ہم حکومت کو ٹیکس دیتے ہیں اور فوڈ اتھارٹی میں بھی رجسٹرڈ ہیں۔ اس کے باوجود ہمیں تنگ کیا جاتا ہے۔ آئے دن پولیس اور دیگر ادارے ہماری دکانوں پر چھاپہ مارتے اور بلیک میل کرتے ہیں۔"
یہ کہنا ہے افغان مہاجر اور کوئٹہ میں افغانی ریسٹورنٹ کے مالک عبدالواحد کا۔ ان کے مطابق چار دہائیوں سے ان کا خاندان کوئٹہ میں آباد ہے اور وہ اسی شہر میں پیدا ہوئے۔
کوئٹہ میں پرچون کا کاروبار کرنے والے افغان مہاجر امین اللہ کو بھی اسی طرح کا گلہ ہے۔
"ہم حکومت پاکستان سے مکمل تعاون کر رہے ہیں۔ دکان، گھر اور گاڑی کا ٹیکس دے رہے ہیں۔ گیس اور بجلی کا بل بھی جمع کرا رہے ہیں۔ نادرا کا رجسٹریشن کارڈ ہونے کے باوجود پتا نہیں کیوں پولیس اور دیگر ادارے ہمیں تنگ کرتے ہیں۔ قانونی کاروبار کرنے کے باوجود ہم سے رشوت طلب کی جاتی ہے۔"
ہول سیل کے کاروبار سے منسلک افغان مہاجر رحیم اللہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے آج تک افغانستان نہیں دیکھا، ان کے والد والدہ، دادا، بھائی اور خاندان کے دیگر افراد کی قبریں کوئٹہ میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان کو انہیں کچھ وقت دینا چاہیے۔
یہ کارروائیاں وفاقی حکومت کے ان احکامات کے بعد شروع ہوئیں جن میں غیرقانونی تارکین وطن یا مہاجرین کو 31 اکتوبر 2023ء تک آبائی وطن واپس جانے کا کہا گیا ہے۔
کمشنر کوئٹہ حمزہ شفقات کا کہنا ہے کہ وہ لوگ جو خفیہ راستوں سے غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہوئے اور یہاں آباد ہونا چاہتے ہیں، ان کے خلاف پہلے مرحلے میں کارروائی شروع کی گئی ہے۔
ایس ایس پی آپریشز کوئٹہ جواد طارق نے بتایا کہ بلوچستان میں تمام اضلاع کی انتظامیہ اور پولیس نے غیر قانونی طور پر مقیم افراد کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کیا ہے۔
ان کے مطابق کوئٹہ پولیس نے غیر قانونی طور پر رہائش پذیر 122 سے زائد افغان باشندوں کو گرفتار کر لیا ہے جبکہ فارن ایکٹ کے تحت 52 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چمن باب دوستی سے رواں سال یکم اکتوبر سے 20 اکتوبر تک 10 ہزار سے زائد افغان شہری وطن واپس جا چکے ہیں۔
خیال رہے کہ مہاجرین کی بڑی تعداد جن کے پاس پی او آر کارڈ نہیں تھے انہیں نادرا کی جانب سے افغان سٹیزن کارڈ دیے گئے تاکہ وہ پاکستان میں قانونی قیام کر سکیں۔
نگران وزیر اطلاعات بلوچستان جان محمد اچکزئی نے لوک سجاگ کو بتایا کہ محکمہ داخلہ کے اعداد و شمار کی روشنی میں صوبے میں تمام ڈھائی لاکھ یا اس سے زیادہ غیر قانونی تارکین وطن کو مہلت ختم ہونے پر ملک بدر کیا جائے گا۔ اس کے لیے نادرا نے خصوصی سافٹ وئیر بنایا ہے۔
"ملک بدر کیے جانے والے افراد کے فنگر پرنٹس لیے جائیں گے۔ کل کوئی واپس بھی آتا ہے تو ان کے فنگر پرنٹس ہوں گے اور ان کی شناخت آسانی سے ہو سکے گی۔ یہ سسٹم بہت فول پروف ہے۔"
ان کے مطابق غیر قانونی تارکین وطن کا تعلق خواہ کسی بھی ملک یا قومیت سے ہو، انہیں یہ ملک یکم نومبر سے قبل چھوڑنا ہو گا ورنہ انھیں زبردستی نکالا جائے گا۔
قبل ازیں چار اکتوبر کو ہونے والی ایک پریس کانفرنس میں نگران وزیر اطلاعات نے کہا تھا کہ افغان سیٹیزنز کارڈ اور پروف آف رجسٹریشن کارڈ کے حامل افراد کے خلاف کارروائی نہیں ہو گی۔
