'وہ چاہتے ہیں میں ان کی ہر بات مانتی رہوں یا نوکری چھوڑ دوں'

postImg

عروج اورنگزیب

postImg

'وہ چاہتے ہیں میں ان کی ہر بات مانتی رہوں یا نوکری چھوڑ دوں'

عروج اورنگزیب

ڈاکٹر ڈالیہ محمود ایک رپورٹ جمع کرانے کے لئے جب لاہور کی کِنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر خالد مسعود گوندل کے دفتر گئیں تو ان کے بقول انہیں ایک بالکل غیر متوقع صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا۔

ان کے مطابق خالد مسعود گوندل انہیں کہنے لگے کہ ’آپ کی شادی کی عمر ہو چکی ہے۔ آٓپ شادی کیوں نہیں کرتیں؟ معاشرے میں مرد کے بغیر عورت کو ٹھیک نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ شادی کے بعد عورت کی طاقت میں بہت اضافہ ہو جاتا ہے'۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ 'آپ فکر نہ کریں۔ میں آپ کی شادی کرا دوں گا'۔

ڈالیہ محمود نے انہیں جواب دیا کہ ان کی شادی کا فیصلہ ان کی والدہ کریں گی۔ یہ کہہ کر وہ دفتر سے نکل گئیں۔

یہ واقعہ اپریل 2019 میں پیش آیا۔

اس وقت ڈالیہ محمود کِنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے ہاسٹل میں اسسٹنٹ وارڈن کے طور پر کام کر رہی تھیں۔ اگرچہ کام کے سلسلے میں انہیں اکثر وائس چانسلر سے واسطہ پڑتا رہتا تھا لیکن اس واقعے کے بعد انہوں نے خالد مسعود گوندل کے دفتر جانے سے اجتناب کرنا شروع کر دیا جس پر، ان کے بقول، یونیورسٹی انتظامیہ نے انہیں تنگ کرنا شروع کر دیا۔

مثال کے طور پر جب انہوں نے لڑکیوں کے ہاسٹل میں کسی انجان آدمی کے گھسنے کی رپورٹ انتظامیہ کو دی تو، باوجود اس کے کہ یہ رپورٹ انہوں نے ہاسٹل کے چیف وارڈن کے کہنے پر کی تھی، ایڈمن آفسر نے ایک کمیٹی بنا کر انہی کے خلاف تحقیقات شروع کر دیں۔ کچھ عرصے بعد انہیں ہاسٹل کا وہ کمرہ خالی کرنے کو کہا گیا جہاں وہ اسسٹنٹ وارڈن ہونے کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دیتی تھیں۔

ڈالیہ محمود کے مطابق جب انہوں نے انتظامیہ کو کہا کہ انہیں کمرہ خالی کرنے کا تحریری حکم دکھایا جائے تو وائس چانسلر نے انہیں اپنے دفتر میں بلا کر دھمکانا شروع کر دیا۔ وہ کہتی ہیں کہ خالد محمود گوندل نے ان سے پوچھا کہ ’آپ کی کیا مجال ہے کہ آپ وائس چانسلر سےتحریری آرڈر مانگیں۔ آپ کو صرف ایک ہی تحریری آرڈر ملے گا۔ آپ کی نوکری سے چھٹی کا'۔

وائس چانسلر نے انہیں یہ بھی کہا کہ ایک سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ان کے جاننے والے ہیں جن کی مدد سے وہ ان کا سامان کمرے سے باہر بھی پِھنکوا سکتے ہیں۔

ڈالیہ محمود نے اس کے بعد کمرے کی چابی وائس چانسلر کو بھجوا دی۔

کچھ دن بعد خالد محمود گوندل کے ذاتی معاون (پرسنل اسسٹنٹ) نے انہیں اپنے دفتر بلایا اور وائس چانسلر کی تعریفیں کرنا شروع کر دیں۔ اس نے ڈالیہ محمود کو مشورہ دیا کہ ان کے مستقبل کے لیے بہتر ہوگا اگر وہ وائس چانسلر کے ساتھ بنا کے رکھیں۔

