونے کے لیے تقریباً بیس ہاٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ ہیں۔ اس سے پہلے آم دھوئے بغیر بھی بیرون ملک بھیجا جاتا تھا اور دھو کر بھی۔ آٹھ برس سے بڑی مقدار میں آم اسی طرح ایران جا رہے تھے۔
تاہم ڈیپارٹمنٹ آف پلانٹ پروٹیکشن نے اچانک مقامی طور پر تیار کردہ ہاٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کو ناقص قرار دے دیا۔ان کا الزام ہے کہ محکمے نے ایران کے پروٹوکولز کو جواز بنا کر پلانٹس پر غیر ضروری اعتراضات لگائے اور آم باہر بھیجنے سے روک کر ملک کو غیرملکی زرمبادلہ سے محروم کر دیا۔
اعظم صابری کہتے ہیں کہ برآمدی پالیسی میں خامیوں سے آم کے برآمدکنندگان کو شدید مالی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے کیونکہ مقامی مارکیٹ بہت کمزور ہے اور برآمد سے ہی آم کے کاشتکاروں کو مالی سہارا ملتا ہے۔
تاہم ملتان میں ڈیپارٹمنٹ آف پلانٹ پروٹیکشن کی انچارج پریانکا اوڈ اس بات سے اتفاق نہیں کرتیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایران کو آموں کی برآمد بند ہونے کا سبب ایرانی حکومت کے نافذ کردہ سخت قواعد ہیں۔
"ملتان سمیت جنوبی پنجاب کے کئی شہروں میں 10 مختلف باغات کو معائنے کے بعد ہی برآمد کی اجازت دی گئی ہے۔ اس کا مقصد ایران سمیت دنیا کے دیگر ممالک میں پاکستان کے اعلیٰ معیار کے آم کی برآمد کو یقینی بنانا ہے۔ چونکہ آم جلد خراب ہونے والا پھل ہے اس لیے تمام پہلوﺅں کا جائزہ لے کر ہی اس کی برآمد کی اجازت دی جاتی ہے۔"
انہوں نے کہا کہ ایران کو آموں کی ترسیل بند ہونے کے ذمہ دار خود برآمد کنندگان ہیں جو گاہک کی شرائط پوری نہیں کر رہے۔
ملتان میں واقع نوازشریف زرعی یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر کاشف رضا کے مطابق آم کی برآمد کے لیے عالمی قواعد و ضوابط پر عمل کرنا ضروری ہے۔ ان قواعد کے تحت بیرون ملک جانے والے آم کو کیلیشیم کاربائیڈ نامی کیمیکل کی پڑیاں ڈال کر پکانے پر بھی پابندی عائد ہے نیز آم کو لکڑی کی پیٹی کی بجائے کارڈ بورڈ باکس میں پیک کیا جانا ضروری ہے۔
ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کے ایریا منیجر سید راشد گیلانی نے اس مسئلے پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ برآمد کی جو شرائط امریکا کی ہیں وہ خلیجی ممالک کی نہیں ہیں۔ ہمیں مختلف ممالک کی شرائط کو مدنظر رکھنا ہوتا ہے۔
کاشف رضا کہتے ہیں کہ ملکی پیداوار کا صرف 20 سے 25 فیصد آم برآمدی معیار کا ہوتا ہے۔ اس کی برآمد کو موسمیاتی تبدیلیوں نے بھی نقصان پہنچایا ہے۔ گزشتہ سیزن میں ہیٹ ویو اور اس مرتبہ ژالہ باری سے آم کی پیداوار متاثر ہوئی۔"
آم کے کاشتکاروں کی تنظیم 'مینگو گرؤرز کوآپریٹو سوسائٹی' کے صدر سید زاہد حسین گردیزی کے مطابق موسمیاتی تبدیلی سے پہلے چونسہ آم کی پیداوار 200 من فی ایکڑ تھی جو اب 50 من فی ایکڑ رہ گئی ہے۔
"پاکستان میں اس وقت آم کے دو لاکھ 98 ہزار باغات ہیں۔ منافع کم ہو جانے کے باعث یہ باغات ہاﺅسنگ سوسائٹیوں کو فروخت کیے جا رہے ہیں۔ برآمد بڑھانے کے لیے سب سے پہلے آم کو ہائی ویلیو کراپ کا درجہ دینا ہو گا۔ ہمیں زیادہ پیداوار کے لیے بھرپور تحقیق اور سرمایہ کاری کی بھی ضرورت ہے۔"
پاکستان ایگری کلچر ریسرچ کونسل کے پروفیسر ڈاکٹر راﺅ محمد ولی نے بتایا کہ آم کی چند اقسام پر زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔
"ہمیں موسمی چونسا، وائٹ چونسا اور عظیم چونسا پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ انہیں پوری دنیا میں پسند کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ مینگو پلپ، فروزن، خشک، مینگو آئل، مکھن سمیت مختلف اشیا بنانے کی جانب بڑھنا چاہیے۔ آم کی برآمد بڑھانے کے لیے جدید ڈیجیٹل مارکیٹنگ کی بھی ضرورت ہے۔ "
یہ بھی پڑھیں
موسمیاتی تبدیلی اور سیلاب کی تباہ کاریاں: ٹنڈو الہ یار میں آم کی پیداوار کم ہونے سے کاشتکار اور تاجر پریشانی سے دوچار
کلیئرنگ ایجنٹ شالیمار انٹرپرائز کمپنی کے مالک غلام حسن کا کہنا ہے کہ آم کی برآمد کے لیے ملتان انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر سہولیات دستیاب نہیں ہیں۔ آم کی شیلف لائف کم ہوتی ہے اور اس کے باوجود یہ ایئرپورٹ پر شیڈز سے باہر رکھا جاتا ہے۔ ملتان سے صرف خلیجی ملکوں کی پروازیں دستیاب ہیں۔ دیگر ممالک کے لیے آم ملتان کی بجائے لاہور، فیصل آباد اور دیگر شہروں سے بھیجنا پڑتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پورے ملک میں برآمد ہونے والے آم کا صرف ایک فیصد کارگو فلائٹس سے بھجوایا جاتا ہے۔ ایئرلائن کے فریٹ چارجز بہت زیادہ ہیں اور کم از کم 260 روپے فی کلو وصول کیے جاتے ہیں۔ ایسی برآمدی پالیسی کے ہوتے ہوئے آم کی پیداوار میں کمی آئی ہے جسے بڑھانے کے لیے سب سے پہلے ان مسائل کو ختم کرنا ہو گا۔
تاریخ اشاعت 21 اگست 2023