گوجرانوالہ کی ماسٹر سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی میں شور اور دھوئیں کی آلودگی خطرناک حدود عبور کر گئی

postImg

احتشام احمد شامی

postImg

گوجرانوالہ کی ماسٹر سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی میں شور اور دھوئیں کی آلودگی خطرناک حدود عبور کر گئی

احتشام احمد شامی

راحیل ڈار نے گوجرانوالہ کی ایک بڑی ہاؤسنگ سوسائٹی میں گھر تو بنا لیا ہے لیکن وہ اب دوبارہ اندرون شہر اپنے آبائی مکان منتقل ہونے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ اس کی وجہ ان کے گھر کے قریب نصب ہیوی جنریٹر ہے جس کے شور اور دھوئیں نے ان کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔

راحیل ماسٹر سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی میں رہتے ہیں جس کی انتظامیہ نے سکیم کے فیز ون میں جنریٹر لگا رکھے تھے جن سے گھروں کو بجلی سپلائی کی جاتی تھی۔ رہائشیوں کے بار بار احتجاج کے بعد اب فیز ون میں سرکاری بجلی کا انتطام ہو گیا ہے لیکن سوسائٹی کے فیز ٹو میں سرکاری کنکشن میسر نہیں ہیں۔ چنانچہ سوسائٹی کی انتظامیہ نے فیز ون کے جنریٹر اکھاڑ کر فیز ٹو میں نصب کر دیے ہیں جہاں بہت سے لوگوں ںے گھر بنا رکھے ہیں اور بڑی تعداد میں مکان زیرتعمیر بھی ہیں۔

راحیل ڈار اسی فیز میں رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب جنریٹر چل رہا ہو تو لگتا ہے جیسے ہم کسی جنگ زدہ علاقے میں ہیں۔

"جنریٹر سے اس قدر شور اور دھواں پیدا ہوتا ہے کہ خدا کی پناہ! رات کے وقت جنریٹر کی آواز سونے نہیں دیتی۔ ڈیزل کا سیاہ دھواں اور اس کی بدبو رہائشیوں کو تو محسوس ہوتی ہے لیکن شاید سوسائٹی کے مالکان تک نہیں جاتی وگرنہ وہ اس سنگین مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ ہوتے۔"

صوبائی محکمہ ماحولیات کے ریجنل انچارج اور ڈپٹی ڈائریکٹر امتیاز احمد چودھری بتایا کہ ان کی ایک ٹیم نے حال ہی میں ماسٹر سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کے جنریٹروں کا معائنہ کیا ہے جس میں یہ بات سامنے آئی کہ ان کے جنریٹر قانونی تقاضے پورے نہیں کرتے۔

"جنریٹر یا موٹر سے پیدا ہونے والے شور کی ایک مقررہ سطح ہوتی ہے اور ماسٹر سٹی کے جنریٹرز اس سے تین چار گنا زیادہ شور پیدا کر رہے ہیں۔ جس عوامی جگہ پر جنریٹر لگایا جانا ہو وہاں قانون کے مطابق کینوپی لگا کر اسے ڈھانپا جانا چاہیے لیکن اس سکیم میں تمام جنریٹر کھلے مقامات اور سڑکوں پر نصب ہیں۔ جنریٹروں کی دھواں خارج کرنے والی نالی یا پائپ کو کم از کم 25 سے 30 فٹ بلند ہونا چاہیے لیکن ان جنریٹروں کی نالی دو تین فٹ سے زیادہ اونچی نہیں ہے۔"

انہوں نے بتایا کہ ان کا محکمہ زیادہ تر عوامی شکایات پر کارروائی کرتا ہے، اگر ماسٹر سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی یا کسی بھی جگہ سے جنریٹرون کے بارے میں کوئی شکایت موصول ہو گی تو وہ اس پر کارروائی کریں گے۔

