13 ستمبر 2023 کو ضلع شیخوپورہ میں کرتو گاؤں میں رہنے والے اہلسنت و اہل تشیع مسالک کے علما اور احمدی مذہب کے ماننے والوں نے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کے نام ایک درخواست لکھی جس میں کہا گیا تھا کہ گاؤں کے تمام لوگ رواداری اور امن سے رہتے ہیں۔ علاقے میں احمدی عبادت گاہ (بیت الذکر) 60 سال سے موجود ہے جس کے طرزتعمیر پر کسی کو اعتراض نہیں لہٰذا اس کے مینار و محراب کو مت توڑا جائے۔
تقریباً 4 ہزار آبادی پر مشتمل کرتو گاؤں ضلع شیخوپورہ میں قصبہ نارنگ منڈی سے سات کلومیٹر مشرق کی جانب واقع ہے۔ 2017 کی مردم شماری کے مطابق اس علاقے میں غیرمسلم آبادی 339 ہے۔
گاؤں کے رہائشی حامد بٹر کے مطابق یہاں احمدی مذہب کے ماننے والے لوگوں کے 30 گھرانے آباد ہیں جبکہ باقی گھروں میں تقریباً نصف کا تعلق اہلسنت اور نصف کا شیعہ مسلک سے ہے۔ اس گاؤں میں بریلوی، دیوبندی اور اہلحدیث مسالک کی مساجد کے علاوہ احمدیوں کی عبادت گاہ بھی موجود ہے۔ اہل دیہہ کے مابین کبھی بھی مذہبی یا مسلک کی بنیاد پر کوئی تنازع نہیں ہوا۔
تاہم، دو ہی روز بعد اہلسنت مسلک کے علما نے تردیدی بیانات جاری کرنا شروع کر دیے جن میں کہا گیا کہ انہوں نے درخواست کا متن پڑھے بغیر اس پر دستخط کر دیے تھے۔ یہ ان کی غلطی تھی جس پر وہ معافی مانگتے ہیں۔
ایک مقامی نوجوان (جنہوں نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھنے کی درخواست کی ہے) کا دعویٰ ہے کہ پولیس کو درخواست دینے کے واقعے کی تفصیل جب سوشل میڈیا پر آئی تو تحریکِ لبیک کی ضلعی عہدیدار درجنوں مسلح کارکنوں کو لے کر اہلسنت کے علما کے پاس پہنچ گئے اور انہیں ویڈیو پیغام ریکارڈ کروانے پر مجبور کیا۔
ان پیغامات کو دیکھا جائے تو واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ کیمرے کے پیچھے بیٹھے بعض لوگ علما کو بیان کے حوالے سے ہدایات دے رہے ہیں۔
24 ستمبر کی رات پولیس نے خود کارروائی کرتے ہوئے احمدی عبادت گاہ کے میناروں کے اوپر والے حصے کو گرایا اور لاؤڈ سپیکر بھی اتار دیا۔
اس بارے میں قانون نافذ کرنے والے ادارے کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ 'زمینی حقائق' کو دیکھتے ہوئے اور علاقے کا امن برقرار رکھنے کے لیے پولیس کی نگرانی میں احمدیوں کی عبادت گاہ کے مینار مسمار کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
حامد بٹر کہتے ہیں کہ پولیس کو خدشہ تھا کہ کہیں 12 ربیع الاول کے موقع پر اس معاملے کو لے کر کوئی حادثہ نہ ہو جائے اور اسی لیے جماعت احمدیہ کو مینار مسمار کرنے پر قائل کرنے کی کوشش کی گئی۔ جماعت کا موقف تھا کہ اگر ریاست امن وامان برقرار رکھنے کے لیے ایسا چاہتی ہے تو کرسکتی ہے لیکن نہ تو وہ اپنی عبادت گاہ کے مینار خود گرائیں گے اور نہ ہی کسی ہجوم کو ایسا کرنے دیا جائے گا۔ چنانچہ پولیس کی نگرانی میں رات کے وقت میناروں کے بالائی حصے کو توڑ دیا گیا۔
احمدی مذہب سے تعلق رکھنے والے بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ پولیس نے ایسا تحریک لبیک (ٹی ایل پی) کے دباؤ میں آکر کیا ہے۔ ان کے بقول اس جماعت نے 28 اگست کو ڈی پی او آفس شیخوپورہ کے باہر احتجاج کیا جس میں اس کا یہی مطالبہ تھا کہ 11 ربیع الاول تک پورے ضلع میں احمدیوں کی عبادت گاہوں کے تمام مینار منہدم کر دیے جائیں ورنہ وہ خود یہ کارروائی کرے گی۔
