لاہور کے علاقے سگیاں پل کے قریب افغان بستی میں یکم نومبر 2023ء کو رات 12 بجے کے بعد پولیس آئی اوراہلکار وہاں موجود لوگوں سے پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) کارڈز کے بارے میں دریافت کرنے لگے۔
بستی میں مقیم 28 سالہ یوسف خان کہتے ہیں کہ کارڈز دکھانے کے باوجود پولیس نے ان کے پانچ بھائیوں اور ایک ماموں کو گرفتار کر لیا۔
ان کے مطابق اس بستی کے بچے اور عورتیں اس اندیشے میں مبتلا ہیں کہ خاندان کے مردوں کو کسی بھی وقت گرفتار کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ رجسٹرڈ افغان مہاجرین نے چندہ کر کے بستی میں مقیم غیرقانونی مہاجرین کو افغانستان بھجوایا ہے تاکہ ان کی عزت پر حرف نہ آئے مگر اب وہ خود چھپتے پھر رہے ہیں۔
"سردیوں میں افغانستان بھیجے جانے کے خوف سے مرد بستی میں اپنے گھروں کو نہیں آ رہے ہیں۔"
جنگ زدہ افغانستان میں بےروزگاری کی شرح پہلے ہی بہت زیادہ ہے سردیوں میں برف پڑنے کے باعث ملک کے کئی علاقوں میں روز گار کے مواقعے اور کم ہوجاتے ہیں۔
اپنی عمر سے زیادہ نظر آنے والے 49 سالہ غوث اللہ، اسلام پورہ تھانے کے باہر پریشانی کے عالم میں بیٹھے ہیں۔
ویسے تو ان کے پاس بھی پی او آر کارڈ ہے تاہم "پرانی شناسائی" کے باعث وہ گرفتاری سے بچے ہوئے ہیں۔
وہ اپنی برادری کے افراد کو چھڑانے کے لیے متعدد بار پولیس سٹیشن جا چکے ہیں۔ گرفتاری کا سبب پوچھنے پر پولیس اہلکار انہیں کہتے ہیں کہ اوپر سے تمام افغان مہاجرین کو گرفتار کرنے کا حکم ہے۔
غوث اللہ نے کہا کہ پہلے وزیراعظم نے اعلان کیا کہ پی او آر یا افغان سٹیزن کارڈ کے حامل افغان مہاجرین کو حکومت نہیں نکالے گی۔
"اگر اسی طرح پکڑ دھکڑ کرنا تھی تو ہمیں بھی باقی غیرقانونی افغان مہاجرین کے ساتھ نکلنے کا حکم دیتے۔ افغانستان میں سردیاں ختم ہونے پر ہم خود اپنے وطن چلے جائیں گے"۔
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان نے انہیں چار دہائیوں سے تک پناہ دی۔ کسی نے بے جاہ تنگ نہیں کیا لیکن اب کسی کے پاس جائے پناہ نہیں ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ پولیس رات کے اندھیرے میں چادر اور چاردیواری کا لحاظ نہیں کرتی۔
یوسف خان نے پچھلے سال اس بستی میں کسی پاکستانی کے نام پر 28 لاکھ روپے میں 24 مرلہ زمین خریدی تھی۔ چند ماہ پہلے تک اس کی قیمت تین لاکھ روپے فی مرلہ لگائی جا رہی تھی۔ وہ مکان بنانا چاہتے تھے اس لیے زمین نہیں بیچ رہے تھے۔
وہ بتاتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے افغان مہاجرین کے انخلا کے اعلان کے بعد کوئی اصل قیمت پر بھی زمین نہیں خرید رہا ہے۔
"ہم پر برا وقت آنے کے بعد لوگوں نے ہمارا فائدہ اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ ایک طرف میرے تمام بھائی اور رشتہ دار حوالات میں بند ہیں دوسری طرف جاری مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا ہے۔"
انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس کے ترجمان مبشر حسن تسلیم نہیں کرتے کہ قانونی طور پر مقیم افغان باشندے بھی زیرحراست ہیں۔ ان کے مطابق صرف غیرقانونی مقیم غیر ملکیوں ہی کو پکڑا گیا ہے۔
لاہور میں مقیم پشتونوں اور افغانوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی پختون فلاحی تنظیم کے سربراہ حاجی نادر خان کہتے ہیں کہ اس وقت لاہور کے مختلف علاقوں میں پولیس نے تقریباً 100 افغان مہاجرین کو اپنے حراست میں لیا ہے جن میں 45 افغان مہاجرین نولکھا پولیس سٹیشن، 15 اسلام پورہ، 15 یکی گیٹ جبکہ 20 گلشن راوی پولیس سٹیشن میں زیر حراست ہیں۔
انہوں نے کہا کہ لاہور میں ان کی متعلقہ حکام سے بات چیت ہوئی ہے اور انہیں امید ہے کہ ضروری پوچھ گچھ کے بعد انہیں رہا کر دیا جائے گا۔
نادر خان حکومت اور انتظامیہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جن افغان مہاجرین کے پاس قانونی دستاویزات ہیں انہیں تنگ نہ کیا جائے۔ ان کے مطابق گرفتار مہاجرین میں سے اکثریت کے پاس قانونی دستاویزات موجود ہے۔
ان کا خیال ہے کہ حکومت کی جانب سے دی جانے والی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے باوجود یہاں رہ جانے والے غیرقانونی افراد کو چاہیے تھا کہ وہ حکومت سے کچھ مزید وقت لیتے یا واپس اپنے ملک منتقل ہو جاتے۔
"آج بھی اس معاملے پر پولیس کے اعلیٰ افسران کا اجلاس ہو رہا ہے۔ امید ہے کہ کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا۔"
یہ بھی پڑھیں
بلوچستان میں غیرقانونی تارکین وطن کے خلاف کارروائی سے رجسٹرد افغان مہاجرین کے لیے مسائل کھڑے ہو گئے
یکم نومبر 2023ء کو ہونے والے اس اجلاس کے بعد ڈائریکٹر پبلک ریلیشن پنجاب پولیس کی جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق جس شخص کے پاس پاکستان میں رہائش کی قانونی دستاویز موجود ہے اس سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہو گی۔
اس میں کہا گیا ہے کہ پنجاب پولیس کی دو لاکھ فورس غیر ملکی شہریوں کے انخلا کے لیے پوری طرح تیار ہے اور اس کے لیے اضلاع کو مختلف تاریخوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔
یو این ایچ سی آر کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں کل 37 لاکھ افغان مہاجرین آباد ہیں جن میں سے 14 لاکھ رجسٹرڈ اور باقی نان رجسٹرڈ ہیں۔ ان میں سے 52.2 فیصد خیبر پختونخوا، 24.5 فیصد بلوچستان، 5.6 فیصد سندھ جبکہ 14.4 فیصد صوبہ پنجاب میں رہتے ہیں۔ ان افغان مہاجرین میں ایک لاکھ تک وہ لوگ ہے جو حالیہ دور میں کابل پر طالبان کی حکومت کے آنے کے بعد پاکستان آئے۔
نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کے بیان کے مطابق حکومت پاکستان غیر ملکیوں کو ملک سے نکالنے کے حکم کے بعد اکتوبر میں تقریباً ایک لاکھ 40 ہزار 322 غیر ملکی تارکین وطن رضاکارانہ طور پر اپنے اپنے ملک واپس جا چکے ہیں جبکہ 31 اکتوبر کو طورخم بارڈر کراسنگ سے 100 قیدیوں سمیت سات ہزار 300 سے زائد تارکین وطن کو ملک بدر کیا گیا ہے۔
تاریخ اشاعت 3 نومبر 2023