تعلیمی اداروں میں انسداد ہراسانی کمیٹیاں آزادانہ کردار ادا کرنےسے قاصر کیوں ہیں؟

postImg

انیلہ اشرف

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

تعلیمی اداروں میں انسداد ہراسانی کمیٹیاں آزادانہ کردار ادا کرنےسے قاصر کیوں ہیں؟

انیلہ اشرف

loop

انگریزی میں پڑھیں

اعلیٰ تعلیم کے تمام ملکی اداروں میں جنسی ہراسانی سے تحفظ کے لیے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) نے 2020ء میں ایک پالیسی تشکیل دی تھی۔ ایچ ای سی کی پالیسی دستاویز کے مطابق اسے دس برس قبل منظور ہونے والے 'پروٹیکشن اگینسٹ ہراسمنٹ آف ویمن ایٹ دی ورک پلیس ایکٹ' کی روشنی میں بنایا گیا ہے۔ طلبا و طالبات، فیکلٹی اور ادارے سے وابستہ دیگر افراد کے علاوہ وہاں رہنے اور آنے والے لوگ اس کے دائرہ کار میں شامل ہیں۔

اس پالیسی میں اعلیٰ تعلیم کے اداروں کو کہا گیا ہے کہ وہ جنسی ہراسانی کی شکایت پر فوری معاونت کے لیے انتظامیہ کے کم از کم دو افراد کو فوکل پرسن نامزد کریں جن میں سے ایک کا خاتون ہونا ضروری ہے۔ نیز اداروں میں جنسی ہراسانی کی شکایت کی تفتیش کے لیے تین رکنی انکوائری کمیٹی بھی تشکیل دی جائے۔

تاہم بہت سے اداروں میں تاحال ایسی کوئی پالیسی تشکیل نہیں دی جا سکی۔

این ایف سی انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹی کی لیکچرر انجینئر مہوش قریشی کہتی ہیں کہ انسداد ہراسانی کمیٹی نہ ہونے کے باعث ان کا کیس جامعہ میں انضباطی کمیٹی کے حوالے کیا گیا۔ "اگرچہ ملزم کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیا ہے تاہم تاحال جامعہ میں انسداد ہراسانی کمیٹی تشکیل نہیں دی جا سکی۔"

انہوں نے بتایا کہ جامعہ میں انسداد ہراسانی ایکٹ یا متعلقہ معلومات آویزاں نہ ہونے کے باعث انہیں بھی ایسے امور کے متعلق زیادہ علم نہیں تھا۔

بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر سیما محمود کا خیال ہے کہ طالبہ اور خواتین اساتذہ دونوں ہراسانی کا شکار ہو رہے ہیں۔ "جامعات میں ہراسانی کی شکایت کرنے پر انہیں خاموش یا خوفزدہ کر دیا جاتا ہے جس کے بعد متاثرین اکثر اپنے کیس سے دست بردار ہو جاتے ہیں۔ بعض طالبات تعلیم ادھوری چھوڑ دیتی ہیں اور گوشہ نشینی اختیار کر لیتی ہیں"

ان کا کہنا ہے کہ جب وہ انسداد ہراسانی سیل کی سربراہ تھیں، اسسٹنٹ پروفیسر نعمان واصف پر ایک معذور طالبہ کو جنسی طور پر ہراسانی کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ 2020ء میں انہوں نے مخالفت کے باوجود اپنے فیصلے میں سینڈیکیٹ کو ان کی برطرفی کی سفارش کی۔ بعد ازاں یہ کیس ایف آئی اے کو رپورٹ ہوا جس کی تحقیقات کی روشنی میں ملزم کو ملازمت سے برطرف کیا گیا۔ وہ سمجھتی ہیں کہ کئی مرتبہ انسداد ہراسانی کمیٹی یا سیل میں حق دار عورتوں کو جگہ نہیں ملتی۔

بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر رفیدہ نواز نے 2018ء میں اپنے شعبہ انٹرنیشنل ریلیشن کے چیئرپرسن ڈاکٹر عمرفاروق زین پر ہراسانی کا الزام لگایا۔ ان کا کیس تین سال سے سینڈیکیٹ اور صوبائی خاتون محتسب کے پاس زیرالتوا ہے۔ اس دوران ملزم ڈین کے عہدہ پر ترقی پا چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایک سابق وی سی نے ان کی شکایت پر ایکشن لینے کے بجائے انہیں بلا کر کہا کہ "آپ کا پولیٹکل سائنس میں تبادلہ کر دیتے ہیں تاکہ آپ سکون سے کام کر سکیں۔"

جامعہ کے انسداد ہراسانی سیل کو نائب قاصد اصغر کے خلاف طالبات کو غیر اخلاقی پیغامات بھیجنے اور بلیک میل کرنے کی شکایت موصول ہوئی۔ نائب قاصد اصغر کے خلاف پیڈا ایکٹ کے تحت کارروائی عمل میں لائی گئی ہے۔ البتہ بعدازاں اس کا تبادلہ دوسرے ڈیپارٹمنٹ میں کر دیا گیا۔

2022ء میں جامعہ بہاءالدین زکریا ملتان کے شعبہ باٹنی کی طالبہ شکیلہ (فرضی نام) نے بتایا کہ مائیکرو بیالوجی کے ایک لیکچرار کئی ماہ سے انہیں جنسی طور پر ہراساں کرتے رہے۔ وہ انہیں واٹس ایپ کے ذریعے گھر آنے کے پیغامات دیتے اور غیرشائستہ پیغامات اور ویڈیو بھیجتے ہیں۔ ان کے مطابق انہوں نے سکرین شارٹس بھی پیش کیے لیکن جامعہ کی انتظامیہ نے کوئی کارروائی کرنے کے بجائے ان پر درخواست واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالا اور ملزم نے بھی انہیں دھمکایا۔ بالآخر انہوں نے نہ صرف شکایت واپس لے لی بلکہ اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر گھر واپس لوٹ گئیں۔

یونیورسٹی کی ایک اہلکار وزیراں بی بی نے وائس چانسلر کو درخواست دی کہ سکیورٹی آفیسر انہیں کافی عرصہ سے ہراساں کر رہے ہیں۔ اس شکایت کی تصدیق ان کے دفتر نے بھی کی ہے تاہم کا ابھی تک اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

کچھ عرصہ قبل جامعہ بہاالدین زکریا کے شعبہ اردو کے چیئر پرسن ڈاکٹر ممتاز کلیانی کے خلاف ہراسانی کی شکایت پر انہیں خبردار کیا گیا مگر الزامات سے بری قرار دے دیا گیا۔ اس کیس میں جامعہ نے تین اساتذہ پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی تھی۔ کیس ایسے وقت میں سامنے آیا جب ان کی مدت ملازمت ختم ہونے کو تھی۔ یہ ان کے خلاف دوسرا کیس تھا۔

جامعہ زکریا شعبہ اردو ایم فل کی متاثرہ طالبہ شمیم (فرضی نام) کہتی ہیں کہ وہ کئی ماہ سے ذہنی اذیت میں مبتلا ہیں۔ شعبہ کے چیئرپرسن ڈاکٹر ممتاز کلیانی نے انہیں اپنے دفتر بلایا اور چہرے سے حجاب اتارنے کے لیے دباؤ ڈالا اور بات نہ ماننے پر بعد ازاں فیل کرنے کی دھمکی دی۔

"نتیجہ آیا تو میں فیل تھی۔ میری کہیں شنوائی نہیں ہو سکی۔ میں نے محتسب اور گورنر کو درخواست دے رکھی ہے۔ مجھ یونیورسٹی اور ہاسٹل سے بھی بے دخل کر دیا گیا ہے۔"

یہ بھی پڑھیں

postImg

جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی طالبہ کے شوھر نے انہیں چھوڑ دیا، "بہت سی طالبات بدنامی کے خوف سے خاموش ہیں"

