"راولپنڈی کی پیر مہر علی شاہ بارانی زرعی یونیورسٹی کا اٹک میں ذیلی کیمپس بند ہونے سے میری بیٹی کو اپنی تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑی۔ مالی وسائل کم ہونے کے باعث میں اسے دوسرے شہر نہیں بھیج سکتا تھا۔"
یہ کہنا ہے خان زمان کا جو اپنے گھر اور بیٹی کی تعلیم کے اخراجات بمشکل پورے کر رہے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کی بیٹی پڑھ لکھ کر شعبہ زراعت میں نوکری کرنا چاہتی تھی لیکن اب وہ گھر بیٹھی ہے۔
علی عمیر کے لیے بی ایس سی ایگریکلچر کی ڈگری کا حصول راولپنڈی منتقل ہونے ہی سے ممکن ہوا۔ ان کے مطابق اٹک کے ذیلی کیمپس میں کلاسز ختم ہونے کے بعد ان سمیت تمام طلبہ کو بتایا گیا کہ انھیں راولپنڈی میں یونیورسٹی کے مین کیمپس جانا ہوگا۔
"میرے والد ایک ٹیلی فون کمپنی میں معمولی اجرت پر ملازمت کرتے تھے۔ میں نے انہیں بتایا کہ راولپنڈی کیمپس جانے سے میرے اخراجات بہت بڑھ جائیں گے۔ انھوں نے جیسے تیسے اخراجات دینے کی حامی بھر لی لیکن انھیں اس میں بہت سی مشکلات پیش آئیں۔"
عمیر بتاتے ہیں کہ اٹک کیمپس میں ان کے ماہانہ چھ سے آٹھ ہزار روپے کے اخراجات راولپنڈی میں بڑھ کر 15 ہزار روپے ہو گئے۔
اسامہ ایوب تعلیم مکمل کرنے کے بعد اب ایک فوڈ فیکٹری میں بطور کوالٹی کنٹرولر کام کر رہے ہیں۔ وہ ان 150 طلبہ میں شامل تھے جنہیں اٹک کا ذیلی کیمپس بند ہونے کے بعد بارانی زرعی یونیورسٹی راولپنڈی منتقل ہونا پڑا۔
انہوں نے بتایا کہ انھیں مالی مشکلات نہیں تھیں البتہ راولپنڈی مہں دیگر مسائل پیش آئے۔
"ہم چار کلاس فیلوز کو نجی ہاسٹل میں رہنا پڑا جہاں کھانے اور رہنے کا معیار اچھا نہیں تھا۔ ٹانگوں سے معذور میرے ایک کلاس فیلو کو کیمپس اور گھر آنے جانے میں دشواری کا سامنا رہا۔"
اٹک میں یونیورسٹی کے ذیلی کیمپس کی منظوری 2014ء میں دی گئی تھی اور اس امید کے ساتھ سرکاری کالج سے مستعار لیے گئے چند کمروں میں کلاسوں کا آغاز کیا گیا کہ کیمپس تعمیر ہونے پر انہیں وہاں منتقل کر دیا جائے گا۔
ذیلی کیمپس کے پراجیکٹ ڈائریکٹر زوہیر حسنین کے مطابق کیمپس کی منظوری ملتے ہی انتظامیہ نے اس کے لیے ایک ہزار کنال اراضی کی خریداری کا عمل شروع کر دیا تھا جو 2016ء میں مکمل ہوا۔ اس پر 11 کروڑ 20 لاکھ روپے لاگت آئی۔ ان کے مطابق ابتدائی طور پر عمارت کی تعمیر کے لیے آٹھ کروڑ 80 لاکھ روپے کے فنڈزجاری کیے گئے تھے۔ ذیلی کیمپس میں ابتداً ایف سی پری ایگریکلچر اور بی ایس سی ایگریکلچر آنرز کی کلاسیں شروع کی گئیں۔
2015ء سے 2019ء تک اس کیمیپس میں بالترتیب 59، 88، 84، 36 اور 44 طلبہ کو داخلہ ملا۔ 2019ء میں یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر ندیم اختر عباس مرحوم نے اس عارضی کیمپس کو بند کرنے کے احکامات جاری کر دیے۔ انہوں نے اس کا سبب یہ بتایا کہ چند کمروں میں طلبہ کو معیاری تعلیم بھی نہیں دی جا سکتی اور یہ ڈیکورم کے خلاف ہے۔اس وقت تک کیمپس کی عمارت مکمل نہیں ہو پائی تھی۔
