لہو کا سراغ: کیا تحریکِ لبیک پاکستان پریانتھا کمارا کے قتل کی ذمہ دار ہے؟

postImg

آصف ریاض

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

لہو کا سراغ: کیا تحریکِ لبیک پاکستان پریانتھا کمارا کے قتل کی ذمہ دار ہے؟

آصف ریاض

loop

انگریزی میں پڑھیں

کچھ عرصہ پہلے ضلع سیالکوٹ میں واقع چک چوہدو نامی گاؤں کے سرکاری سکول میں پڑھانے والے ایک استاد کے بارے میں ضلعی انتظامیہ کو شکایت ملی کہ ان کا تعلق احمدی مذہب سے ہے اور وہ سکول میں پڑھنے والے مسلمان بچوں کو ورغلا کر اپنے مذہب کی جانب راغب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 

یہ شکایت اسی گاؤں کے رہنے والے کچھ نوجوانوں نے درج کرائی تھی۔ لیکن جب متعلقہ استاد کو ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں طلب کر کے اس کی تحقیق کی گئی تو سرکاری حکام کو اس میں کوئی صداقت نظر نہ آئی لہٰذا انہوں نے اسے رد کر دیا۔   

کچھ ہی دن بعد یہ الزام لگانے والے نوجوانوں میں سے ایک نے سوشل میڈیا پوسٹوں کے ذریعے فوج پر تنقید کرنا شروع کردی جس پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کار اس سے تفتیش کرنے کے لیے چک چوہدو پہنچ گئے۔ تاہم معززینِ علاقہ کی طرف سے اسں یقین دہانی کے بعد کہ وہ آئندہ ایسی حرکت نہیں کرے گا یہ معاملہ رفع دفع ہو گیا۔ 

گاؤں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ متعلقہ نوجوان کچھ سال پہلے ملازمت کے لیے راولپنڈی گیا تھا جہاں سے واپسی پر اس کے مذہبی رجحانات میں شدت عیاں تھی۔ ان کے بقول اب وہ تحریکِ لبیک پاکستان نامی جماعت کا سرگرم کارکن بن چکا ہے۔ 

اس کا ایک قریبی رشتہ دار اور چک چوہدو ہی کا رہائشی راحیل امجد عرف چھوٹو بٹ 3 دسمبر 2021 کو سیالکوٹ شہر کے قریب واقع فیکٹری، راجکو انڈسٹریز، کے سری لنکن منیجر  پریانتھا کمارا کی ایک مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ہلاکت کے مرکزی ملزموں میں شامل ہے۔ اس کے بارے میں مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ اگرچہ وہ تحریکِ لبیک پاکستان کا باقاعدہ رکن نہیں ہے لیکن وہ اپنے رشتہ دار نوجوان کی باتوں سے بہت حد تک متاثر ضرور ہے۔

اسی علاقے کے ایک دوسرے گاؤں بلو چک کے رہنے والے لوگوں کا بھی کہنا ہے کہ راجکو انڈسٹریز کے اردگرد واقع بہت سے دیہات میں کئی نوجوان اس جماعت کے نظریات کے زیرِاثر آ چکے ہیں۔ پریانتھا کمارا کی ہلاکت کے مرکزی ملزمان میں شامل بلو چک کے دو نوجوانوں،  حسنین علی اور احمد شہزاد، کے بارے میں بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اس واقعے میں اس جماعت کا کچھ نہ کچھ عمل دخل ضرور ہے کیونکہ مقتول منیجر پر تشدد کرنے والا ہجوم وہی نعرے لگا رہا تھا جو اس کے اجتماعات میں لگائے جاتے ہیں۔ 

تحریکِ لبیک پاکستان کی حمایت میں اضافہ

تحریکِ لبیک پاکستان 2015 میں ایک مذہبی سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی۔ اس کے بانی خادم حسین رضوی کی وجہ شہرت ان کے خطابات ہیں جن میں ان کا نکتہِ نظر سخت اور لہجہ بہت ترش ہوتا تھا۔ انہوں نے توہینِ مذہب اور توہینِ رسالت کے قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرانے کے لیے پچھلے چند سالوں میں کئی متشدد احتجاجی مظاہروں کی قیادت بھی کی ہے جن کی وجہ سے وسطی پنجاب کے کچھ علاقوں اور اسلام آباد میں زندگی کے معمولات ہفتوں منقطع رہے ہیں۔ 

