رنچھوڑ لائن کراچی کی تنگ گلیوں سے گزر کر ہرداس سٹریٹ میں جائیں تو یہاں 'گجراتی بچاؤ تحریک' (کاٹھیاوار منصوری جماعت ) کا دفتر قائم ہے۔ اس کے دکان جیسے شٹروں پر بڑا سا بینر آویزاں ہے جس پر اردو کے ساتھ گجراتی رسم الخط میں 'فری گجراتی کلاس' لکھا ہے۔
پینسٹھ سالہ محمد یونس، اس ہال نما دفتر میں تین طالب علموں کو گجرانی زبان پڑھا رہے ہیں۔ وہ سفید بورڈ پر ایک طرف اردو اور دوسری طرف گجراتی حروف تہجی لکھتے جنہیں بچے بولنے کے ساتھ نوٹ بھی کرتے جاتے ہیں۔
محمد یونس پیشے کے لحاظ سے استاد ہیں جو کراچی کے علاقے ابراہیم حیدری کے رہائشی ہیں۔ وہ ہر اتوار کو ناصرف رنچھوڑ لائن میں بچوں کو بلامعاوضہ گجراتی پڑھانے آتے ہیں بلکہ شہر کے دیگر علاقوں میں بھی اپنی مادری زبان کی کلاسز لیتے ہیں۔
انہیں پریشانی یہ ہے کہ پاکستان میں گجراتی زبان معدوم ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ اگر یہ زبان ختم ہوئی تو یہاں سے ان کی کمیونٹی کی ثقافتی روایات بھی دم توڑ جائیں گی۔
"کمیونٹی نے بچوں کو گجراتی زبان اور رسم الخط سکھانے کی فری کلاسیں شروع کی ہیں تاکہ اپنی مادری زبان کو بچایا جا سکے۔ اس مقصد کے لیے میں نے گجراتی زبان کا قاعدہ بھی اپنی مدد آپ کے تحت ترتیب دیا ہے۔"
کبھی گجراتی زبان کراچی میں راج کرتی تھی
کراچی میں گجراتی ایک زمانے میں بہت اہمیت کی حامل زبان رہی ہے بلکہ گجراتیوں کو ماڈرن کراچی کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے جو کاروباری طبقے کی پہلی صف میں آتے ہیں۔

کراچی سے تین اخبارات - ملت، وطن اور ڈان - گجراتی میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ دس کے قریب چھاپہ خانوں میں گجراتی رسائل اور کتابیں چھاپی جاتی تھیں۔ بھارت سے بھی اخبارات و لٹریچر منگوایا جاتا تھا۔
باوا حیدر خوجہ، گجراتی بچاؤ تحریک کے سیکرٹری اطلاعات ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کراچی میں گجراتیوں کی آباد کاری دو سو سال سے بھی پہلے شروع ہوئی۔ قیام پاکستان تک یہاں رہنے والے گجراتی، بلوچ، سندھی، پارسی، مسیحی سب گجراتی زبان بولتے تھے۔
پرانی تصویریں دیکھیں تو یہودی عبادت گاہوں پر بھی گجراتی رسم الخط میں تحریر نظر آتی ہے۔قران پاک، بائبل اور پارسیوں کی مذہبی کتابوں کے علاوہ رومانوی ادب ہو، شاعری یا کمیونسٹ لٹریچر سب کچھ گجراتی زبان میں دستیاب تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ تقسیم کے وقت کراچی میں چار گجراتی میڈیم سکول تھے جبکہ دو سندھی میڈیم سکولوں کے پرنسپل گجراتی تھے۔ 1971ء تک نصاب میں گجراتی بطور اختیاری مضمون شامل تھی اور 1974ء تک ٹیکس گوشوارے بھی گجراتی زبان میں بھرے جاتے رہے۔
بانی پاکستان کی مادری زبان کی پاکستان میں کوئی جگہ نہیں!
باوا حیدر خوجہ جو خود آن لائن ٹیکسی بزنس سے وابستہ ہیں کا کہنا ہے کہ پھر ایسا ہوا کہ "ہم گجراتیوں نے اپنی مادری زبان کو چھوڑ کر مارکیٹ کی زبان یعنی اردو اور کاروبار کو اپنا لیا۔" سیاسی معاملات نے پیچیدگیوں کو مزید الجھا دیا۔ اب گجراتی چھاپنے والے تین چار پرنٹنگ پریس اور دو اخبارات باقی رہ گئے ہیں۔

