پاکستان میں لسانی شناختوں کی بنتی بگڑتی بساط: مردم شماریوں کے ڈیٹا کی نظر سے

postImg

طاہر مہدی

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

پاکستان میں لسانی شناختوں کی بنتی بگڑتی بساط: مردم شماریوں کے ڈیٹا کی نظر سے

طاہر مہدی

loop

انگریزی میں پڑھیں

پاکستانی ریاست کا اپنے عوام کی لسانی شناخت سے رشتہ روز اول سے ہی معاندانہ رہا ہے۔ آزادی کے ابتدائی مہینوں میں اردو کو بنگال کی سرکاری زبان بنانے کی جو غیر دانشمندانہ کوشش کی گئی وہ اس رشتے کی منفیت جاننے کے لیے کافی ہے۔

پاکستان کی حکمران اشرافیہ نے لسانی تنوع کو ایک قوم کی تشکیل کی راہ میں رکاوٹ گردانا اور یا تو اس کے وجود سے ہی انکار کیا یا پھر اسے زور زپردستی مٹانے کے درپے رہی۔

1951ء کی مردم شماری میں مادری زبان کا خانہ تو شاید برطانوی راج سے ورثے میں ملا تھا لیکن اس میں اردو کے علاوہ صوبوں کی حدود کے اندر لسانی تنوع کو خاطر میں نہیں لایا گیا۔ 1961ء تک صوبے ہی ختم کئے جا چکے تھے لیکن بلوچستان میں براہوی کو علیحدہ زبان کا رتبہ دیا گیا۔ 1972ء میں ہونے والی تیسری مردم شماری کے وقت صوبے تو بحال ہو چکے تھے لیکن زبانوں کا خانہ سرے سے ہی ختم کر دیا گیا۔

1981ء کی مردم شماری میں نہ صرف مادری زبانوں کی گنتی بحال ہوئی بلکہ بلوچستان میں براہوی کے ساتھ خیبرپختونخوا میں ہندکو اور پنجاب میں سرائیکی کو بھی علیحدہ مقام دیا گیا۔ اگلی مردم شماری سات سال تاخیر سے 1998ء میں ہوئی اور اس میں براہوی اور ہندکو کو نکال دیا گیا۔

2017ء میں سابقہ تمام زبانوں کو فارم پر دوبارہ جگہ مل گئی اور ان میں کشمیری زبان کا اضافہ بھی کر دیا گیا پھر 2023ء کی آخری مردم شماری میں مادری زبان کے خانے میں بلتی، شنا، کیلاشہ، کوہستانی اور میواتی کا اضافہ بھی کر دیا گیا۔

فارم پر زبانوں کی بے تکی آمدورفت سے تو یہی لگتا ہے کہ یہ فیصلے وقتی دباؤ یا مصلحتوں کے تحت ہوتے رہے ہیں، کسی باقاعدہ اور بااصول پالیسی کے تحت نہیں۔ اسی لیے مردم شماریوں کا ڈیٹا مختلف کمیونٹیز کی لسانی شناخت کے سفر کی داستان مستند طور پر تو نہیں سنا پاتا لیکن پھر بھی ان کے کچھ پہلو ضرور آشکار کر دیتا ہے۔

ان میں سے چھ یہ ہیں: 

1- سب سے بڑی نئی لسانی شناخت سرائیکی ہے

1981ء میں جب پہلی بار سرائیکی کو مردم شماری میں شامل کیا گیا تو اپنی مادری زبان کو سرائیکی کہنے والے پنجاب کی کل آبادی کا 14.9 فیصد تھے جو بڑھتے بڑھتے اب 20.6 فیصد ہو گئے ہیں۔

اس اضافے کا ایک کارن تو سرائیکی علاقوں کا زیادہ شرح پیدائش ہے لیکن یہ واحد وجہ نہیں۔ جنوبی پنجاب کے کچھ علاقوں کے لوگ سرائیکی شناخت کے سفر میں کچھ توقف سے شامل ہوئے۔ مثلاً 1998ء میں میانوالی کی 74 فیصد آبادی نے اپنی مادری زبان پنجابی بتائی تھی لیکن اگلی مردم شماری (2017ء) میں اتنی ہی آبادی نے اسے سرائیکی لکھوایا اور 2023ء میں بھی ایسا ہی ہوا۔

