پنجاب ورکنگ ویمن ہاسٹل اتھارٹی ایکٹ پر کب عملدرآمد ہو گا؟

postImg

سہیرہ طارق

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

پنجاب ورکنگ ویمن ہاسٹل اتھارٹی ایکٹ پر کب عملدرآمد ہو گا؟

سہیرہ طارق

loop

انگریزی میں پڑھیں

کرن ملک کا تعلق جنوبی پنجاب کے ضلع بھکر سے ہے۔ انہوں نے سوشیالوجی میں ماسٹرز کیا تو نوکری کے حصول کے لئے کافی عرصے تک پریشان رہیں لیکن پھر انہیں اپنے شہر سے تقریبا 400 کلومیٹر دور، ملتان کی ایک نجی کمپنی میں ملازمت مل گئی۔ مگر ان کی پریشانیاں ختم نہیں ہوئیں۔

ایک ایسے شہر میں نوکری کے لیے اکیلے رہنا، جہاں کوئی رشتہ دار بھی مقیم نہ ہو، کرن کے لئے کافی مشکلات کا باعث ہے۔

کمپنی کی جانب سے بھی رہائش کا انتظام نہیں ہے اور پچھلے تین ماہ سے کرن کسی محفوظ اور پرسکون رہائش کی تلاش میں ہیں۔

 کرن بتاتی ہیں کہ وہ جس نجی ہاسٹل میں رہائش پذیر ہیں وہاں کرایہ بہت زیادہ ہے اور بنیادی سہولیات نہ ہونے کے برابر، غیر محفوظ ہونے کا احساس الگ ہے۔

اس ذہنی کوفت کے باعث وہ کئی بار نوکری چھوڑنے کے بارے بھی سوچتی ہیں لیکن یہ فیصلہ ان کے کیرئیر کے حوالے سےاچھا نہیں ہو گا۔

اپنے شہر کو چھوڑ کر کسی دوسرے شہر میں ملازمت کے لئے آئی خواتین کے لئے محفوظ اور سستی رہائش کی عدم دستیابی ایک اہم مسئلہ ہے۔

اکیس لاکھ کی آبادی والے شہر ملتان میں صرف ایک سرکاری ہاسٹل ہے۔

ادارہ شماریات کے مطابق ضلع ملتان کی آبادی 47 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے، جن میں خواتین کی تعداد 23 لاکھ سے زائد ہے۔ معاشی حالات کے پیش نظر خواتین میں ملازمت کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔

سابقہ سیکرٹری ویمن ڈیویلپمنٹ پنجاب بشریٰ امان نے 21 جولائی 2018 کو ملتان آمد کے موقع پر ملتان میں دوسرا ورکنگ ویمن ہاسٹل قائم کرنے کا اعلان کیا تھا تاکہ جنوبی پنجاب کی ملازمت پیشہ خواتین کو رہائش کی بہتر سہولیات مل سکیں مگر پانچ سال گزر جانے کے بعد بھی اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔

محکمہ ویمن ڈیویلپمنٹ پنجاب کی سیکرٹری سمیرا صمد نے لوک سجاگ کو بتایا کہ محکمہ کے زیر انتظام اس وقت پنجاب کے 12 اضلاع میں16 ورکنگ ویمن ہاسٹل ہیں جن میں مجموعی طور پر 625 بیڈ ہیں۔ لاہور میں چار، راولپنڈی میں دو جبکہ گوجرانوالہ، فیصل آباد، ساہیوال، وہاڑی، ملتان، بہاولپور، مظفرگڑھ، ڈیرہ غازیخان، رحیم یار خان اور سرگودھا میں ایک ایک ہاسٹل ہے۔ ان میں سے بعض ہاسٹل سرکاری عمارتوں جبکہ کچھ کرائے کی عمارتوں میں پبلک، پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت بنائے گئے ہیں۔

وہ کہتی ہیں صوبے کے تمام اضلاع میں ہاسٹل بنائے جائیں گے جبکہ بڑے شہروں میں ایک سے زیادہ ہاسٹلز بنانے کا منصوبہ ہے۔ آئندہ مالی سال میں ویمن ہاسٹلز اتھارٹی کے لئے بجٹ مختص کیا جائے گا جس کے بعد اتھارٹی کے لئے سٹاف کی بھرتی ہو گی۔

پرائیویٹ ہاسٹل، شتر بے مہار

پنجاب میں اس وقت کتنے پرائیویٹ ہاسٹل ہیں اس کا کسی بھی حکومتی ادارے کے پاس کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ صرف ملتان کی گلگشت کالونی میں ڈیڑھ سو سے زائد ہاسٹلز ہیں۔

ہزاروں ہاسٹل رہائشی عمارتیں کرایہ پر لے کر بنائے گئے ہیں۔ صرف متعلقہ تھانے کو اطلاع دی جاتی ہے، ہاسٹلز مالکان نے اپنے حساب سے خود ہی کرائے اور رہائشیوں کے لئے اصول وضوابط طے کر رکھے ہیں۔