"ون یونٹ کی تشکیل اور ماردی زبانوں کی حوصلہ شکنی کا گجراتی پر بہت منفی اثر پڑا۔ اس دور کے کمیونٹی رہنماؤں نے مزاحمت کی بجائے اپنے کاروبار اور اردو کو فوقیت دی جس کا ہمیں کافی نقصان اٹھانا پڑا۔"
وہ کہتے ہیں کہ قائد اعظم محمد علی جناح خود گجراتی تھے لیکن ان کے بنائے ملک میں سرکاری سطح پر ان کی مادری زبان کی ضرورت نہیں رہی اور کمیونٹی کا بھی زبان سے رشتہ کمزور ہو گیا۔ یہاں تک کہ نادرا نے 2017ء میں شناختی فارم میں مادری زبان کے خانے سے گجراتی کو ہٹا دیا۔
"اب تو ہم بچوں سے گجراتی زبان سیکھنے کا کہیں تو وہ سوال کرتے ہیں کہ جب ضرورت ہی نہیں تو ہم اسے کیوں سیکھیں؟ لیکن ہمارے لیے یہ جذباتی معاملہ ہے۔"
تحریک کے ایک اور رہنما محمد انوار بتاتے ہیں کہ 1974ء سے 1984ء تک کا عرصہ کراچی میں گجراتی زبان پر بہت بھاری ثابت ہوا۔ یہاں بوہرہ، پارسی، میمن، ہندو برادری و دیگر گجراتی زبان بولتی سمجھتی ہے لیکن لکھنا پڑھنا کم ہی لوگ جانتے ہیں۔
باوا حیدر کے مطابق گجراتی زبان سے اس ناروا سلوک کے باعث کمیونٹی نے 2019ء میں 'گجراتی بچاؤ تحریک' کی بنیاد رکھی تاکہ گجراتی زبان و ثقافت کو بحال کرنے کے لیے جدوجہد کی جائے۔
گجراتی زبان کتنے لوگ بولتے ہیں؟
دنیا بھر میں گجراتی بولنے والوں کی آبادی چھ کروڑ سے زائد ہے جن میں سے لگ بھگ ساڑھے پانچ کروڑ لوگ بھارت میں رہتے ہیں۔ یہ بھارت میں بولی جانے والی چھٹی بڑی زبان ہونے ساتھ ریاست گجرات کی سرکاری زبان بھی ہے۔
تعمیراتی شعبے سے وابستہ اعظم گھانچی، آل پاکستان گجراتی فیڈریشن کے صدر ہیں۔ ان کے بقول پاکستان میں گجراتی بولنے والوں کی آبادی لگ بھگ 35 لاکھ ہے جن کی اکثریت کراچی میں مقیم ہے۔
"یہاں گجراتیوں میں خوجہ اسماعیلی، خوجہ شیعہ، خوجہ سنی، میمن، گھانچی، کاٹھیاواڑی، جونا گڑھی، کچھی، مومنہ اسماعیلی، مومنہ شیعہ، مومنہ سنی، سپاہی، چھیپا، پارسی، گجراتی ہندو و دیگر برادریاں شامل ہیں لیکن ہماری زبان ختم ہوتی جا رہی ہے۔"
گجراتی، ادب و ثقافت، آرٹ کلچر، شاعری اور علوم و فنون کے لحاظ سے وسیع زبان ہے جس میں ڈیجیٹل دنیا کے ساتھ چلنے کی بھرپور صلاحیت موجود ہے۔
بھارت میں اس زبان کے اپنے اے آئی ماڈلز، جنریٹو وائس اے آئی الگورتھم، سپیچ رکگنیشن ماڈلز، سپیچ اینالیٹکس ماڈلز، سمارٹ اسسٹینس اور چیٹ بوٹس وغیرہ موجود ہیں لیکن پاکستان میں ڈیجیٹل کنٹینٹ تو دور، گجراتی زبان پڑھنے لکھنے والے بھی کم ہوتے جارہے ہیں۔
'پانچ سال میں تین ہزار بچے گجراتی پڑھنا لکھنا سیکھ چکے ہیں'