سرائیکی

postImg

2017 کی مردم شماری کے نتائج: پنجاب میں سرائیکی بولنے والوں کے تناسب میں اضافہ۔

یہ تبدیلی وہاڑی جیسے اضلاع میں بھی سامنے آئی جہاں تین چوتھائی اکثریت پنجابی بولنے والوں کی ہے۔ یہاں دو مردم شماریوں کے درمیان اپنی زبان کو پنجابی کہنے والوں میں آٹھ فیصد کمی آئی اور اسے سرائیکی کہنے والوں میں اتنا ہی اضافہ ہوا البتہ جنوبی پنجاب کے کچھ اور اضلاع جیسے بہاولنگر میں یہ رجحان سامنے نہیں آیا۔

2- پاکستان میں پنجابی بولنے والے اب اکثریت میں نہیں رہے

1951ء میں پنجاب اور ریاست بہاولپور کی مجموعی آبادی دو کروڑ سے زائد تھی اور ملک میں پنجابی بولنے والوں کی تعداد بھی اتنی ہی گنی گئی تھی لیکن 1981ء میں جب سرائیکی بولنے والوں کو علیحدہ گنا گیا تو پنجاب میں پنجابیوں کی تعداد 79 فیصد ہوگئی جو کم ہوتے ہوتے 2023ء میں 67 فیصد پر آگئی گویا اب ہر تین پنجاب واسیوں میں سے دو کی مادری زبان پنجابی ہے اور ایک کی سرائیکی یا کوئی اور۔

پنجابی

postImg

'اینوں پڑھا کے کیہہ کرنا جے؟' پنجاب کی اعلیٰ تعلیم میں پنجابی زبان

انہی اعدادوشمار کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ 1951ء میں پنجابی بولنے والے (مغربی) پاکستان کی کل آبادی کا 62 فیصد یعنی واضح اکثریت تھے لیکن بعد کی لسانی تخصیص اور دوسرے لسانی گروپوں سے نسبتاً کم شرح پیدائش کے باعث اب پنجابی پاکستان کی کل آبادی کا 37 فیصد رہ گئے ہیں۔

3- پنجابی اپنی زبان چھوڑ رہے ہیں

پنجاب کی شہری اشرافیہ میں اپنے آپ کو اردو سپیکنگ کہلوانے کا رجحان نیا نہیں ہے لیکن پانچ سال کے وقفے سے ہونے والی گذشتہ دو مردم شماریوں میں اس میں کافی تیزی دکھائی دی۔

 2017ء میں پنجاب میں اردو بولنے والوں کا فیصد حصہ 4.87 تھا اگر 2023ء میں بھی یہی برقرار رہتا تو ان کی کل آبادی 62 لاکھ کے قریب ہونی چاہیے تھی جبکہ اس مردم شماری میں پنجاب میں اپنی مادری زبان اردو بتانے والوں کی تعداد 91 لاکھ 43 ہزار گنی گئی۔ 
یہ کہنا محفوظ ہو گا کہ ان پانچ سالوں میں 25 سے 30 لاکھ پنجاب باسیوں نے اپنی مادری زبان پنجابی کی بجائے اردو لکھوانے کو ترجیح دی۔

پنجابی

postImg

لسانی ہجرت 2023: پنجابی اپنی ماں بولی کو گھروں سے نکال رہے ہیں

'لسانی ہجرت' کرنے والے پنجابیوں میں سے کم از کم ہر تیسرے کا تعلق ضلع لاہور سے ہے۔ یہاں ان کی تعداد کا تخمینہ 11 لاکھ ہے۔ یعنی ضلع کے ہر دسویں فرد نے 2017ء اور 2023ء کے درمیان اپنی مادری زبان بدلا لی۔

4- پشتو بولنے والے چاروں صوبوں میں پھیلے ہوئے ہیں

پشتو بولنے والے پاکستان کا دوسرا بڑا لسانی گروپ ہیں۔ 1981ء میں (مغربی) پاکستان کے ہر ایک ہزار میں سے 140 کی مادری زبان پشتو تھی اور اب 181 کی ہے۔ اس اضافے کی ایک وجہ تو پشتونوں کا واضح طور پر زیادہ شرح پیدائش ہے اور پھر کچھ حصہ افغانستان سے ہجرت اور دور دراز کے پہاڑی علاقوں تک رسائی کے بہتر ہونے سے بھی پڑا جس سے مردم شماری کی کوالٹی بہتر ہو گئی۔