جامعہ زکریا ملتان میں انسداد ہراسانی سیل کے چیئر پرسن ڈاکٹر عابد کھرل کہتے ہیں کہ انہیں دو ماہ پہلے چارج ملا ہے اور جامعہ میں ایسے صرف دو کیس رپورٹ ہوئے ہیں جن میں سے ایک ڈاکٹر ممتاز کلیانی کے خلاف تھا جو نمٹا دیا گیا جبکہ دوسرا شعبہ ایگری کلچر کا ہے۔

جامعہ زکریا کے ذرائع کے مطابق یونیورسٹی میں انسداد ہراسانی سیل کے دو ارکان ڈاکٹر لابر اور ڈاکٹر غزالہ یاسمین برسوں سے تعینات ہیں۔ سیکرٹری جامعہ کے رجسٹرار ہیں۔ رواں سال چوتھی ممبر ڈاکٹر روما کا اضافہ کیا گیا ہے۔

 بہاالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کی پروفیسر ڈاکٹر سیما محمود کہتی ہیں کہ 14-2013 میں انہیں اپنے شعبہ کی ڈائریکٹر بنایا گیا۔ ان کے مطابق اس عہدے کے امیدوار پروفیسر علیم خان نے ایک موقع پر دیگر ساتھیوں کے سامنے انہیں تھپٹر مارنے کی کوشش کی اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔ اس پر انہوں نے وی سی کو شکایت کی تاہم عملی اقدامات نہ ہونے پر 2015ء میں وفاقی محتسب کو تحریری شکایت کی۔ محتسب نے ملزم کے خلاف کارروائی کے لیے جامعہ کو ہدایت دی جسے اسے نظر انداز کر دیا گیا اور ملزم شعبے کا ڈائریکٹر بھی بن گیا۔ بعدازاں انسداد ہراسانی سیل کی سربراہی ان سے لے کر ملزم کےحوالے کر دی گئی۔

ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ ملتان ریجن کے مطابق اسے اب تک صرف بہاءالدین زکریا یونیورسٹی سے ہی دو شکایات موصول ہوئی تھیں جن میں سے ایک 2019ء میں اسسٹنٹ پروفیسر نعمان واصف اور دوسری شعبہ نفسیات کے کلرک اور بیالوجی کے طالب علم کے خلاف 2022ء میں ملی۔ ان پر طالبات کو ہراساں کرنے اور بلیک میل کرنے کا الزام تھا اور تینوں ملزموں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی گئی۔

تاریخ اشاعت 9 اکتوبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

انیلہ اشرف ملتان سے تعلق رکھنے والی تحقیقاتی صحافی و سماجی کارکن ہیں۔ گذشتہ 19 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔

thumb
سٹوری

خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کس حال میں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
thumb
سٹوری

ملک میں بجلی کی پیداوار میں "اضافہ" مگر لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

سولر توانائی کی صلاحیت: کیا بلوچستان واقعی 'سونے کا اںڈا دینے والی مرغی" ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحبیبہ زلّا رحمٰن
thumb
سٹوری

بلوچستان کے ہنرمند اور محنت کش سولر توانائی سے کس طرح استفادہ کر رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

چمن و قلعہ عبداللہ: سیب و انگور کے باغات مالکان آج کل کیوں خوش ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحضرت علی
thumb
سٹوری

دیہی آبادی کے لیے بجلی و گیس کے بھاری بلوں کا متبادل کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعزیز الرحمن صباؤن

اوور بلنگ: اتنا بل نہیں جتنے ٹیکس ہیں

thumb
سٹوری

عبدالرحیم کے بیٹے دبئی چھوڑ کر آواران کیوں آ گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

"وسائل ہوں تو کاشتکار کے لیے سولر ٹیوب ویل سے بڑی سہولت کوئی نہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

لاہور کے کن علاقوں میں سب سے زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

بلوچستان: بجلی نہ ملی تو لاکھوں کے باغات کوڑیوں میں جائیں گے

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں چھوٹے پن بجلی منصوبوں کے ساتھ کیا ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.