گجراتی بچاؤ تحریک کے رہنماؤں کو شکوہ ہے کہ کراچی کی لائبریریوں یہاں تک کہ قائد اعظم ریزیڈینسی کی لائبریری سے بھی گجراتی کتابوں کو ہٹا دیا گیا ہے۔ جامعہ کراچی میں بنگالی ڈیپارٹمنٹ بنایا گیا ہے لیکن گجراتی زبان پر کام نہیں ہو۔
وہ کہتے ہیں کہ'عائشہ باوانی سکول' گجراتی میمن لوگوں نے بنایا تھا مگر وہاں بھی گجراتی نہیں پڑھائی جا رہی۔ حال یہ ہے کہ اب گجراتی کے استاد ختم ہو گئے ہیں۔ اس سب کے باوجود گجراتی کمیونٹی کے سیاسی رہنما خاموش ہیں۔
محمد یونس اردو-گجراتی لغت کی کمی شدت سے محسوس کرتے ہیں۔ وہ لغت مرتب کرنے کا کام ہاتھ سے کر رہے ہیں۔ وسائل اور نوجوانوں کی مدد حاصل نہ ہونے کے باعث ٹیکنالوجی کا استعمال نہیں کر پارہے جس کی وجہ سے اس میں کافی وقت لگے گا۔
گجراتی بچاؤ تحریک کے رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ ان کی کوششوں کے نتیجے میں 2020ء سے اب تک آن لائن اور روایتی کلاسز ملا کر تین ہزار سے زائد بچے گجراتی زبان لکھنا پڑھنا سیکھ چکے ہیں۔
محمد یونس بچوں کو پڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ مایوس نہیں ہیں، اپنی تعلیمی ضرورت پوری کرنے کے لیے وہ مادری زبان کی کتابیں خود مرتب کر رہے ہیں اور ٹیبلوز بھی لکھ رہے ہیں۔

گجراتی کا دیو ناگری سے ملتا جلتا رسم الخط اس کے آڑے آ گیا
گجراتی زبان کا اپنا رسم الخط ہے جو ہندی کے رسم الخط (دیوناگری) سے ملتا جلتا ہے۔ بھارت کی بیشتر زبانیں جن رسم الخط میں لکھی جاتی ہیں ان کا تعلق ایک ہی خاندان سے ہے۔ بنگالی زبان کا رسم الخط بھی اسی خاندان سے ہے اور سکھ پنجابی جس رسم الخط میں لکھتے ہیں وہ بھی اسی گروپ سے ہے۔ برصغیر میں رسم الخط اور مذہبی شناخت کے درمیان تعلق بہت گہرا ہو گیا ہے۔ اردو، سندھی اور پشتو کا رسم الخط عربی اور فارسی کے خاندان ہے۔
لسانیات کے بعض ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان میں گجراتی زبان اپنے رسم الخط کی وجہ سے کمزور پڑ رہی ہے۔ پاکستان میں اس کو پڑھنے اور لکھنے والے لوگوں کی تعداد بہت قلیل رہ گئی ہے۔
محمد یونس نے بتایا کہ ہندو دھرم کے لوگ اپنی مذہبی کتابیں دیوناگری رسم الخط میں ہونےکے باعث گجراتی رسم الخط سیکھنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ آغا خانی کمیونٹی کو گجراتی زبان کی ضرورت پڑتی ہے۔
کشور کمار اپنے بچوں کو گجراتی کلاس پڑھانے تحریک کے دفتر لائے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ہندو برادری کے نوجوان کراچی کے کئی علاقوں میں گجراتی زبان کے لیے کام کررہے ہیں جو بلا معاوضہ گجراتی کی کلاسز بھی پڑھاتے ہیں۔
ہندو برادری کی تنظیم دی ایجوکیشن سنستا، کاٹھیاواڑی ہندو سماج، شری سوامی نرائن مندر اور خوجہ (پیرائی) شیعہ اثناء عشری جماعت کراچی آن لائن اور فری کلاسز کے ذریعے اپنے لوگوں کو گجراتی کی تعلیم دے رہی ہیں۔

کیا گجراتی فلمیں زبان کے بقا میں کوئی کردار ادا کر پائیں گی؟
گجراتی بچاؤ تحریک، کراچی میں اپنی کمیونٹی کو بھارت میں بننے والی گجراتی فلموں سے بھی روشناس کرارہی ہے۔ اعظم گھانچی بتاتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر اس تحریک کی کوشوں کے بعد گجراتی فلم سازوں اور ڈسٹری بیوٹرز نے ان سے رابطہ کیا ہے تاہم ابھی تک اس میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔تحریک کے رہنما پرعزم ہیں کہ کمیونٹی کی سطح پر کام ہو رہا ہے، آہستہ سہی مگر یہ جاری رہے گا۔ یہاں کلچرل تقریبات منعقد کی جاتی ہیں، کھوجہ جماعت محرم میں گجراتی مشاعرہ کراتی ہے اور دو گجراتی لائبریریاں بھی عوام کے لیے جلد کھول دی جائیں گی۔
"ہم اپنی مادری زبان کو بچانے کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے بھی رابطے میں ہیں لیکن اب تک کوئی کامیابی نہیں ملی۔ ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ گجراتی زبان کی بحالی کے لیے مشاورت اور اقدامات کرے۔"
تاریخ اشاعت 24 فروری 2025