"شیلٹر ہومز کی وجہ سے ہم سب جہنم میں جائیں گے، یہ عورتیں ماں باپ اور شوہر کی عزت خاک میں ملا کر آتی ہیں"

postImg

ماہ پارہ ذوالقدر

postImg

"شیلٹر ہومز کی وجہ سے ہم سب جہنم میں جائیں گے، یہ عورتیں ماں باپ اور شوہر کی عزت خاک میں ملا کر آتی ہیں"

ماہ پارہ ذوالقدر

چوبیس سالہ پروین بی بی میانوالی کے علاقے کچہ گجرات کی رہائشی تھیں جن کے والدین ان کی مرضی کے خلاف ان کی شادی کرنا چاہتے تھے لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ تاہم جب بات ذہنی و جسمانی تشدد تک پہنچی تو بالآخر انہیں ہار ماننا پڑی۔

دو سال قبل ان کی شادی عمر میں ان سے 17 سال بڑے شخص سے کر دی گئی جو بات بات پر انہیں گالی گلوچ کرتے اور مار پیٹ کرتے تھے۔ تاہم روز روز کی اذیت سے تنگ پروین نے ایک سال بعد گھر چھوڑ دیا اور دارالامان (شیلٹر ہوم) میں پناہ لے لی جس پر ان کے والدین نے قریبی تھانے میں ان کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرا دی۔

شیلٹر ہوم نے پولیس کو پروین بی بی کے اپنے ہاں قیام سےآگاہ کیا تو اطلاع ملتے ہی ان کے دونوں بھائی ملاقات کے لیے دارالامان پہنچے اور انہیں دھمکیاں دیں کہ ان کی وجہ سے خاندان کی بدنامی ہوئی ہے، وہ انہیں کسی صورت زندہ نہیں چھوڑیں گے۔

پروین دو ماہ سے زیادہ عرصہ دارالامان میں رہنے کے بعد ایک قریبی عزیز کے توسط سے گھر واپس لوٹ گئیں جہاں انہیں چند روز بعد قتل کر دیا گیا۔ جس کے بعد لواحقین کی مدعیت میں ان کی مرضی کے مطابق ایف آئی آر درج ہوئی اور بات ختم۔

نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس(این سی ایچ آر)  کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر تیسری خاتون گھریلو تشدد کا شکار ہے جن کی اکثریت خاموش رہتی ہے، پاکستان میں بھی تقریباً یہی رحجان ہے ۔ یہاں تک کہ 56 فیصد خواتین اپنے خاندان کے افراد سے بھی ان واقعات کا ذکر نہیں کرتیں۔

یہی وجہ ہے کہ ملک میں گھریلو تشدد کے واقعات رپورٹ ہونے کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ تاہم اگر کوئی خاتون اپنے ساتھ ہونے والے ظلم و تشدد کے خلاف انصاف لینے نکلتی بھی ہے تو انہیں کئی طرح کے سماجی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

پاکستان جرنل آف کریمنالوجی کے مطابق 1989ء میں جب ویمن ڈیویلپمنٹ کی وزارت متعارف کرائی گئی تو صوبائی محکمہ سوشل ویلفیئر کے تحت 'دارلامان' بنانے کا پروگرام بھی بنایا گیا مگر اس کے تقریباً دس برس بعد ہی اس پالیسی پر عمل درآمد کا آغاز ہو سکا۔

پنجاب میں پہلے پہل وزارت سوشل ویلفیئر، ویمن ڈویلپمنٹ و بیت المال کے تحت گھریلو تشدد سے تنگ خواتین کی مدد کے لیے آٹھ ڈویژنل ہیڈکوارٹرز میں 'ریسکیو ہومز' کے نام سے شیلