ہسپتال ہیں مگر علاج نہیں: بلوچستان میں خواتین کے لیے زچگی زندگی و موت کی جنگ بن گئی

postImg

سعدیہ جہانگیر

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

ہسپتال ہیں مگر علاج نہیں: بلوچستان میں خواتین کے لیے زچگی زندگی و موت کی جنگ بن گئی

سعدیہ جہانگیر

loop

انگریزی میں پڑھیں

زرینہ سول ہسپتال کوئٹہ کے گائنی وارڈ میں بینچ پر بیٹھی ہیں۔ان کی عمر لگ بھگ 21 سال اور تعلق ایک پشتون قبیلے سے ہے۔ وہ کوئٹہ کے نواحی علاقے اوڑک میں رہتی ہیں۔ ان کے ہونے والے بچے کا ان کے پیٹ میں ہی انتقال ہو گیا ہے اور انہیں ہنگامی بنیاد پر علاج کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ پہلی بار ماں بننے والی تھیں لیکن انہوں نےچار ماہ کے دوران  کبھی کسی ڈاکٹر سے رجوع نہیں کیا۔ اوڑک کے مرکز صحت میں خاتون ڈاکٹر ہی نہیں ہیں اس لیے وہ وہاں بھی نہیں گئیں۔ مناسب رہنمائی اور نگہداشت نہ ہونے کے سبب ان کا بچہ زندہ نہ رہ سکا۔ جب صورتحال کا اندازہ ہوا تو تب بہت دیر ہو چکی تھی اور اب وہ آپریشن کروانے کی منتظر ہیں۔

یہ کہہ کر وہ قریب بیٹھی معمر خاتون کے ساتھ کھانا کھانے میں مصروف ہو گئیں۔

 اس ہسپتال کے گائنی وارڈ میں زرینہ جیسی بہت سی نوجوان خواتین دکھائی دیتی ہیں جو صوبے کے دور دراز علاقوں سے میلوں سفر طے کر کے آئی ہیں۔

بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں طبی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔کئی خواتین زچگی کے دوران دم توڑ جاتی ہیں یا پیدائش سے پہلے ہی بچے سے محروم ہو جاتی ہیں۔

پاکستان میٹرنل مورٹیلٹی سروے 2019ء کے مطابق ملک میں زچگی کے دوران اموات کی سب سے زیادہ شرح بلوچستان میں ہے جہاں ایک لاکھ میں سے 298 مائیں دوران زچگی انتقال کر جاتی ہیں۔

ملکی سطح پر ماؤں کی اموات کا تناسب ایک لاکھ پر 187 ہے یعنی بلوچستان میں اموات کی شرح باقی ملک سے تقریباً 40 فیصد زیادہ ہے۔

ماہر امراض نسواں ڈاکٹر گل ناز بلوچ بتاتی ہیں کہ دیہی علاقوں میں آج بھی زچگی گھروں میں کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اکثر اوقات غیر تربیت یافتہ دائیاں معاملے کو پیچیدہ بنادیتی ہیں۔ایسی صورت میں ڈاکٹروں کے لیے آپشن کم رہ جاتے ہیں اور اس کا براہ راست اثر ماں اور بچے کی زندگی پر پڑتا ہے۔

پینتالیس سالہ میران بگٹی بھی گائنی وارڈ کے باہر بیٹھے ہیں۔وہ ڈیرہ بگٹی سے 360کلومیٹر  سفر کر کے اپنی اہلیہ  کو سول ہسپتال لائے جو زچگی کے دوران چل بسیں۔ اب نوزائیدہ سمیت ان چار بچوں کی ذمہ داری انہی کےکندھوں پر آن پڑی ہے۔

میران بتاتے ہیں کہ ان کے علاقے میں ہسپتال کی عمارت تو ہے مگر وہاں کوئی طبی سہولت ہے نہ ہی لیڈی ڈاکٹر۔ اسی لیے وہاں سے حاملہ خواتین کو طویل سفر طے کر کے کوئٹہ آنا پڑتا ہے۔

محکمہ صحت کے مطابق بلوچستان کے 34 اضلاع میں نو ٹیچنگ ہسپتال، دو ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ہسپتال، 28 ڈی ایچ کیو، پانچ ٹی ایچ کیو ہسپتال،784 دیہی و بنیادی مراکز صحت اور 91 زچہ و بچہ سنٹر قائم کیے گئے ہیں۔

اعداو شمار کو دیکھا جائے تو صوبے میں مراکز صحت  کی تعداد اتنی کم نہیں ہے۔ مگر ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز بلوچستان ڈاکٹر نور قاضی کا کہنا ہے ہسپتالوں اور مراکز صحت میں تربیت یافتہ عملے کی کمی ہےاور خواتین کو طبی سہولیات سے آراستہ ہسپتالوں اور صحت کے مراکز تک رسائی میں مشکلات ہیں۔

صحافی پلہان خان بگٹی کہتے ہیں کہ ڈیرہ بگٹی کے ضلعی ہسپتال میں لیڈی ڈاکٹر کبھی آئی ہی نہیں۔جنہیں بھی وہاں تعینات کیا جاتا ہے وہ کوئٹہ میں ڈیوٹی لگوا لیتی ہیں یا گھر بیٹھے تنخواہیں لیتی رہتی ہیں۔ یہاں سے زچگی کے لیے زیادہ تر خواتین دو، ڈھائی سو کلو میٹر دور رحیم یار خان یا سکھر لے جائی جاتی ہیں اور ان کی کچھ تعداد کوئٹہ کا رخ کرتی ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ڈیرہ بگٹی میں لیڈی ڈاکٹر نہ ہونے کی وجہ سے 2018 ءمیں 20 روز کے دوران سات حاملہ خواتین جاں بحق ہو گئی تھیں ان خواتین کو ڈیرہ بگٹی سے رحیم یار خان ریفر کیا گیا لیکن خراب سڑک اور زیادہ فاصلے کی وجہ سے راستے میں ہی دم توڑ گئیں۔