پشتو بولنے والوں کا دوسرا اہم وصف ان کا پھیلاؤ ہے۔ یہ واحد لسانی گروپ ہے جو پاکستان کے ہر کونے میں خاصی تعداد میں موجود ہے۔ پاکستان میں پنجابی بولنے والے 97 فیصد افراد پنجاب میں ہی رہتے ہیں اور یہی حال سندھیوں کا بھی ہے لیکن ہر چار میں سے تین (75 فیصد) پشتون خیبرپختونخوا میں رہتے ہیں اور باقی دوسرے صوبوں میں۔

پشتو

postImg

چیٹ جی پی ٹی، ڈیپ سیک کو پشتو بولنا سکھانے کی جانب ایک پیش رفت؛ پشتو کے اے آئی کی دنیا میں داخلے کے لیے 'پشتو پال' کی کاوشیں

1981ء تک 95 فیصد پشتون یا تو موجودہ خیبرپختونخوا میں رہتے تھے یا بلوچستان کے شمالی اضلاع میں جو ان کا آبائی وطن ہیں لیکن اگلی چار دہائیوں میں ان علاقوں میں پشتونوں کا تناسب آٹھ فیصد کم ہوگیا اور سندھ اور پنجاب میں اتنا ہی بڑھ گیا یعنی پشتون اپنے علاقوں سے ہجرت کر کے ان صوبوں میں آباد ہو گئے۔

 5- سندھ کا کراچی پاکستان کے ہر لسانی گروپ کا گھر ہے

سندھی بولنے والے صوبہ سندھ کی آبادی کا 60 فیصد ہیں۔ ملک میں اردو بولنے والوں کی سب سے بڑی آبادی بھی سندھ میں ہے جو صوبہ کی آبادی کا 22 فیصد ہیں۔

پھیلاؤ کے نقطہ نظر سے سندھی، پشتونوں کے برعکس ہیں۔ 2023ء کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں سندھی بولنے ہر ایک سو افراد میں سے صرف تین سندھ سے باہر رہتے ہیں۔ ان میں سے بھی نصف سندھ سے بلوچستان کے ان اضلاع میں رہتے ہیں جو ان کا آبائی علاقہ ہی ہیں۔

سندھی

postImg

'یہ سندھی بولنے والوں پر ہے کہ وہ انٹرنیٹ پر اپنی ماں بولی کتنی استعمال کرتے ہیں، کمپنیوں کو تو بس صارفین چاہئیں'

موازنے کے لیے دیکھیے کہ 13 فیصد پشتون پختونخوا اور بلوچستان میں اپنے آبائی علاقوں سے باہر سندھ پنجاب کے شہروں میں مقیم ہیں۔

سندھ کا دارالحکومت کراچی پاکستان کے ہر لسانی گروپ کا گھر ہے۔ یہ پشتو، بلوچی بولنے والوں سے لے کر اردو اور بلتی بولنے والوں تک کا سب سے بڑا شہر ہے۔

6- 'دیگر' زبانوں کا خانہ وسیع ہو رہا ہے

پہلی مردم شماری میں (مغربی) پاکستان کے ہر ایک ہزار میں سے 985 افراد کی مادری زبان ملک کی پانچ بڑی زبانوں (پنجابی، سندھی، پشتو، بلوچی اور اردو) میں سے ایک شمار ہوئی تھی گویا صرف 15 افراد کی بولی کو ان میں سے کسی بھی خانے میں فٹ نہ ہونے پر 'دیگر' کے خانے میں ڈال دیا گیا تھا۔

پشتو

postImg

لوک سجاگ جائزہ: خیبر پختونخوا کے سکولوں میں پانچ مادری زبانوں کی تعلیم کا اقدام کتنا موثر ثابت ہوا؟

2023ء میں ان پانچ خانوں میں فٹ ہونے سے انکار کرنے والوں کی تعداد 179 ہو گئی۔ ان میں سے 165 کی زبان تو سرائیکی، ہندکو، براہوی، میواتی، شنا، بلتی، کشمیری، کیلاشہ اور کوہستانی کو نئے خانے میسر آ گئے لیکن ہر ایک ہزار میں سے 14 افراد اب بھی اپنی مادری زبان کو ان دستیاب خانوں سے باہر سمجھتے ہیں اور اسے علیحدہ زبان تسلیم کروانے کے لیے کسی نہ کسی سطح پر جدوجہد کر رہے ہیں۔