کچھ عرصے بعد، ستمبر 2019 میں، جب یونیورسٹی انتظامیہ نے لڑکیوں کے ہاسٹل کے لیے ایک علیحدہ چیف وارڈن کے طور پر ڈاکٹر بلقیس شبیر کا تقرر کیا تو ڈالیہ محمود کو لگا کہ یہ تقرری انہیں تنگ کرنے کے لیے کی گئی ہے 'تا کہ میں مدد کے لیے وائس چانسلر کے پاس جانے پر مجبور ہو جا ؤں'۔
اس کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ڈاکٹر بلقیس شبیر کا تقرر نا تو یونیورسٹی کے قواعد و ضوابط کے مطابق تھا اور نا ہی یونیورسٹی کے سِنڈیکیٹ یا سینیٹ سے اس کی منظوری لی گئی تھی۔

دو مہینے بعد ہاسٹل میں رہنے والی طالبات نے شکایت کی کہ انہیں ہاسٹل میں باسی کھانا دیا گیا جس کے باعث ان کی طبیعت خراب ہو گئی۔ اس شکایت کے ازالے کے لئے جب ڈالیہ محمود نے کچھ انتظامی تبدیلیاں کیں تو ڈاکٹر بلقیس شبیر کی جانب سے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا کہ چیف وارڈن کی

منظوری کے بغیر ہاسٹل میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی۔ لیکن اگلے دن کچھ طلبہ نے فیس بک پر باسی کھانے کا مسئلہ اٹھایا تو انتظامیہ نے ڈالیہ محمود کو ہی کھانے کے معیار کا ذمے دار ٹھہرایا اور کسی تحقیق کے بغیر انہیں ایک وارننگ بھی دے دی۔

انتظامی کارروائی یا انتقامی کارروائی؟

انتیس سالہ ڈالیہ محمود نے 2016 میں لاہور کی فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کی ڈگری لی۔ وہ مئی 2017 سے کِنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی میں ڈیمانسٹریٹر کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ کچھ عرصہ بعد انہوں نے اسی یونیورسٹی کے فورنزک سائنس کے شعبے سے ایم فِل بھی کرنا شروع کر دیا اور اکتوبر 2018 میں اس کے ہاسٹل کی اسسٹنٹ وارڈن بھی بنائی گئیں۔

ان کا تعلق پنجاب کے مغربی دیہاتی ضلعے خوشاب سے ہے۔ ان کے خاندان میں ان کے علاوہ ان کی والدہ اور ایک بہن ہیں۔ وہ دونوں کچھ عرصہ ان کے ساتھ ہاسٹل میں بھی رہی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ 'نوکری کرنا میری مجبوری ہے لیکن وائس چانسلر چاہتے ہیں کہ یا تو میں ان کی ہر بات مانتی رہوں اور یا نوکری چھوڑ دوں۔ اس لئے مجھے مسلسل انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے'۔

ان کے بقول انہیں پہلی بار اس طرح کی کارروائی کا سامنا جنوری 2019 میں اس وقت کرنا پڑا جب انہیں اسسٹنٹ وارڈن کے عہدے پر فائز ہوئے چند ماہ ہی ہوئے تھے۔  

وہ کہتی ہیں ان کے ایم فل کے سپروائزر اس تقرری سے خوش نہیں تھے۔ 'انہوں نے مجھے اپنے دفتر میں بلایا اور پوچھا کہ ان کی اجازت کے بغیر مجھے اسسٹنٹ وارڈن کے عہدے پر کیسے رکھا گیا ہے۔ انہوں نے مجھے دھمکی دی کہ وہ مجھے ایم فل نہیں کرائیں گے اور نوکری سے نکلوا دیں گے'۔

اس طرح ایک بار 'جب رات کے دو بجے مجھے ایمرجنسی ڈیوٹی کے لئے فون کیا گیا تو میں وہ کال اٹھا نہ سکی۔ اس پر وائس چانسلر کو میرے خلاف ایک تحریری شکایت بھیج دی گئی'۔

