جنگل کی زمین پر بجلی کی پیداوار: رکھ چوبارہ کے باسی اور سرکاری محکمے آپس میں الجھ پڑے۔

postImg

فضا اشرف

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

جنگل کی زمین پر بجلی کی پیداوار: رکھ چوبارہ کے باسی اور سرکاری محکمے آپس میں الجھ پڑے۔

فضا اشرف

loop

انگریزی میں پڑھیں

رکھ چوبارہ کے ایک بڑے حصے پر شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے والی پلیٹیں نصب ہو چکی ہیں جو جلد ہی فعال ہو جائیں گی۔ حکومتی اہل کاروں کے مطابق ان سے پیدا ہونے والی بجلی سے پاکستان بھر میں 70 ہزار گھرانے مستفید ہوں گے۔ 

رکھ چوبارہ 16 ہزار نو سو 26 ایکڑ اراضی پر مشتمل ہے اور اس کا زیادہ تر حصہ ایک ایسی سڑک کے شمال میں واقع ہے جو جنوب مغربی پنجاب کے ضلع لیہ کی تحصیل چوبارہ کے صدر مقام چوبارہ کو قریبی ضلعے جھنگ کے قصبے گڑھ مہاراجہ سے جوڑتی ہے۔ اس کے نام سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسے کسی خاص مقصد کے لیے 'رکھا' گیا ہے۔ سرکاری دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ مقصد اس پر جنگل اگانا ہے۔ 

لیکن جنوری 2021 میں رکھ کی زمین میں سے چھ سو 50 ایکڑ اراضی ایک چینی کمپنی، زینفا انرجی گروپ، کے ذیلی ادارے، زینفا پاکستان نیو انرجی کمپنی لمیٹڈ، کو 25 سالہ لیز پر دے دی گئی تاکہ وہ اس پر شمسی توانائی پیدا کرنے کا سازوسامان لگا کر ایک سو میگا واٹ بجلی پیدا کر سکے۔ یہ منصوبہ اب تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ 

اس کی تنصیبات سے محض دو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ملانہ نامی بستی میں رہنے والے درجنوں گھرانے ابھی بھی بجلی سے محروم ہیں۔ ان میں سے چند ایک نے اپنی مدد آپ کے تحت شمسی توانائی سے بجلی بنانے والی پلیٹیں لگا رکھی ہیں لہٰذا انہیں چھوڑ کر باقی سارا گاؤں شام ہوتے ہی تاریکی میں ڈوب جاتا ہے۔ 

اس بستی کے ادھیڑ عمر رہائشی عاشق حسین کہتے ہیں کہ انہیں اس بات کی توقع نہیں کہ رکھ کی زمین سے پیدا ہونے والے بجلی کبھی ان تک بھی پہنچے گی لیکن وہ شکایت کرتے ہیں کہ اس کے لیے کی جانے والی تنصیبات کی وجہ سے ان کی پسماندگی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ یہ تنصیبات عین اس جگہ کی گئی ہیں جسے پچھلی چھ دہائیوں سے وہ اور سیکڑوں دوسرے مقامی باشندے اپنے مویشیوں کی چراہ گاہ کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔

ان کے خیال میں اس زمین سے ان کے جانوروں کی بے دخلی کے شدید منفی معاشی اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ اس علاقے کے زیادہ تر خاندانوں کے روزگار کا "سب سے بڑا ذریعہ مویشی پالنا ہے جنہیں زیادہ تر رکھ چوبارہ میں ہی چرایا جاتا تھا"۔ ان کا کہنا ہے کہ ملانہ اور اس کے آس پاس واقع متعدد دیہات میں زرعی آب پاشی کے لیے درکار پانی کی شدید کمی ہے جس کے باعث فصلوں کی فی ایکڑ پیداوار اچھی نہیں ہوتی۔ نتیجتاً  مویشی مقامی معیشت کا سب سے اہم جزو ہیں۔ 