ڈیرہ بگٹی کے ضلعی ہیلتھ آفیسر کہتے ہیں کہ ڈی ایچ کیو ہسپتال میں لیڈی ڈاکٹر سہولیات نہ ملنے اور دیگر مسائل کی وجہ سے ڈیوٹی پر حاضر نہیں ہوتیں۔

"ایک مقامی لیڈی ڈاکٹر کو یہاں عارضی طور پر تعینات کیا گیا ہے۔مگر وہ بھی قبائلی رسوم و رواج کی بنا پر ہسپتال آنے پر رضامند نہیں ہیں "۔

گل ناز بلوچ کہتی ہیں کہ دیہی اضلاع میں مناسب رہائش اور سکیورٹی میسر ہوتو لیڈی ڈاکٹر وہاں جانے پر زیادہ اعتراض نہیں کرتیں۔مگر  ڈی ایچ کیو میں طبی عملہ ہی پورا نہیں ہوتا یہاں تک کہ زچگی میں استعمال ہونے والے آلات اور دوائیں بھی دستیاب نہیں ہوتیں۔

محکمہ صحت بلوچستان کے پاس زچگی کے دوران ہونے والی اموات کا ڈیٹا دستیاب نہیں ہے۔ صرف ڈیرہ بگٹی ہی نہیں ،بارکھان، شیرانی، آواران، کوہلو، موسیٰ خیل، واشک، خاران سمیت کئی اضلاع میں بھی زچگی کے دوران ماؤں کی اموات کی شرح زیادہ ہے۔لیکن حکام اس دعوے کی تصدیق یا تردید نہیں کرتے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

پورے ضلع صحبت پور میں ایک لیڈی ڈاکٹر: 'ایسا نہ ہوتا تو بیٹی کے سر پر ماں کا سایہ سلامت ہوتا'

بلوچستان حکومت نے آئندہ چار سال میں زچگی کے دوران اموت کا تناسب 298 سے کم کر کے 200 تک لانے کا ہدف مقرر کررکھا ہے۔ تاہم اس پروگرام کے سربراہ ڈاکٹر سمین خان بتاتے ہیں کہ پروگرام کو فنڈز، ماہرڈاکٹرز، لیڈی ڈاکٹروں اور سٹاف کی کمی کا سامنا ہے۔اس لیے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارے پاپولیشن فنڈ (یو این ایف پی اے)کے مطابق تقریباً ہر پانچ میں سے ایک خاتون میں دوران زچگی پیچیدگیاں پیدا ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ایسے کیسوں کے لیے اعلیٰ پیشہ ورانہ مہارت کی ضرورت پڑ سکتی ہے لیکن بلوچستان میں صرف ماہر ڈاکٹروں کی ہی نہیں بلکہ تربیت یافتہ دائیوں کی بھی کمی ہے۔

اس کے باوجود ڈاکٹر نور قاضی پر امید ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ حکومت ماں اوربچوں کی شرح اموات کم کرنے کے لیے کوشاں ہے اور ضلعی سطح پر بہتر طبی سہولیات کی فراہمی کے لیے جلد مزید ڈاکٹر تعینات کیے جائیں گے۔

تاریخ اشاعت 26 ستمبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

سعدیہ جہانگیر گزشتہ 16 برس سے صحافت کررہی ہیں، وہ مختلف صحافتی اداروں کے ساتھ منسلک رہنے کے ساتھ ساتھ مختلف موضوعات پر لکھتی بھی ہیں۔

thumb
سٹوری

لیبیا میں قید باجوڑ کے سیکڑوں نوجوان کب وطن واپس آئیں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی

جامشورو کول پاور پلانٹ: بجلی مل جائے گی لیکن ہوا، زمین اور پانی سب ڈوب جائے گا

تعصب اور تفریق کا سامنا کرتی پاکستانی اقلیتیں: 'نچلی ذات میں پیدا ہونا ہی میری بدنصیبی کی جڑ ہے'

تعصب اور تفریق کا سامنا کرتی پاکستانی اقلیتیں: 'مجھے احساس دلایا جاتا ہے کہ میں اچھوت ہوں'

تعصب اور تفریق کا سامنا کرتی پاکستانی اقلیتیں: 'میں اس مریضہ کو ہاتھ نہیں لگاؤں گی'

تعصب اور تفریق کا سامنا کرتی پاکستانی اقلیتیں: 'تم کلاس روم میں نہیں پڑھ سکتے'

تعصب اور تفریق کا سامنا کرتی پاکستانی اقلیتیں: 'وہ میرے ساتھ کھانا اور میل جول پسند نہیں کرتے'

تعصب اور تفریق کا سامنا کرتی پاکستانی اقلیتیں: 'تم نے روٹی پلید کر دی ہے'

تعصب اور تفریق کا سامنا کرتی پاکستانی اقلیتیں: 'پانی کے نل کو ہاتھ مت لگاؤ'

لیپ آف فیتھ: اقلیتی رہنماؤں کے ساتھ پوڈ کاسٹ سیریز- پیٹر جیکب

پنجاب: ووٹ لیتے وقت بھائی کہتے ہیں، ترقیاتی کام کی باری آئے تو عیسائی کہتے ہیں

پاکستان: انتخابی نظام، مخصوص نمائندے سب اکثریت کا ہے، اقلیت کے لیے صرف مایوسی ہے

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.