اس شکایت پر پرو وائس چانسلر کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیٹی بنائی گئی جسے ڈالیہ محمود نے ایک خط لکھ کر اپنی صفائی پیش کرنے کی کوشش کی۔ اس خط میں انہوں نے کمیٹی کو یہ بھی بتایا کہ انہیں امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ کمیٹی نے ان کی باتوں پر توجہ دینے کے بجائے انہیں خبردار کیا کہ اگر وہ قصور وار پائی گئیں تو انہیں نوکری سے نکالا بھی جا سکتا ہے۔

اس پر جب ’میں صوبائی محکمہِ صحت کے ڈپٹی سکریٹری کے پاس اپنی شکایت لے کر گئی تو وائس چانسلر نے میری بہن کو، جو ان کی سٹوڈنٹ رہ چکی ہیں، فون پر چیختے ہوے کہا کہ آخر ڈالیہ کا مسئلہ کیا ہے'۔

ایک ماہ بعد انہیں فورنزک سائنس سے فزیالوجی کے شعبے میں منتقل کر دیا گیا۔ لیکن چونکہ ان کے ایم فل کے سپروائزر کا تعلق فورنزک سائنس کے شعبے سے تھا اس لئے انہوں نے درخواست دی کہ انہیں نئے شعبے میں کسی اور سپروائزر کی نگرانی میں دیا جائے۔ جس پر یونیورسٹی انتظامیہ نے انہیں بتایا کہ سپروائزر صرف تین ہی صورتوں میں تبدیل ہو سکتا ہے: اس کا تبادلہ ہو جائے، وہ ریٹائر ہو جائے یا وہ انتقال کر جائے۔

نتیجتاً ڈالیہ محمود کو ایم فِل چھوڑنا پڑا۔

تاہم، ان کے بقول، اس مسئلے کے بعد وائس چانسلر نے ان کے معاملات میں زیادہ دلچسپی لینا شروع کر دی اور وہ غروبِ آفتاب کے بعد باقاعدگی سے ہاسٹل کا چکر لگانے لگے۔ وہ کہتی ہیں کہ کبھی چھٹی کے دن وہ گھر کے کپڑوں میں یا ٹریک سوٹ میں ہوتیں تو وائس چانسلر کے دورے کے دوران انہیں بہت بے چینی محسوس ہوتی 'کیونکہ وہ مجھے ایسے دیکھتے تھے جیسے میرا جسمانی معائنہ کر رہے ہوں'۔

ان کے بقول خالد مسعود گوندل ان کے کپڑوں اور ان کی عمر پر 'ناروا  تبصرے' بھی کرتے۔ ایک بار انہوں نے ڈالیہ محمود سے یہ بھی پوچھا کہ کیا وہ ان کو پسند نہیں کرتیں۔ جب انہوں نے وائس چانسلر سے پوچھا کہ وہ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں تو وہ 'کہنے لگے کہ وہ اپنے کام کے حوالے سے یہ سوال پوچھ رہے ہیں'۔

قانونی چارہ جوئی
دسمبر 2020 میں ڈالیہ محمود اپنا مسئلہ لے کر پنجاب کی خاتون محتسب، رخسانہ گیلانی، کے پاس پہنچ گئیں جن کی ذمہ داری ہے کہ وہ خواتین کو پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران پیش آنے والی جنسی خوف و ہراس کے معاملات کی تحقیق کریں اور مجرمان کو سزا دیں۔ محتسب نے ان کا مسئلہ سننے کے بعد خالد مسعود گوندل کو جواب طلبی کا نوٹس جاری کر دیا۔

22  دسمبر کو محتسب نے اس سلسلے میں پہلی سماعت کرنا تھی لیکن جب ڈالیہ محمود محتسب کے دفتر پہنچیں تو انہیں بتایا گیا کہ سماعت 7 جنوری 2021 تک ملتوی کر دی گئی ہے۔ اسی دوران 2 جنوری کو انہیں محتسب کی جانب سے ایک خط موصول ہوا جس میں کہا گیا کہ رخسانہ گیلانی نے اپنے دفتر کے ایک قانونی کنسلٹنٹ کو تحقیقاتی کمیشن کے اختیارات دے کر حکم دیا ہے کہ وہ اس حوالے سے کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی میں ہی اپنی تحقیقی کارروائی سر انجام دیں۔