تاہم ان کا کہنا ہے کہ مقامی لوگ رکھ کی زمین مفت میں استعمال نہیں کرتے تھے بلکہ اس کے بدلے میں ہر سال پنجاب کے محکمہ جنگلا ت کو دس روپے فی جانور کے حساب سے فیس ادا کرتے تھے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس محکمے نے انہیں مویشی چرانے کے باقاعدہ اجازت نامے دے رکھے تھے جو جُون 2021 تک قابلِ عمل تھے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ "اس مدت کے خاتمے سے پہلے ہی رکھ کی زمین چینی کمپنی کو دے دی گئی"۔

اس ضمن میں اپنی شکایات حکومت تک پہنچانے کے لیے عاشق حسین سمیت کئی مقامی باشندوں نے جنوری 2021 میں ضلع لیہ کے ڈپٹی کلکٹر کو درخواستیں بھی دیں۔ ان میں انہوں نے موقف اختیار کیا کہ رکھ چوبارہ کے جنوب میں بہت سی زمین خالی پڑی ہوئی ہے جسے کمپنی کو دے کر مویشیوں کی بے دخلی کو روکا جا سکتا ہے۔ لیکن انہیں ان درخواستوں کا کوئی جواب موصول نہ ہوا۔

اسی ماہ انہوں نے ڈسٹر کٹ کورٹ لیہ میں ایک اور درخواست دائر کی جس میں انہوں نے کہا کہ حکومت دھونس دھاندلی کا استعمال کر کے انہیں رکھ کی زمین سے بے دخل کرنا چاہتی ہے۔ ان کے مطابق جب انہوں نے حکومتی اہل کاروں کو چراگاہ کے استعمال کے اجازت نامے دکھائے تو وہ طیش میں آگئے اور انہیں دھمکیاں دینے لگے۔ انہوں نے عدالت سے یہ استدعا بھی کی کہ بجلی کے منصوبے کی تعمیرو تنصیب کا کام اس وت تک روک دیا جب تک زمین کے استعمال سے متعلق تنازعہ حل نہیں ہو جاتا۔  

تاہم بعد میں مقامی باشندوں اور حکومتی اہل کاروں نے مل کر فیصلہ کیا کہ اس معاملے کو عدالت کے باہر ہی حل کیا جائے۔ چنانچہ، عاشق حسین کے مطابق، ان سے وعدہ کیا گیا کہ اگر وہ اپنی درخواست واپس لے لیں تو ان کی بستیوں میں علاج معالجے کی سہولتیں اور پینے کا صاف پانی فراہم کیا جائے گا اور کمپنی کی تنصیبات سے متاثرہ علاقے کے لوگوں کو کمپنی میں نوکریاں بھی دی جائیں گی۔ 

لیکن اس معاہدے کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس کا کوئی تحریری ریکارڈ موجود نہیں۔ عاشق حسین تسلیم کرتے ہیں کہ یہ وعدے درحقیقت "زبانی کلامی" کیے گئے تھے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ "ابھی تک ان میں سے کسی وعدے پر بھی عمل درآمد نہیں ہوا"۔ حتیٰ کہ، ان کے بقول، پلانٹ میں نوکریاں بھی صوبہ سندھ کے لوگوں کو دے دی گئی ہیں۔

زینفا پاکستان نیو انرجی کمپنی لمیٹڈ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر مقصود احمد بسرا اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس علاقے میں ان کا ادارہ کام کر رہا ہے وہاں تکنیکی طور پر تربیت یافتہ لوگوں کی کمی ہے۔ اس لیے وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ایسی اسامیوں پر غیرمقامی افراد کو ہی نوکریاں دی گئی ہیں جن کے لیے تکنیکی مہارت کی ضرورت ہے۔ لیکن ان کا دعویٰ ہے کہ "اُن کاموں کے لیے 90 فیصد نوکریاں مقامی لوگوں کو دی گئی ہیں جن کے لیے کسی خاص مہارت کی ضرورت نہیں"۔ 