تحریکِ لبیک پاکستان نے 2018 کے عام انتخابات میں پورے ملک میں امیدوار کھڑے کیے جنہوں نے قومی اسمبلی کی نشستوں پر مجموعی طور پر 21 لاکھ 94 ہزار نو سو 78 ووٹ حاصل کیے۔ اگرچہ اسے ایک بھی نشست پر کامیابی نہ مل سکی لیکن کراچی کے دو حلقوں سمیت تین نشستوں پر اس کے امیدوار دوسرے نمبر پر رہے جبکہ 69 حلقوں میں وہ تیسرے نمبر پر آئے۔ ان میں ضلع سیالکوٹ میں موجود قومی اسمبلی کے پانچ میں سے چار حلقے بھی شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

سیالکوٹ کی راجکو فیکٹری: 'مزدور اتنے دباؤ میں ہیں کہ وہ اپنے جائز مطالبات پر بھی بات نہیں کرتے'۔

اس ضلعے میں تحریکِ لبیک پاکستان نے مجموعی طور پر 95 ہزار سات سو 58 ووٹ حاصل کیے جو یہاں ڈالے گئے کل ووٹوں کا 7.6 فیصد تھے جبکہ راجکو انڈسٹریز اور اس کے گردو نواح کے علاقے پر مشتمل قومی اسمبلی کے حلقہ این اے-76 میں اس کے امیدوار چوہدری محمد امین نے 16 ہزار سات سو 48 ووٹ حاصل کیے۔ اس حلقے میں پاکستان مسلم لیگ نواز کے رانا شمیم احمد نے ایک لاکھ 33 ہزار چھ سو 64 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی اور پاکستان تحریکِ انصاف کے امیدوار بریگیڈیئر (ر) محمد اسلم 93 ہزار چار سو 12 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر آئے۔ چوہدری محمد امین کی پوزیشن تیسری تھی۔

اس علاقے پر مشتمل صوبائی اسمبلی کے حلقے، پی پی-43، میں بھی تحریکِ لبیک پاکستان کے امیدوار یاسر حسین تیسرے نمبر پر آئے۔ انہوں نے آٹھ ہزار چھ سو 83 ووٹ حاصل کیے جو اس حلقے میں ڈالے گئے کل ووٹوں کا 7.3 فیصد تھے۔ 

متشدد جتھوں کی طاقت

سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک سیاست دان اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس بات کی توثیق کرتے ہیں کہ ان کے ضلعے کے اکثر دیہات میں تحریکِ لبیک پاکستان سے باقاعدہ طور پر وابستہ یا اس کے نظریات سے ہم آہنگی رکھنے والے لوگوں کا تعداد پہلے کی نسبت زیادہ ہو گئی ہے۔ ان کے مطابق اس جماعت کے حمایتی اب ہر جگہ اتنی تعداد میں موجود ہیں کہ کوئی حکومت یا بڑی سیاسی جماعت ان کے نظریات کی سرِعام مخالفت کر نے کی ہمت نہیں کر سکتی۔ 

تحریکِ لبیک پاکستان کی سیاسی قوت کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ 22 اکتوبر 2021 کو اس کی طرف سے شروع کیے گئے ایک پرتشدد مظاہرے کے نتیجے میں ایک طرف متعدد پولیس والے ہلاک ہوئے اور دوسری طرف وسطی پنجاب کے کچھ حصوں میں کاروبارِ زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا۔ اس کے باوجود حکومت اس مظاہرے کے خلاف کوئی سخت انتظامی اقدام اٹھانے سے کتراتی رہی بلکہ اس کے بجائے اسے ختم کرانے کے لیے اس جماعت سے ایک ایسا معاہدہ کیا گیا جس کے نتیجے میں اس کے مقید سربراہ سعد حسین رضوی سمیت اس کے سینکڑوں گرفتار کارکنوں کو رہا کر دیا گیا حالانکہ ان پر دہشت گردی سمیت کئی سنگین جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات تھے۔ 

تقریباً آٹھ ماہ پہلے وفاقی محکمہ داخلہ نے متشدد مظاہرے کرنے کے جرم میں تحریکِ لبیک پاکستان پر کسی قسم کی سیاسی اور عوامی سرگرمی میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ لیکن اس کے تازہ ترین احتجاج کے بعد یہ پابندی بھی اٹھا لی گئی چنانچہ اس کے رہنما اور کارکن اب کسی روک ٹوک کے بغیر اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