ڈالیہ محمود کے وکیل اِس فیصلے کو غیر قانونی سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'محتسب کا اپنے عدالتی اختیارات کمیشن کو تفویض کرنا آئینِ پاکستان کے آرٹیکل دس-اے کی خلاف ورزی ہے جو ایک منصفانہ عدالتی سماعت کی ضمانت دیتا ہے'۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مقدمہ کی تفتیش اور سماعت کے لیے کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کو 'مختص کرنا ایسا ہی ہے جیسے کسی ملزم کے گھر میں اس کے خلاف مقدمہ چلانا'۔

لہٰذا انہوں نے کمیشن بنانے کا فیصلہ لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جس نے فوری طور پر اسے معطل کر دیا اور مزید سماعت کے لئے محتسب اور خالد مسعود گوندل کو 26 جنوری 2021 کو طلب کر لیا۔

اسی دوران سوشل میڈیا پر ڈالیہ محمود کی تصاویر گردش کرنے لگیں۔ ساتھ ہی بہت سے پروفیسر اور طلبا سوشل میڈیا پر ڈاکٹر خالد مسعود گوندل کے اعلیٰ کردار کی گواہی بھی دینے لگے۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے ڈالیہ محمود کے وکیل کو بھی مشورہ دیا کہ وہ اس مقدمے کو چھوڑ دیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

''ہراس کے خلاف ہر قیمت پر ہر در کھٹکھٹاؤں گی''

سجاگ کو بھی کچھ اسی طرح کی صورتِ حال پیش آئی۔ ہم نے وائس چانسلر سے ان کا موقف جاننے کے لئے انہیں ایک ای میل بھیجی لیکن ہمیں ان کی طرف سے اس کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

تاہم ای میل بھیجے جانے کے کچھ روز بعد ہمیں چیف وارڈن ڈاکٹر بلقیس شبیر کی طرف سے ایک ای میل موصول ہوئی جس میں انہوں نے کہا کہ خالد مسعود گوندل اس معاملے پر تبصرہ نہیں کر سکیں گے کیونکہ اس پر عدالتی کارروائی چل رہی ہے۔

اگرچہ انہوں نے وضاحت نہیں کی کہ وہ ای میل اپنی ذاتی حیثیت میں لکھ رہی ہیں یا وائس چانسلر کے نمائندے کے طور پر لیکن انہوں نے اس میں یہ ضرور لکھا کہ وہ ڈاکٹر خالد مسعود کو ذاتی، تعلیمی اور پیشہ وارانہ حیثیتوں میں تیس سالوں سے جانتی ہیں اور ان کے اچھے کردار کی گواہی دیتی ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ 'طبی شعبہ سے تعلق رکھنے والے تمام لوگ، طالب علم، مریض اور وہ تمام افراد جو ڈاکٹر خالد کی شفقت سے مستفید ہوے ہیں ان کے خلاف بے بنیاد جھوٹے الزامات پر ششدر ہیں۔ یہ لوگ ان الزامات پر اپنے احساسات کا اظہار سوشل میڈیا پر بھی کر رہے ہیں'۔

ڈاکٹر بلقیس شبیر کے مطابق یہ الزامات ایک ایسی خاتون کی طرف سے لگائے گئے ہیں 'جو ماضی میں بھی اپنے افسران پر اسی طرح کے الزامات لگاتی رہی ہیں'۔

یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 9 جنوری 2021  کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔

تاریخ اشاعت 21 جنوری 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

thumb
سٹوری

"ہماری عید اس دن ہوتی ہے جب گھر میں کھانا بنتا ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

thumb
سٹوری

قصور کو کچرہ کنڈی بنانے میں کس کا قصور ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

افضل انصاری
thumb
سٹوری

چڑیاں طوطے اور کوئل کہاں غائب ہو گئے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنادیہ نواز

گیت جو گائے نہ جا سکے: افغان گلوکارہ کی کہانی

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.