خواب ہی خواب کب تلک دیکھوں: اعلیٰ تعلیم سے محروم آواران کے نوجوان کسانوں اور مزدوروں کے طور پر کام کرنے پر مجبور۔

postImg

شبیر رخشانی

postImg

خواب ہی خواب کب تلک دیکھوں: اعلیٰ تعلیم سے محروم آواران کے نوجوان کسانوں اور مزدوروں کے طور پر کام کرنے پر مجبور۔

شبیر رخشانی

نو عمر راشد حسین پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بننا چاہتے ہیں لیکن وہ کھیتی باڑی میں اپنے والد کا ہاتھ بٹانے پر مجبور ہیں اور یہ سوچ کر ذہنی تناؤ کا شکار رہتے ہیں کہ کیا وہ کبھی اعلیٰ تعلیم حاصل کر پائیں گے۔ 

وہ بلوچستان کے جنوبی ضلع آواران کے قصبے جھل جھاؤ میں رہتے ہیں جو ضلعی صدر مقام آواران سے 63 کلومیٹر جنوب مشرق میں واقع ہے۔ جب 2020 میں انہوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا تو صوبائی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ اور ان کے ساتھ میٹرک کرنے والے دوسرے مقامی لڑکے اس وقت تک جھل جھاؤ کے گورنمنٹ گرلز ہائر سیکنڈری سکول میں انٹرمیڈیٹ کی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں جب تک ان کے علاقے میں تعمیر کیا گیا بوائز انٹر کالج فعال نہیں ہو جاتا۔ 

لیکن وہ کہتے ہیں کہ چار کمروں پر مشتمل اس سکول میں داخلہ لینے کے بعد انہیں پتہ چلا کہ اس میں نہ تو انٹرمیڈیٹ کی تعلیم دینے کے لیے اساتذہ موجود تھے اور نہ ہی اس میں سائنس کی پڑھائی کے لیے درکار لیبارٹری وغیرہ کا انتظام کیا گیا تھا۔ چنانچہ انہوں نے اسے چھوڑ دیا اور کچھ دوستوں کے مشورے پر چھ سو کلومیٹر شمال میں واقع صوبائی صدرمقام کوئٹہ کے ایک کالج میں داخل ہو گئے۔ 

لیکن، ان کے مطابق، اس دوران ان کے والد کو پیاز کی فصل میں نقصان اٹھانا پڑا جس کی وجہ سے ان کے خاندان کے مالی حالات اتنے خراب ہو گئے کہ ان کے لیے کالج کے اخراجات اٹھانا ممکن نہ رہا۔ چنانچہ وہ تعلیم ترک کرکے گھر لوٹ آئے اور اپنے والد کے ساتھ کھیتوں میں کام کرنے لگے۔ 

تاہم انہوں نے اپنا ڈاکٹر بننے کا خواب ترک نہیں کیا اس لیے وہ ابھی بھی فارغ وقت میں اپنی کتابیں پڑھتے رہتے ہیں۔ اس دوران انہیں کوئی مشکل پیش آئے تو وہ فون پر اپنے اُن دوستوں سے رہنمائی لے لیتے ہیں جو ابھی تک کوئٹہ میں پڑھ رہے ہیں۔ انہیں یہ بھی امید ہے کہ اس سال ان کی کپاس کی فصل اچھی ہو گی اور ان کے والد انہیں پڑھائی کے لیے دوبارہ کوئٹہ بھیجنے کے قابل ہو جائیں گے۔

تاہم ان کے سابقہ ہم جماعت عبدالخالق کو یہ امید نہیں کہ وہ کبھی اپنی تعلیم دوبارہ شروع کر پائیں گے۔ راشد حسین کی طرح انہوں نے بھی 2020 میں میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد گورنمنٹ گرلز ہائر سیکنڈری سکول میں داخلہ لیا تھا لیکن اس میں اساتذہ کے نہ ہونے کی وجہ سے وہ پڑھائی چھوڑ کر مستری کا کام کرنے لگے۔ ان کے والد پیر جان کہتے ہیں کہ ''میرے بیٹے کی عمر محنت مزدوری کرنے کی نہیں ہے۔ میں نے سوچا بھی تھا کہ اسے اعلیٰ تعلیم دلواؤں گا لیکن میرے پاس اس مقصد کے لیے اسے کسی دوسرے شہر بھیجنے کے وسائل نہیں ہیں"۔ 