"اس حوالے سے پہلے مرحلے میں جنریٹر کے مالک کو نوٹس دیا جاتا ہے اور اگر وہ مقررہ مدت میں شکایت کا ازالہ نہ کرے تو جنریٹر کو سیل کر دیا جاتا ہے اور اگر کوئی سیل کو توڑنے کی کوشش کرے تو اس کے خلاف تھانے میں ایف آئی آر درج کرا دی جاتی ہے۔"

امتیاز احمد چودھری کے مطابق ماسٹر سٹی کے رہائشیوں کو علم ہے کہ درخواست دینے کے نتیجے میں اگر جنریٹر بند ہو گئے تو وہ بجلی سے محروم ہو جائیں گے اسی لیے وہ ایسا نہیں کرتے۔ ان کے خیال میں سوسائٹی کی انتظامیہ لوگوں کی مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہے۔

ماسٹر سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی اگرچہ ایک بڑے کاروباری گروپ کے زیر انتظام چلائی جا رہی ہے لیکن اس کے مکین طویل عرصہ سے اپنے بنیادی حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

بجلی کی فراہمی ایک بڑا مسئلہ تھا اور کئی برس کی مسلسل تگ و دو کے بعد فیز ون میں سرکاری کنکشن لگائے گئے۔ البتہ اب انہیں وولٹیج کی کمی کا سامنا ہے۔

ماسٹر سٹی کے رہائشی کئی ہفتوں سے سوسائٹی کے مین گیٹ کے قریب آ کر احتجاج اور سوسائٹی مالکان کے خلاف نعرہ بازی کر رہے ہیں۔

سوسائٹی انتظامیہ نے کئی مرتبہ رہائشیوں کے خلاف مقدمے بھی درج کرائے تاہم دوران تفتیش معلوم ہوا کہ سوسائٹی انتظامیہ نے پلاٹ فروخت کرتے وقت ان سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے۔

فیز ون کے رہائشی ذیشان نے بتایا کہ ٹرانسفارمر لگواتے وقت یہاں مکانات اور دکانوں کی تعداد کو مدنظر نہیں رکھا گیا جس کے باعث وولٹیج کی کمی کا بحران پیدا ہوا۔

"200 کے وی کا ایک ٹرانسفارمر اگر 50 گھروں کو بجلی سپلائی کرتا ہے اور اس سے چار سو گھروں کو بجلی سپلائی کی جائے گی تو یا وہ ٹرپ ہو جائے گا یا بجلی کے کم وولٹیج دے گا اور ماسٹر سٹی میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔"

انہوں نے بتایا کہ یہ گوجرانوالہ کی واحد ہاؤسنگ سوسائٹی ہے جہاں کے فیز ون کے لگ بھگ 40 سے 50 فیصد گھروں نے سولر پینل لگوا لیے ہیں۔ دکانوں، مارکیٹوں، پلازوں اور ریسٹورنٹ والوں نے بھی اپنے کاروبار چلانے کے لیے سولر سسٹم نصب کروائے ہیں۔

"سولر پینل لگوانے کی وجہ یہ نہیں کہ یہاں کے مکینوں کو سولر پینلز سکیم بہت پسند ہے، بلکہ لوگ بار بار بجلی کی بندش سے تنگ آ چکے ہیں۔ انہوں نے سولر پینلز لگوا کر بجلی حاصل کرنے کا انتخاب کیا کیونکہ یہاں کے حالات مستقبل قریب میں ٹھیک ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔"

ایک طرف ماسٹر سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی میں پلاٹوں اور مکانوں کی خرید و فروخت جاری ہے تو دوسری طرف گوجرانوالہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی (جی ڈی اے)کے حکام کا کہنا ہے کہ عوام اس ہاؤسنگ سوسائٹی میں پلاٹوں اور مکانوں کی خرید و فروخت نہ کریں کیونکہ اس کا این او سی منسوخ ہو چکا ہے۔

گوجرانوالہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر ٹاؤن پلاننگ اعجاز اکبر بھٹی نے بتایا کہ سوسائٹی مالکان کے خلاف دھوکہ دہی، فراڈ اور سرکاری رہن شدہ زمین پر قبضہ اور اس کی فروخت کے الزام میں مقدمے کے اندراج کے لیے پولیس کو درخواست بھجوائی گئی لیکن تاحال مقدمہ درج نہیں ہو سکا کیونکہ سوسائٹی کے مالکان بااثر ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

گوجرانوالہ کے سب سے بڑے کاروبار نے شہری آبادی کا جینا دوبھر کر دیا، لوگ گھر بیچ کر علاقے چھوڑنے لگے

اعجاز اکبر بھٹی نے بتایا کہ جی ڈی اے نے ماسٹر سٹی انتظامیہ کو سوسائٹی بائی لاز اور لوکل گورنمنٹ بائی لاز کی خلاف ورزی کے الزام میں بیسیوں نوٹس بھجوائے جو ریکارڈ پر ہیں، ماسٹر سٹی کا مرکزی دفتر سیل کر دیا گیا ہے، انتظامیہ کو فیز ون ، فیز ٹو اور فیز تھری میں پلاٹ بیچنے کی اجازت نہیں۔

"پنجاب ہاؤسنگ سوسائٹیز ایکٹ کے مطابق ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی منظوری کے وقت ان کی کچھ زمینیں بطور رہن رکھ لی جاتی ہیں تاکہ اگر یہ مستقبل میں قانون کی خلاف ورزی کریں تو ان کے رہن شدہ پلاٹ بحق سرکار ضبط کر لیے جائیں، ماسٹر سٹی کی انتظامیہ نے رہن شدہ پلاٹ دھوکہ دہی سے فروخت کر ڈالے ہیں، اس کے علاوہ جو پلاٹ پارکوں یا دیگر عوامی جگہوں کے لیے مختص کیے گئے انہیں کمرشل ظاہر کر کے فروخت کر دیا گیا اور وہاں پلازے و ہوٹل بنا لیے گئے۔"

ڈائریکٹر ٹاؤن پلاننگ نے بتایا کہ ماسٹر سٹی کی انتظامیہ کے خلاف کارروائی اگرچہ ایک مشکل ٹاسک ہے لیکن ایک گرینڈ آپریشن کی تیاری کی جا رہی ہے اور پولیس، ضلعی انتظامیہ سمیت مختلف محکموں کو ساتھ لے کر اس کے قانونی کارروائی کی جائے گی۔

تاریخ اشاعت 11 اگست 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

احتشام احمد شامی کا تعلق وسطی پنجاب کے شہر گوجرانوالہ سے ہے۔ لوک سُجاگ کے علاؤہ وہ بین الاقوامی اداروں کے ساتھ بطور فری لانس کام کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

شام میں ملیشیا کے کیمپوں میں محصور پاکستانی جنہیں ریاست نے اکیلا چھوڑ دیا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceزبیر خان
thumb
سٹوری

زرعی انکم ٹیکس کیا ہے اور یہ کن کسانوں پر لاگو ہوگا؟

arrow

مزید پڑھیں

عبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی، عوام کے تحفظ کا ادارہ یا استحصال کاہتھیار؟

arrow

مزید پڑھیں

سہیل خان
thumb
سٹوری

کھانا بنانے اور پانی گرم کرنے کے لیے بجلی کے چولہے و گیزر کی خریداری کیوں بڑھ رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

پنجاب: حکومتی سکیمیں اور گندم کی کاشت؟

thumb
سٹوری

ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے کاشتکار ہزاروں ایکڑ گندم کاشت نہیں کر پا رہے۔ آخر ہوا کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحمد زعفران میانی

سموگ: ایک سانس ہی ہم پر حرام ہو گئی

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں ایڈز کے مریض کیوں بڑھ رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.