اٹھائیس سالہ اقصی عندلیب کا تعلق احمدپور شرقیہ سے ہے۔ وہ گزشتہ تین سال سے ملتان کے مختلف نجی ہاسٹلوں میں رہ چکی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ نجی ہاسٹلز میں انہیں اچھا خاصا کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے، کھانے کے پیسے الگ دینا پڑتے ہیں۔ اس کے باوجود کھانا معیاری نہیں ہوتا ، جس سے ان کی صحت بری طرح متاثر ہو چکی ہے۔

وہ جس ہاسٹل میں فی الحال رہائش پذیر ہیں، وہاں پانی اور بجلی دونوں غائب رہتے ہیں لیکن چونکہ یہ ان کے دفتر کے قریب ہے اس لئے وہ تمام ذہنی اذیت کے باوجود یہاں رہنے پر مجبور ہیں۔

عندلیب کہتی ہیں کہ وہ ہاسٹل انتظامیہ کی شکایت بھی کریں تو کس سے کریں، کیونکہ ایسی کوئی اتھارٹی نہیں جو ایسے ہاسٹلز کے خلاف کارروائی کر سکے۔

پرائیویٹ ہاسٹلز کو ریگولیٹ کرنے کے لئے کسی بھی سطح پر کوئی اتھارٹی موجود نہیں ہے، لاہور میں پرائیویٹ ہاسٹل چلانے والے مظاہر شگری اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔

"ہم خود ہی ہاسٹل میں مقیم خواتین کا ریکارڈ جس میں ان کے قومی شناختی کارڈ کی کاپی، ایک تصویر، خاتون کے والد یا شوہر کے شناختی کارڈ کی کاپی اور وہ جس ادارے میں پڑھتی یا جاب کرتی ہیں وہاں سے تصدیقی لیٹر  لے کر مقامی تھانے میں جمع کرواتے ہیں"۔

انہوں نے کہا حالات یہ ہیں کہ تھانے میں ریکارڈ جمع کروانے کے لئے عملے کی مٹھی گرم کرنا پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ جب سے دہشت گردی کے کچھ واقعات ہوئے یا کسی ہاسٹل میں کوئی ناخوشگوار واقع پیش آ جائے تو پھر مختلف ایجینسز کے لوگ بھی چیک کرنے آتے ہیں اور ان میں سے اکثر پیسے لے کر جاتے ہیں۔

ورکنگ ویمن ہاسٹل اتھارٹی ایکٹ پر عمل کیوں نہیں ہو رہا؟

سابق پنجاب حکومت نے سرکاری اور پرائیویٹ ہاسٹلوں کی رجسٹریشن، مانیٹرنگ اور انہیں ریگولائز کرنے کے لئے  ورکنگ ویمن ہاسٹل اتھارٹی کی منظوری دی تھی تاہم یہ اتھارٹی ابھی تک فعال نہیں ہو سکی ہے۔

ایکٹ کے مطابق صوبے میں موجود خواتین کے تمام پرائیویٹ ہوسٹلوں کی رجسٹریشن کی جائے گی اور بغیر رجسٹریشن کے تحت چلنے والے تمام ہاسٹل سیل کر دیے جائیں گے۔

قواعد یا ضوابط کی خلاف ورزی پر ہاسٹل کی رجسٹریشن معطل یا دیگر تادیبی کارروائی کی جا سکے گی۔

ہاسٹل مالکان کو حفظان صحت اور خواتین کی حفاظت کے لیے ایکٹ میں طے کردہ معیارات یقینی بنانا ہوں گے۔ خلاف ورزی پر ہاسٹل کی رجسٹریشن کی منسوخی یا 10 ہزار روپے تک جرمانے کی سزا ہو گی۔

پنجاب ویمن ہاسٹلز اتھارٹی ایکٹ فروری 2023 میں منظور کیا گیا تھا۔ اتھارٹی میں ہائر ایجوکیش ڈیپارٹمنٹ، پرائمری اینڈ سکینڈری ہیلتھ، سپیشلائزڈ ہیلتھ اینڈ میڈیکل، سوشل ویلفیئر، لیبر و ہیومن ریسورسز، فنانس، لوکل گورنمنٹ، ہاؤسنگ اربن ڈیویلپمنٹ کے سیکریٹری ممبر ہوں گے۔

پنجاب اسمبلی کی تین خواتین رکن بھی اتھارٹی کی ارکان ہوں گی جن میں سے ایک خاتون اپوزیشن جبکہ دو کی نامزدگی سپیکر پنجاب اسمبلی کی طرف سے کی جائے گی۔ اسی طرح ویمن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی ایک نمائندہ، پرائیویٹ ہاسٹلز آپریٹرز کا ایک نمائندہ،  ڈی جی ویمن ہاسٹلز اتھارٹی سمیت اس شعبے میں مہارت رکھنے والے تین نان آفیشل افراد اتھارٹی کے رکن ہوں گے۔