تعمیر میں مضمر خرابی

پانچ سال پہلے کی جانے والی سرکاری مردم شماری کے مطابق جھل جھاؤ کی آبادی تقریباً 40 ہزار ہے جس کی تعلیمی ضروریات کے پیش نظر صوبائی حکومت نے 2014 میں یہاں لڑکوں کے لیے ایک انٹر کالج بنانے کا فیصلہ کیا۔ 

اگلے دو سال میں اس کالج کی عمارت تو کھڑی ہو گئی لیکن اساتذہ کی تقرری نہ ہونے کی وجہ سے اس میں تدریسی عمل شروع نہ ہو سکا۔ اس حوالے سے کیے جانے والے پرزور عوامی مطالبات کے نتیجے میں پچھلے سال بالآخر حکومت نے آواران کے نواحی ضلع لسبیلہ کے علاقے وندر میں قائم ایک ڈگری کالج کے لیکچرار سراج احمد کو بوائز انٹر کالج جھل جھاؤ کے پرنسپل کا اضافی عہدہ دے کر انہیں کہا کہ وہ اسے فعال بنائیں۔ 

جب وہ کالج پہنچے تو انہوں نے اس کی عمارت کو کافی خستہ حالت میں پایا۔ ان کا کہنا ہے کہ "اس کی چاردیواری موجود ہی نہیں تھی، مرکزی ہال کا فرش بیٹھ چکا تھا، کمروں کے داخلی دروازے غائب تھے اور بیت الخلا پوری طرح بنائے ہی نہیں گئے تھے۔ اسی طرح اس میں بجلی کی وائرنگ بھی نہیں کی گئی تھی"۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ "جنوری 2022 میں جب میں نے باقی ماندہ تعمیراتی کام، فرنیچر اور وائرنگ کے لئے پیسے مانگے تو صوبائی ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن سے جواب آیا کہ کالج میں ابھی تدریسی عمل شروع نہیں ہوا اس لیے یہ پیسے فراہم نہیں کیے جا سکتے"۔

صوبائی محکمہ تعلیم کے جوائنٹ ڈائریکٹر کالجز باھو خان کھوسہ اس صورتِ حال کی ذمہ داری کالج میں اساتذہ کی عدم موجودگی پر ڈالتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس میں تدریسی عمل کے آغاز کا سرکاری اعلامیہ جاری ہونے تک حکومت اس کی مرمت اور تزئین کے لیے درکار پیسے نہیں دے سکتی لیکن، ان کے مطابق، یہ اعلامیہ اس وقت تک جاری نہیں ہو گا جب تک اساتذہ کی تعیناتی نہیں ہو جاتی۔

اسامیاں، بھرتیاں، منظوریاں

اس سال 65 طلبہ نے بوائز انٹر کالج جھل جھاؤ میں داخلہ تو لے لیا ہے لیکن انہیں تعلیم دینے کے لیے صرف اس کے پرنسپل اور انگریزی کے ایک لیکچرار ہی موجود ہیں۔ سراج احمد کہتے ہیں کہ دسمبر 2021 میں جب صوبائی سیکرٹری کالجز نے صرف ایک لیکچرار کی تعیناتی کی منظوری دی تو "میں نے ٹیلی فون پر ڈائریکٹر کالجز اور جوائنٹ ڈائریکٹر کالجز دونوں کو بتایا تھا کہ کالج چلانے کے لیے کم از کم پانچ لیکچرار چاہئیں"۔