ان لوگوں کا کہنا ہے کہ اسی دھمکی سے خوف زدہ ہو کر پولیس نے شیخوپورہ میں پانچ مقامات پر احمدی عبادت گاہوں کے مینار مسمار کیے۔ ان میں کرتو کے علاوہ نانو ڈوگر، کلسیاں بھٹیاں، بیداد پور ورکاں نامی دیہات اور شیخوپورہ شہر میں ایک احمدی عبادت گاہ شامل ہے۔
اس حوالے سے تحریک لبیک کے مقامی رہنما حافظ خالد چشتی کا کہنا ہے کہ ان کے کسی کارکن نے احمدیوں کی کسی عبادت گاہ کو مسمار کرنے میں حصہ نہیں لیا اور نہ ہی کسی جگہ تحریکِ لبیک نے احمدیوں کی عبادت گاہوں پر حملہ کیا ہے۔
لیکن احمدی مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ ان کے خلاف ملک بھر میں تشدد کی جو حالیہ لہر چلی ہے اس میں اسی جماعت کا ہاتھ ہے۔
12 ربیع الاول کو سوشل میڈیا پر جہلم اور اوکاڑہ میں احمدیوں کی عبادت گاہوں کے مینار اور دیگر مذہبی نشانات کو مسمار کرنے کی ویڈیو وائرل ہوئیں تو وائس آف امریکہ نے انہیں شیئر کیا اور جماعت احمدیہ کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ تحریک لبیک پاکستان سے تعلق رکھنے والے چند افراد نے ان عبادت گاہوں کو نقصان پہنچایا ہے۔
تحریک کے سینئیر رہنما اور آئندہ عام انتخابات کے لیے شیخوپورہ کے اس حلقے سے متوقع امیدوار غلام حبیب اعوان کا کہنا ہے کہ تحریک لبیک کے ضلعی امیر ڈاکٹر محمد شاہد گجر کی طرف سے انہیں حکم ملا تھا کہ 11 ربیع الاول تک اگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے احمدیوں کی خلافِ قانون عبادت گاہوں کو مسمار نہ کیا تو 12ربیع الاول کو ان کے لوگ یہ کام خود کریں گے۔
اس معاملے پر گہری نظر رکھنے والے مقامی صحافی میاں معظم نواز کے مطابق یہ معاملہ افہام و تفہیم سے حل ہوتا دکھائی نہیں دیتا تھا۔ اسی لیے پولیس نے خود کارروائی کر کے عبادت گاہ کے مینار گرا دیے۔ ان کے خیال میں فی الحال علاقے کے حالات پرامن ہیں لیکن مستقبل کے حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کب کون سی بات کو لے کر صورتحال بگڑ جائے۔
یہ بھی پڑھیں
خوف آتا ہے اپنے سائے سے: مذہبی اور معاشی دباؤ کے باعث غیرمسلم پاکستانی ذہنی مریض بننے لگے۔
پاکستان میں جماعت احمدیہ کے ترجمان عامر محمود کے مطابق رواں سال صوبہ سندھ اور پنجاب میں احمدی عبادت گاہوں کے میناروں کو مسمار کیے جانے کے 39 واقعات رونما ہوچکے ہیں جن میں سے بیشتر میں پولیس نے یہ کارروائی کی جبکہ بعض جگہوں پر میناروں کو ہجوم نے مسمار کیا۔
وہ پولیس کی اس کارروائی کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایساکوئی کام کرنے کے لیے عدالتی حکم نامے کی موجودگی ضروری ہے۔ اس حوالے سے 31 اگست 2023 کو دیا جانے والا لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ موجود ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے اس فیصلے میں قرار دیا تھا کہ "1984 سے پہلے بنائے گئے میناروں کو گرایا نہیں جا سکتا۔ اس کے باوجود اگر پولیس یہ کام کررہی ہے تو اس سے پوچھا جانا چاہیے کہ وہ کس قانون کے تحت اور کس بنیاد پر یہ سب کچھ کر رہی ہے۔ آئین کا آرٹیکل 260(3) کہتا ہے کہ احمدی/قادیانی غیر مسلم ہیں مگر ان کو پاکستانی شہری ہونے کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ان سے بنیادی حقوق چھینے جا سکتے ہیں جن کی ضمانت آئین فراہم کرتا ہے۔
آئین کا آرٹیکل چار بھی یہی کہتا ہے کہ تمام شہری ایک جیسے سلوک کے مستحق ہیں چاہے کوئی مسلم ہو یا غیر مسلم۔ ہر شہری کو قانونی تحفظ حاصل ہے اور وہ قانون کے مطابق برتاؤ کے حق دار ہیں۔"
تاریخ اشاعت 5 اکتوبر 2023