نگران پنجاب حکومت میں ویمن ڈیویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کا کوئی وزیر نہیں ہے۔ تاہم جب ورکنگ ویمن ہاسٹلز اتھارٹی کے قیام کے حوالے سے نگران وزیر اطلاعات عامر میر سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا پنجاب ویمن ہاسٹلز اتھارٹی ایکٹ 2023 میں یہ واضع ہے کہ اتھارٹی میں تین خواتین اراکین اسمبلی کا ہونا ضروری ہے لیکن اس وقت چونکہ نگران حکومت ہے تو اس قانونی اور تکنیکی معاملے کی وجہ سے اتھارٹی فعال نہیں ہو سکی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

میٹھا میٹھا ہپ: کیا دو طالبات کی ہلاکت بہاولپور کے نجی ہاسٹلز کو قانون کے دائرے میں لا پائے گی؟

انہوں نے کہا وہ سمجھتے ہیں ہاسٹلز کو ایک قانونی دائرہ کار میں لانے اور ان کے لئے قواعد وضوابط بنانے کے لئے اتھارٹی کا قیام ضروری ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ انتخابات کے بعد جو بھی منتخب حکومت آئے گی وہ یقینا اس اتھارٹی کو فعال کرے گی۔

سرکاری ہوسٹلوں کی الگ کہانی ہے

سرکاری ہاسٹل میں داخلے کے لئے لوگ انتظامیہ کی منت سماجت کرتے ہیں لیکن وہ اس بات سے لا علم ہیں کہ سرکاری ہاسٹلز کے حالات نجی ہاسٹلز سے مختلف نہیں ہیں۔

کشف کا تعلق سرگودھا سے ہے، وہ  ایک سرکاری ملازم ہیں اور ملتان کے سرکاری ہاسٹل میں رہائش پذیر ہیں، لیکن ان کے مسائل بھی نجی ہاسٹل میں رہنے والی خواتین سے مختلف نہیں ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ جس ہاسٹل میں وہ رہتی ہیں، وہاں گنجائش 25 خواتین کی ہے لیکن وہاں 35 سے زائد خواتین مقیم ہیں۔

"سرکاری ہاسٹل کی فیس تو نجی ہاسٹلز کے مقابلےمیں قدرے کم ہے لیکن یہاں سہولیات نام کی کوئی چیز نہیں۔ صفائی  کے لئے ایک ملازم ہے جو اکثر و بیشتر چھٹی پر ہوتا ہے۔

"ڈرائیور، باورچی اور چوکیدار کی ذمہ داریاں ایک ہی ملازم نبھا رہا ہے۔ وہ بازار سے سودا سلف لینے چلا جائے، یا کچن میں کام کر رہا ہو تو گیٹ خالی رہتا ہے"۔

کشف مزید بتاتی ہیں کہ کئی خواتین کے کپڑے، موبائل اور میک اپ کا سامان وغیرہ چوری ہو جاتے ہیں لیکن ہاسٹل انتظامیہ کو شکایت کرنے پر انہیں جواب ملتا ہے کہ ان کے سامان کی حفاظت ہاسٹل انتظامیہ کی ذمہ داری نہیں ہے، اس لئے انہیں مہنگا سامان ہمہ وقت اپنے ساتھ رکھنا پڑتا ہے۔

بتول فاطمہ کا تعلق لیہ ہے اور وہ گذشتہ چھ سال سے لاہور میں جاب کرتی ہیں۔ وہ ایک سرکاری ورکنگ ویمن ہاسٹل میں رہتی ہیں۔ وہ  کہتی ہیں ان کے والد بھی ایک سرکاری محکمے میں ایڈیشنل سیکرٹری رہ چکے ہیں اس لئے انہیں سرکاری ورکنگ ویمن ہاسٹل میں جلدی جگہ مل گئی تھی۔ لاہور جیسے شہر میں ہاسٹل کا کرایہ تو بہت کم ہے لیکن جس طرح سرکاری اداروں میں ہوتا ہے ویسا ہی حال ہاسٹل میں ہے۔

"صفائی والے عملے کی مٹھی گرم کر دیں تو بہترین صفائی کریں گے وگرنہ چاہے کئی کئی دن کوئی صفائی کرنے نہ آئے کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا ہے۔ خاص طور پر واش رومز کی صفائی کا بڑا ایشو رہتا ہے"۔

سمیرا صمد  اس بات سے اتفاق نہیں کرتیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سرکاری ہوسٹلوں میں رہائش کی بہترین سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں، سیکیورٹی کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا ہاسٹلز کے کرائے انتہائی کم ہیں، اس وقت 2014 میں مقرر کئے گئے کرائے لئے جا رہے ہیں۔ کرائے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

تاریخ اشاعت 19 دسمبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

سہیرہ طارق گزشتہ 7 سالوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ مختلف قومی و علاقائی نیوز چینلز میں سماجی، سیاسی، معاشرتی و دیگر موضوعات پر رپورٹنگ کرتی ہیں۔

thumb
سٹوری

کوئٹہ شہر کی سڑکوں پر چوہے بلی کا کھیل کون کھیل رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

شاہ زیب رضا
thumb
سٹوری

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

arrow

مزید پڑھیں

یوسف عابد

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.