جس کی لاٹھی اس کی بھینس

زینفا پاکستان نیو انرجی کمپنی لمیٹڈ ستمبر  2014میں وجود میں آئی۔ لیکن ابھی اسے قائم ہوئے ایک سال بھی نہیں ہوا تھا کہ پنجاب پرائیویٹ پاور ڈویلپمنٹ بورڈ نے اسے ایک خط لکھ کر عندیہ دیا کہ وہ شمسی توانائی سے ایک سو میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ شروع کر سکتی ہے۔ 

جب کمپنی نے اس مقصد کے لیے رکھ چوبارہ کی زمین کا انتخاب کیا تو پنجاب کے بورڈ آف ریونیو نے 6 اگست 2015 کو لیہ کے ڈپٹی کمشنر کو ایک خط لکھ کر انہیں اس منصوبے کے بارے میں آگاہ کیا۔ اس خط کے جواب میں ستمبر 2015 میں اسسٹنٹ کمشنر چوبارہ نے رپورٹ دی کہ مجوزہ زمین محکمہ جنگلات کی ملکیت ہے جس سے اجازت لینے کے بعد ہی اسے شمسی توانائی پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ 

تاہم ڈپٹی کمشنر لیہ نے ایک مختلف موقف اختیار کرتے ہوئے بورڈ آف ریونیو کو بھیجی گئی رپورٹ میں کہا کہ متعلقہ زمین 1940 سے 1995 تک صوبائی حکومت کی ملکیت تھی مگر اس کے بعد ریونیو ریکارڈ میں غلطی کی وجہ سے اسے محکمہ جنگلات کی ملکیت تصور کیا جانے لگا۔ ان کا کہنا تھا کہ اب اس غلطی کی تصیح کر دی گئی ہے۔

لہٰذا، اس بات کی نشان دہی کرتے ہوئے کہ صوبائی حکومت نے 1963 میں یہ زمین محکمہ جنگلات کو درخت لگانے کے لیے لیز پر دی تھی، ان کا کہنا تھا کہ اس کی اصلی مالک، یعنی پنجاب حکومت، کو مکمل طور پر یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ محکمہ جنگلات سے پوچھے بغیر اسے کسی کو بھی دے دے ۔ اس رپورٹ کی روشنی میں بورڈ آف ریونیو نے زینفا پاکستان نیو انرجی کمپنی لمیٹڈ کو درکار زمین اس کے حوالے کر دی تاکہ وہ جائزہ لے سکے کہ آیا اس پر شمسی توانائی پیدا کرنے کے منصوبے کی تعمیر اور تنصیب قابلِ عمل ہے بھی یا نہیں۔

لیکن محکمہ جنگلات کے چوبارہ میں متعین اہل کار عمر فاروق کہتے ہیں کہ صوبائی حکومت نے ان کے محکمے کو زمین کی منتقلی کے عمل سے مکمل طور پر لاعلم رکھا حالانکہ، ان کے مطابق، اس عمل کے دوران ان کا محکمہ اس زمین پر درخت لگا رہا تھا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ 2017 اور 2019 کے درمیان اس پر لگ بھگ 20 ہزار درخت لگائے گئے۔

محکمہ جنگلات کے ایک سیکشن آفیسر نے بھی 13 جنوری 2021 کو بورڈ آف ریونیو کو لکھے گئے ایک خط میں کہا کہ کمپنی کو یہ زمین دیتے وقت ان کے محکمے کو مطلع نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس عمل میں اس امر کو بھی نظرانداز کیا گیا کہ نہ صرف اس زمین کا انتظامی کنٹرول ان کے محکمے کے پاس تھا بلکہ فاریسٹ ایکٹ 1927 (ترمیم شدہ) کے تحت اسے جنگل لگانے کے لیے مختص کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

گوادر کو حق دو تحریک: 'ترقی کے نام پر ہم سے ہمارا سمندر اور پہاڑ چھین لیے گئے ہیں'۔

ان کے دعوے کی تائید زمین کے سرکاری نقشے سے بھی ہوتی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ اس میں سے گزرنے والی سڑک کے کنارے محکمہ جنگلات کے اہل کاروں کے سرکاری گھر موجود ہیں جبکہ ان کے عقب میں اس محکمے کی نرسری بھی واقع ہے۔ 