سابق وفاقی وزیر شیخ آفتاب احمد دعویٰ کرتے ہیں کہ اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے اس کیمپس کی منظوری ان کی کاوشوں کا ثمر ہے۔ اٹک کی ضلعی حکومت نے ہنگامی بنیادوں پر اس مقصد کے لیے مطلوبہ اراضی خریدی اور 2016ء میں اس کا سنگ رکھ کر عارضی طور پر سرکاری عمارت میں کلاسوں کا آغاز بھی کروا دیا۔
"بدقسمتی سے 2018ء میں ہماری حکومت نہ بن سکی اور نئی حکومت نے منصوبے پر تاخیر حربے اختیار کرنا شروع کر دیے۔ یہاں تک کہ 2019ء میں کلاسز ختم کروا دی گئیں اور زیر تعلیم طلبہ کو کہا گیا کہ باقی ماندہ تعلیم کے لیے وہ بارانی زرعی یونیورسٹی راولپنڈی چلے جائیں۔ اس سے کئی طلبہ کو مالی اور دیگر مسائل پیش آئے۔"
انھوں نے الزام عائد کیا کہ پاکستان تحریک انصاف کی پچھلی حکومت نے اس منصوبے کو رکوانے کی کوشش کی۔ منصوبے کا آڈٹ بھی کروایا گیا لیکن کچھ نہیں ملا۔ ان کے مطابق اس کیمپس کے باقی ماندہ کام کی تکمیل کے لیے فنڈز منظور کروا لیے گئے ہیں۔
دوسری جانب سابق حکومت میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم کہتے ہیں کہ بارانی زرعی یونیورسٹی کے اٹک میں ذیلی کیمپس کے پی سی ون میں مختص کی گئی زیادہ تر رقم صرف مہنگے نرخ پر زمین خریدنے کے لیے خرچ کر دی گئی۔ اس سے کیمپس کے تعمیراتی کام کے لیے کچھ نہیں بچا تھا۔
ان کے مطابق داخلہ لیتے وقت طلبہ کو اصل صورت حال سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ گورنمنٹ کالج اٹک کے چند کلاس رومز میں کلاسوں کا آغاز کر دیا گیا اور ہائر ایجوکیشن کمیشن سے زراعت کی ڈگری کی منظوری بھی نہیں لی گئی تھی۔ پی ٹی آئی حکومت نے طلبہ کو ڈگری دلوانے کے لیے ہی راولپنڈی منتقل کیا۔
یہ بھی پڑھیں
یونیورسٹی آف میانوالی: وزٹنگ فیکلٹی سے پڑھیں اور لیب کے بغیر مائیکرو بیالوجی کی ڈگری حاصل کریں
زہیر حسنین کے مطابق اب تک اس کیمپس کی تعمیر پر 78 کروڑ 60 لاکھ روپے خرچ کیے جا چکے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ایڈمن بلاک، اکیڈمک بلاک، گرلز ہاسٹل، بوائز ہاسٹل، لائبریری، مسجد، ہیلتھ سنٹر، ورکس آفس، ریسرچ سنٹر، منی مارکیٹ اور فیکلٹی ہاسٹل کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے۔ تاہم فنڈز کی کمی کی وجہ سے ابھی تک بجلی کی فراہمی، کیمپس کے اندر سڑکوں کی تعمیر، ٹیوب ویل کی تنصیب، نکاسی آب اور سیوریج کے کام کا آغاز نہیں ہو سکا۔ ان مقاصد کے لیے 33 کروڑ روپے کے فنڈز درکار ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ تعمیراتی کام میں رکاوٹ کا ایک سبب پنجاب اسمبلی کی تحلیل بھی ہے کیونکہ نگران حکومت فنڈز جاری نہیں کر سکتی۔ انھوں نے کہا کہ جونہی مذکورہ بالا کام مکمل ہو گئے تو کلاسوں کا آغاز کر دیا جائے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ کہ ذیلی کیمپس کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد ابتدائی طور پر بی ایس زراعت، بی ایس معاشیات، بی ایس ریاضی اور بی ایس بیالوجی میں طلبہ کو داخلہ دیا جائے گا۔ یہاں کم فیس میں معیاری تعلیم کی سہولت میسر ہو گی جس سے کم آمدن والے گھرانوں کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکیں گے۔
تاریخ اشاعت 17 جولائی 2023