ان کی جانب سے اس موقع پر دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق پی او آر کے حامل افراد کی تعداد تین لاکھ 13 ہزار 643 ہے جبکہ رجسٹرڈ افغان سٹیزنز (اے سی سی) دو لاکھ 74 ہزار 246 ہیں۔
حکومتی ادارے کمیشنریٹ افغان ریفیوجیز کے کمشنر ارباب طالب کا کہنا ہے کہ رجسٹرڈ مہاجرین کی تعداد غیر رجسٹرڈ مہاجرین سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ یہ شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں آباد ہیں اور کئی کی چھوٹی بڑی جائیدادیں بھی ہیں۔
افغانستان میں روسی مداخلت کے بعد ایک اندازے کے مطابق 30 لاکھ کے لگ بھگ افغان باشندے 1980ء کی دہائی کے اوائل میں اپنا وطن چھوڑ کر پاکستان آ گئے تھے جن کی ایک بڑی تعداد بلوچستان میں رہنے لگی۔
صوبے کی بلوچ اور پشتون قوم پرست سیاسی جماعتیں افغان مہاجرین کی واپسی پر الگ الگ مؤقف رکھتی ہیں۔
پشتونخواہ عوامی پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق ایم پی اے نصراللہ زیرے کا کہنا ہے "جب تک افغانستان کے حالات مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہو جاتے افغان مہاجرین کا انخلا درست نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب بھی حالات ٹھیک ہوں گے یہ لوگ اپنے گھروں کو واپس جائیں گے۔"
ان کا کہنا تھاکہ آج کل غیر قانونی افغان شہریوں کے نام پر نادرا سے رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو تنگ کیا جا رہا ہے جو سراسر ناانصافی ہے۔ صوبے کی معیشت میں کردار ادا کرنے والے رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو باعزت طور پر اپنا کام کرنے کی اجازت ہونی چاہیے البتہ دہشت گردوں کو گرفتار کر کے سزا دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق ایم پی اے ثنا اللہ بلوچ کا کہنا ہے کہ افغان مہاجرین کی باعزت وطن واپسی ممکن بنانے کے لیے حکومت پاکستان کو کلیدی کردار ادا کرنا چاہیے۔ حکومت اس معاملے میں تمام جماعتوں اور سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر فیصلہ کرے۔
ان کے مطابق "بلوچستان میں غیر قانونی مقیم لاکھوں غیر ملکی نہ صرف صوبے کی معیشت پر بوجھ ہے بلکہ اس سے صوبے کا سماجی و اقتصادی نظام بری طرح متاثر ہو کر رہ گیا ہے۔"
یہ بھی پڑھیں
'ان افغان مہاجرین کو افغانستان واپس نہ بھیجا جائے جن کی زندگیوں کو خطرہ ہے'۔
پناہ گزینوں کے لیے کام کرنے والے ادارے یو این ایچ سی آر بلوچستان کی ترجمان حمیرہ کریم کا کہنا ہے کہ گزشتہ ماہ ستمبر میں پی او آر کارڈ رکھنے والے چھ ہزار رجسٹرڈ افغان مہاجرین چمن کے راستے پاکستان سے اپنے ملک افغانستان واپس چلے گئے۔
ان کا کہنا ہے کہ افغانستان جانے والے رجسٹرڈ افغان مہاجر پاکستان میں یو این ایچ سی آر کے دو مراکز پر اپنا پی او آر کارڈ واپس کرتے ہیں جس کے بعد بطور مہاجر ان کی حیثیت ختم ہو جاتی ہے۔ ان میں سے ایک مرکز کوئٹہ میں بلیلی ائیر پورٹ روڈ اور دوسرا خیبر پختونخوا کے پشاور سینٹر میں ہے۔
"یو این ایچ سی آر کی طرف سے افغانستان واپس جانے والے رجسٹرڈ افغان مہاجر کو 375 ڈالرز دیے جاتے ہیں۔ وہ قندھار پہنچ پر انکیشمنٹ سینٹر سے یہ رقم وصول کریں گے۔ اپنے ملک میں تین ماہ رہ لینے پر انہیں 700 ڈالر دیے جاتے ہیں تاکہ وہ وہاں بس سکیں۔
تاریخ اشاعت 25 اکتوبر 2023