سیالکوٹ کے سیاست دان اس صورتِ حال کا ذمے دار حکومت کو ٹہراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ "پچھلے کچھ عرصے میں مذہب کی آڑ لے کر متشدد کارروائیاں کرنے والے افراد اور جماعتوں کے خلاف کوئی خاطرخواہ کارروائی نہیں کی گئی جس کے باعث ان کے حوصلے بڑھ گئے ہیں"۔ 

سیالکوٹ سے ہی تعلق رکھنے والے ماہرِ قانون اور سابقہ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سید عبدالوحید بخاری بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکومت کا تحریکِ لبیک پاکستان کے سامنے گھٹنے ٹیکنا ہی پریانتھا کمارا کی ہلاکت کا سبب بنا ہے۔ ان کے بقول "جس ملک میں قانون کی عمل داری ختم ہو جائے اور اس کے محافظوں کے خون کی کوئی قیمت نہ ہو اس کی تقدیر کا فیصلہ متشدد جتھے ہی کرتے ہیں"۔

انہیں تحریکِ لبیک پاکستان سے تعلق رکھنے والے ان لوگوں کی رہائی پر افسوس ہے جنہوں نے تین ماہ پہلے سیالکوٹ کے قریب واقع شہر وزیر آباد میں پولیس کے اہل کاروں کو ہلاک کیا تھا۔ انہیں اس بات پر بھی تشویش ہے کہ کچھ بڑی سیاسی جماعتوں کے عہدے داروں نے اس جماعت کے سربراہ سعد حسین رضوی کی رہائی پر انہیں پھولوں کے گُلدستے پیش کیے ہیں۔ ان کی نظر میں اس طرح کی "انتظامی اور سیاسی کمزوری" کی وجہ یہ ہے کہ "ہمارے ہاں نظریہ ضرورت کے تحت اصولوں پر سودے بازی ہوتی ہے اور قوانین کو پشِ پشت ڈال دیا جاتا ہے"۔

تاہم تحریکِ لبیک پاکستان کے سیالکوٹ کے ناظمِ اعلیٰ پروفیسر یاسر قادری پریانتھا کمارا کی ہلاکت میں اپنی جماعت کے بالواسطہ یا براہ راست ملوث ہونے کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "اس حوالے سے اب تک سامنے آنے والی تحقیقات میں اس قسم کی کوئی نشاندہی نہیں ہوئی"۔ 

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پریانتھا کمارا کی موت کا سبب بننے والا تنازعہ فیکٹری کے کسی اندرونی معاملے پر تھا لیکن ان کی لاش کو سڑک پر لا کر پورے معاملے کو ایک مذہبی رنگ دیا گیا اور اسے "ایک ایسی جماعت کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی گئی جو اس وقت ملک کی سب سے معروف مذہبی تنظیم ہے"۔ 

تاریخ اشاعت 30 دسمبر 2021

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محمد آصف ریاض رپورٹر ہیں اور ان کا کام کھیت سے منڈی اور صارف تک زرعی شعبے کے جملہ امور اور مسائل کا احاطہ کرتا ہے۔

thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

thumb
سٹوری

"ہماری عید اس دن ہوتی ہے جب گھر میں کھانا بنتا ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قصور کو کچرہ کنڈی بنانے میں کس کا قصور ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

افضل انصاری
thumb
سٹوری

چڑیاں طوطے اور کوئل کہاں غائب ہو گئے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنادیہ نواز

گیت جو گائے نہ جا سکے: افغان گلوکارہ کی کہانی

پاکستان کے پانی کی بدانتظامی اور ارسا کی حالیہ پیش رفت کے ساختی مضمرات: عزیر ستار

ارسا ترمیم 2024 اور سندھ کے پانیوں کی سیاست پر اس کے اثرات: غشرب شوکت

جامعہ پشاور: ماحول دوست شٹل سروس

خیبر پختونخوا: پانچ اضلاع کو جوڑنے والا رابطہ پُل 60 سال سے تعمیر کا منتظر

thumb
سٹوری

پرائیویٹ سکول میں تعلیم: احساس برتری یا کچھ اور ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمعظم نواز
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.