ناصر اعوان گزشتہ 30 سال سے اٹک شہر کے محلہ اعوان شریف میں مقیم ہیں۔ اِس سال جنوری میں ان کے علاقے کا واحد ٹیوب ویل زیر زمین پانی کی سطح کم ہو جانے کے سبب بند ہو گیا جس کے نتیجے میں 10 ہزار سے زیادہ آبادی پینے کے پانی سے محروم ہو گئی۔ اس ٹیوب ویل سے پانی کے ساتھ ریت اور بجری آنا شروع ہو گئی تھی جس سے سپلائی لائنیں بند ہونے کا خدشہ تھا لہٰذا بلدیہ حکام نے ٹیوب ویل بند کرنے میں ہی عافیت جانی۔
بعدازاں دوسرے ٹیوب ویلز کے مین پائپ اس علاقے کی سپلائی لائنوں کے ساتھ جوڑ دیے جس سے اعوان شریف کے لوگوں کو کم مقدار میں سہی مگر کئی ماہ بعد پانی میسر آنے لگا۔
وزیر خان پچھلے 13 سال سے اعوان شریف میں کے رہائشی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ چھ ماہ تک ان کا ٹیوب ویل بند رہا۔ بلدیہ اٹک کی جانب سے ہفتے میں دو دن پانی کا ٹینکر بھیجا جاتا تھا جو کسی گلی میں کھڑا کر دیا جاتا۔ لوگ وہاں سے پانی گھروں کو لے جاتے تھے۔ ٹینکر کا پانی آلودہ ہونے سے متعدد افراد پیٹ کے مختلف امراض کا شکار بھی ہوئے۔ اسی لیے اعوان شریف میں کرائے کے مکانوں میں رہنے والے سیکڑوں خاندان دوسروں علاقوں میں چلے گئے۔
انہوں نے بتایا کہ جب لوگوں نے اپنی مشکل دور کرنے کے لیے انتظامیہ سے درخواست کی تو ضلعی افسروں اور سیاسی عمائدین کی جانب سے علاقہ مکینوں کو یہی جواب موصول ہوا کہ نگراں حکومت میں کسی بھی قسم کا ترقیاتی کام نہیں کروایا جا سکتا۔
ضلع اٹک کی تحصیلوں میں میونسپل کمیٹیاں شہری آبادی کو پینے کا صاف پانی گھروں میں فراہم کرنے کا اہتمام کرتی ہیں۔ دیہات میں بیشتر آبادی ہاتھ اور بجلی سے چلنے والے پمپ اور کنوؤں کے ذریعے پانی حاصل کرتی ہے۔ اس کے علاوہ محکمہ پبلک ہیلتھ کی سکیموں کے تحت ٹیوب ویل بھی موجود ہیں۔ میونسپل کمیٹی تحصیل اٹک کی حدود میں مختلف مقامات پر نصب ٹیوب ویل پانی کی ضروریات پورا نہیں کر پاتے اور اگر ان میں سے کوئی ٹیوب ویل خراب ہو جائے تو شہریوں کی مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔
پانچ ہزار آبادی پر مشتمل جسیاں گاؤں اٹک شہر سے پانچ کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔ یہاں گزشتہ سال اکتوبر میں خراب ہونے والا ٹیوب ویل ابھی تک ٹھیک نہیں ہوا۔
یہاں رہنے والے عابد قریشی کا کہنا ہے کہ گاؤں میونسپل کمیٹی حدود سے باہر ہے۔ یہاں زیر زمین پانی چار سو سے پانچ سو فٹ گہرا ہے جو کھارا اور بدبودار ہونے کے باعث پینے کے قابل بھی نہیں۔ چند سال قبل سابق ایم این اے شیخ آفتاب احمد کے جاری کردہ فنڈ سے محکمہ پبلک ہیلتھ نے ایک ٹیوب ویل جناح پارک اٹک کے قریب لگوایا جس کا میٹھا پانی پائپ لائنوں کے ذریعے گاؤں میں لوگوں کے گھروں تک پہنچایا گیا۔
"گاؤں میں ساڑھے پانچ سو سے زیادہ کنکشن دیے گئے۔ پانی کا ماہانہ بل شروع میں چار سو روپے فی گھر وصول کیا جاتا رہا جو بڑھ کر سات سو روپے تک پہنچ گیا۔ گزشتہ سال اس ٹیوب ویل کا بور ناکارہ ہونے کے بعد لوگوں کو پانی فراہم نہیں کیا جا رہا۔"
عابد قریشی نے بتایا کہ جن گھروں میں بور اور موٹریں لگی ہیں۔ مخصوص اوقات میں لوگ ان سے ایک دو بالٹی پانی لے جاتے ہیں تاہم بیشتر کا پانی کھارا ہے۔
اسی گاؤں کے سجاد کا کہنا ہے کہ یہاں محکمہ پبلک ہیلتھ نے چند سال قبل مختلف مقامات پر دو ٹیوب ویل نصب کیے تھے۔ ان میں سے ایک دو ہفتوں بعد ہی بند ہو گیا جبکہ دوسرے ٹیوب ویل کا پانی بدبودار ہے۔
انہوں نے بتایا کہ چند سال قبل سابق ایم پی اے ملک شاہان حاکمین نے دریائے ہرو کے قریب قدرتی چشمے (جسے مقامی زبان میں چووا کہتے ہیں) کا پانی موٹروں سے گاؤں تک پہنچایا۔ یہ قابل استعمال تھا لیکن سیلاب آیا اور سب کچھ بہا کر لے گیا، یوں یہ قصہ بھی تمام ہوا۔