لیہ میں متعین ڈویژنل فاریسٹ آفیسر ندیم اشرف وڑائچ نے کنزرویٹر آف فاریسٹ رینج مینجمنٹ سرکل، لاہور، کو 13 جنوری 2021 کو لکھی گئی درخواست میں یہی موقف دہرایا۔ انہوں نے کہا کہ "زینفا پاکستان نیو انرجی کمپنی لمیٹڈ نے لیہ کے ڈپٹی کمشنر کی معاونت سے محکمہ جنگلات کے زیرِ انتظام زمین پر بزورِ طاقت قبضہ کر لیا ہے"۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ فاریسٹ ایکٹ 1927 (ترمیم شدہ) کے مطابق جنگل کے لیے مختص زمین کے استعمال میں تبدیلی کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کا محکمہ اس کی باقاعدہ اجازت دے اور یہ کہ اس تبدیلی کے نتیجے میں جنگل کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی کی جائے۔

دوسری طرف اگرچہ لیہ کے ڈپٹی کمشنر نے 25 جنوری 2021 کو وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے سیکرٹیریٹ کو لکھے ہوئے ایک خط میں تسلیم کیا کہ اس اراضی کا انتظام پچھلے 59 سال سے محکمہ جنگلات کا پاس تھا لیکن ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ "اس سارے عرصے میں وہاں ایک درخت بھی نہیں لگایا گیا"۔ لیکن، ان کے بقول، جیسے ہی کمپنی کو زمین دینے کا معاملہ سامنے آیا تو اچانک اس پر شجرکاری شروع ہو گئی۔ ان کی نظر میں یہ شجرکاری "ان ناجائز قابضین کے مفاد کا تحفظ کرنے کے لیے کی جا رہی ہے جو اس زمین کو اپنے جانوروں کی چراگاہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں"۔

لیکن محکمہ جنگلات ابھی تک اپنے موقف پر ڈٹا ہوا ہے (حالانکہ عملی طور پر زمین اس کے کنٹرول سے نکل گئی ہے)۔ اسی لیے جب 18 اگست 2021 کو کمپنی نے پلیٹوں کی تنصیب کے لیے رکھ میں موجود درختوں کی کٹائی شروع کی تو جنگل کے گارڈ محمد اشفاق نے اس کے خلاف تھانہ چوبارہ میں رپورٹ درج کرا دی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے منع کرنے کے باوجود کمپنی کے ملازمین نے 96 ہزار روپے مالیت کے درخت کاٹ دیے ہیں۔

ندیم اشرف وڑائچ نے بھی چوبارہ کے سول جج کو اکتوبر 2021 میں ایک ایسی ہی درخواست دی جس میں انہوں نے کہا کہ کمپنی کے دو ملازمین نے دو مختلف اوقات میں بالترتیب 96 ہزار روپے اور ایک لاکھ 80 ہزار روپے مالیت کے درخت کاٹے ہیں اس لیے ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔
تاہم اس درخواست پر ابھی تک کوئی سماعت نہیں ہوئی۔

تاریخ اشاعت 13 جنوری 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

فضا اشرف نے اقراء یونیورسٹی اسلام آباد سے عالمی تعلقات میں ایم ایس سی کیا ہے۔ وہ ماحولیات، موسمیاتی تبدیلی اور متعلقہ موضوعات پر رپورٹنگ کرتی ہیں۔

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

thumb
سٹوری

"ہماری عید اس دن ہوتی ہے جب گھر میں کھانا بنتا ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

thumb
سٹوری

قصور کو کچرہ کنڈی بنانے میں کس کا قصور ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

افضل انصاری
thumb
سٹوری

چڑیاں طوطے اور کوئل کہاں غائب ہو گئے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنادیہ نواز

گیت جو گائے نہ جا سکے: افغان گلوکارہ کی کہانی

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.