تاہم ڈائریکٹر کالجز سراج کاکڑ سمجھتے ہیں کہ یہ مسئلہ جلد ہی حل ہو جائے گا کیونکہ، ان کے بقول، "جب طلبا کے داخلے مکمل ہو جائیں گے تو متعلقہ محکموں پر تدریسی عملے کی تعیناتی کے لیے عوامی دباؤ بڑھے گا جس کے نتیجے میں کالج میں اساتذہ کی خالی اسامیاں بھی پُر ہو جائیں گی"۔ 

آواران کے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر ریاض احمد رند ان سے متفق نہیں۔ وہ کہتے ہیں کالج میں تقرریوں کے لیے اساتذہ کا انتخاب بلوچستان پبلک سروس کمیشن کا کام ہے لیکن اس نے ابھی تک ان پر "بھرتی کا اشتہار بھی جاری نہیں کیا"۔  

صوبائی محکمہ ہائر ایجوکیشن کے سیکرٹری حافظ عبدالماجد بھی اساتذہ کی تعیناتی نہ ہونے کی یہی توجیہہ پیش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت صرف جھل جھاؤ میں ہی نہیں بلکہ بلوچستان بھر میں مجموعی طور پر کالج لیکچرار کی تین سو 80 اسامیاں خالی پڑی ہیں لیکن بلوچستان پبلک سروس کمیشن ان کے لیے موزوں امیدواروں کا انتخاب نہیں کر پا رہا۔ 

ان کا مزید کہنا ہے کہ ان کے محکمے نے یہ معاملہ صوبائی کابینہ کے سامنے بھی رکھا ہے تاکہ وہ یا تو ان اسامیوں پر عارضی تقرریاں کرنے کی اجازت دے یا صوبائی پبلک سروس کمیشن کے علاقائی دفاتر قائم کرنے کی منظوری دے تاکہ ان تعیناتیوں کے عمل میں تیزی لائی جا سکے۔ لیکن، ان کے مطابق، "تاحال اس معاملے میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی"۔

تاریخ اشاعت 28 اگست 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

شبیر رخشانی کا تعلق بلوچستان کے علاقے جھاؤ آواران سے ہے۔ مختلف صحافتی اداروں دنیا نیوز، روزنامہ آزادی آن لائن نیوز پیپر حال احوال کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔

thumb
سٹوری

انصاف کی راہ میں گھات لگائے راہزن: اپنی جان لینے والے نیسلے ملازم کی کہانی

arrow

مزید پڑھیں

User Faceامین وارثی

سولر لگانے والے کیوں پریشان ہیں؟

دریاؤں کے لئے کچھ کرنے کے عالمی دن پر دریائے سندھ کو خراج تحسین

مزدور انصاف مانگتا ہے، عدالت تاریخ دے دیتی ہے

thumb
سٹوری

گناہ بے لذت: گلگت بلتستان میں لوڈشیڈنگ کم کر نے کے لیے ڈیزل جنریٹرز، بجلی تو پھر بھی نہ آئی اور آلودگی بڑھ گئی

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر

برطانیہ کی پنجابی دشمنی ہمارے حکمران لے کر چل رہے ہیں

thumb
سٹوری

'کسان کھڑی فصلوں پہ ہل چلا رہے ہیں، سبزیوں کی اتنی بے قدری کبھی نہیں دیکھی'

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ریاض
thumb
سٹوری

شینا کوہستانی یا انڈس کوہستانی: اصلی 'کوہستانی' زبان کون سی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceزبیر توروالی
thumb
سٹوری

پاکستان میں لسانی شناختوں کی بنتی بگڑتی بساط: مردم شماریوں کے ڈیٹا کی نظر سے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceطاہر مہدی
thumb
سٹوری

'میواتی خود کو اردو کا وارث سمجھتے تھے اور اسے اپنی زبان مانتے رہے': ہجرت کے 76 سال بعد میواتی کو زبان کا درجہ کیسے ملا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceافضل انصاری
thumb
سٹوری

بڑے ڈیمز اور توانائی کے میگا منصوبےکیا واقعی ملک اور معیشت کے لیے ضروری ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان

درخت کاٹو یہاں سے بجلی گزرے گی

Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.