اس گاؤں میں رہنے والے الیکٹریشن امتیاز کا کہنا ہے کہ غریب لوگ پانی کی پرائیویٹ ٹینکی 22 سو روپے میں نہیں خرید سکتے۔ اگر کبھی مجبوراً ایسا کرنا پڑ جائے تو دو تین پڑوسی مل کر منگوا تو لیتے ہیں لیکن پورے مہینے کا بجٹ متاثر ہو جاتا ہے۔ گھر میں بورنگ کا خرچ چار لاکھ سے زیادہ ہے اور اس کی بھی کوئی گارنٹی نہیں کہ نکلنے والا پانی قابل استعمال ہو گا یا نہیں۔"
ظفر اقبال بلدیہ اٹک میں 40 برس سے ملازم اور واٹر سپلائی کے انچارج ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اٹک شہر میں شہریوں کو پانی کی فراہمی کے لیے مختلف مقامات پر 42 ٹیوب ویل نصب ہیں۔ زیر زمین پانی کی سطح نیچے ہو جانے سے 11 ٹیوب ویل بند کر دیے گئے ہیں جبکہ مزید 10 اپنی مقررہ معیاد پوری کر چکے اور کسی بھی وقت بند ہو سکتے ہیں۔
"جب میں نے بلدیہ اٹک میں ملازمت اختیار کی تو اس وقت زیر زمین پانی کی سطح 45 سے 50 فٹ پر ہوا کرتی تھی۔ 1995ء میں غازی بروتھا نہر پروجیکٹ کا کام شروع ہوا۔ کنکریٹ سے بنی یہ نہر 2003ء میں مکمل ہوئی۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ پانی کی سطح ڈیڑھ سو فٹ سے بھی زیادہ مزید نیچے چلی گئی۔"
ان کے مطابق دریائے سندھ کے پانی کا زیر زمین رساؤ یا سیپج اٹک شہر تک نہیں پہنچ پاتا۔ اس سے زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک نیچے جا چکی ہے۔
غازی بروتھا نہر میں ہر دو سو فٹ کے فاصلے پر ہیوی موٹریں بھی لگائی گئی ہیں جو زیر زمین پانی نکال کر نہر میں پھینک رہی ہیں جس سے شہر اور گرد ونواح میں پانی کی سطح میں مزید گراوٹ ہو رہی ہے۔ زیرزمین پانی کم یاب ہونے سے ڈہوک فتح، محلہ سمندر آباد، محلہ آمین آباد، محلہ شاہ آباد، جی بلاک، اعوان شریف اور دیگر شہری آبادی کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ میونسپل کمیٹی انہیں دور دراز کے علاقوں میں لگے ٹیوب ویل کا پانی سپلائی کرتی ہے۔
ٹیوب ویل میں 30 ہارس پاور کی ہیوی موٹریں لگائی جاتی ہیں جس سے پانی کی ٹینکیوں کو بھرا جاتا ہے۔ یہ موٹریں گرمیوں میں پانی کی مانگ بڑھنے پر مسلسل چلتی ہیں۔ بجلی اس قدر مہنگی ہے کہ صرف ٹیوب ویلوں پر استعمال ہونے والی بجلی کا ماہانہ بل ڈیڑھ کروڑ روپے تک آجاتا ہے۔ شہر بھر میں صارفین کو پانی کے 14 ہزار کنکشن دیے گئے ہیں اور ان سے تین سو روپے فی گھر وصول کیے جاتے ہیں۔ پانی کے بلوں کی مد میں بلدیہ اٹک کو 42 لاکھ روپے ماہانہ موصول ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
کوئٹہ میں موجود غیر قانونی ٹیوب ویل: عوام پینے کے پانی کے لیے ٹینکر مافیا کے رحم و کرم پر
انہوں نے کہا کہ دریائے ہرو کے پانی کا سیپج جس علاقے میں زیادہ ہے وہاں زیر زمین پانی ستر سے 80 فٹ گہرا ہے۔ وہاں کم ٹیوب ویل لگا کرشہر میں پانی فراہم کیا جا سکتا ہے۔
چیف آفیسر بلدیہ اٹک مبارک علی نے بتایا کہ ضلع اٹک کی تحصیل حضرو ، جنڈ اور پنڈی گھیب میں ٹیوب ویل سے شہری آبادی کو پینے کا صاف پانی فراہم کرتے ہیں جبکہ تحصیل حسن ابدال میں قدرتی چشموں اور تحصیل فتح جنگ میں شاہ پور ڈیم کا پانی شہریوں کو ملتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ بلدیہ اٹک کے اخراجات18 کروڑ روپے سالانہ ہیں۔ بجلی اور سوئی گیس کی طرح پانی کے بلوں میں فوراً اضافہ کیا جائے اور صارفین سے 15 سو روپے ماہانہ کے حساب سے وصولی کی جائے تو اس نظام کو کسی حد تک چلانا ممکن ہے۔
تاریخ اشاعت 6 ستمبر 2023