 

گجراتی

postImg

کبھی کراچی میں راج کرنے والی گجراتی زبان: 'ہم نے اپنے کاروبار کو فوقیت دی اور مارکیٹ کی زبان کو اپنا لیا'

کراچی میں گجراتی ایک زمانے میں بہت اہمیت کی حامل زبان رہی ہے بلکہ گجراتیوں کو ماڈرن کراچی کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے جو کاروباری طبقے کی پہلی صف میں آتے ہیں۔


 

ہزارگی

postImg

'مادری زبان کے نام پر ہم پہ فارسی نہ تھوپیں، ہزارگی علیحدہ زبان ہے فارسی کا لہجہ نہیں'

کوئٹہ شہر میں بلوچی اور پشتو بولنے والوں کی اکثریت ہے لیکن ہزارہ ٹاؤن اور مری آباد کے علاقے 'ہزارہ برادری کا ملک' ہیں جو اپنے منگول نین نقش کی وجہ سے ممتاز ہیں اور  بھیڑ میں بھی با آسانی پہچانے جاتے ہیں۔ پاکستان میں ہزارہ کمیونٹی کی سب سے بڑی آبادی کوئٹہ کی شہری ہے۔


 

میواتی

postImg

'میواتی خود کو اردو کا وارث سمجھتے تھے اور اسے اپنی زبان مانتے رہے': ہجرت کے 76 سال بعد میواتی کو زبان کا درجہ کیسے ملا؟

بھارت کی 2011ء کی مردم شماری نے میواتی بولنے والوں کی کل تعداد آٹھ لاکھ 56 ہزار 643 بتائی تھی جبکہ پاکستان کی تازہ مردم شماری (2023ء) کے مطابق یہاں ان کی تعداد 10 لاکھ 94 ہزار 219 ہے۔ گویا اس وقت بھی میو برادری دونوں ملکوں میں برابر تقسیم ہے۔


 

تاریخ اشاعت 6 مارچ 2025

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

طاہر مہدی ایک انتخابی تجزیہ نگار ہیں انہیں صحافت کا وسیع تجربہ ہے اور وہ سیاسی اور سماجی امور پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

خاموش واپسی یا زبردستی اخراج؟ افغان پناہ گزینوں کی حقیقی کہانیاں

سندھ: کینیڈا سے سائنس سمجھانے آیا محمد نواز سومرو

thumb
سٹوری

طویل لوڈ شیڈنگ سے دنیا کی چھٹی بڑی سولر مارکیٹ بننے کا سفر: کیا نئی پالیسی سے 'سولر سونامی' تھم جائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

سجاگ رپورٹ
thumb
سٹوری

انصاف کی راہ میں گھات لگائے راہزن: اپنی جان لینے والے نیسلے ملازم کی کہانی

arrow

مزید پڑھیں

User Faceامین وارثی

سولر لگانے والے کیوں پریشان ہیں؟

دریاؤں کے لئے کچھ کرنے کے عالمی دن پر دریائے سندھ کو خراج تحسین

مزدور انصاف مانگتا ہے، عدالت تاریخ دے دیتی ہے

thumb
سٹوری

گناہ بے لذت: گلگت بلتستان میں لوڈشیڈنگ کم کر نے کے لیے ڈیزل جنریٹرز، بجلی تو پھر بھی نہ آئی اور آلودگی بڑھ گئی

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر

برطانیہ کی پنجابی دشمنی ہمارے حکمران لے کر چل رہے ہیں

thumb
سٹوری

'کسان کھڑی فصلوں پہ ہل چلا رہے ہیں، سبزیوں کی اتنی بے قدری کبھی نہیں دیکھی'

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ریاض
thumb
سٹوری

شینا کوہستانی یا انڈس کوہستانی: اصلی 'کوہستانی' زبان کون سی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceزبیر توروالی
thumb
سٹوری

پاکستان میں لسانی شناختوں کی بنتی بگڑتی بساط: مردم شماریوں کے ڈیٹا کی نظر سے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceطاہر مہدی
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.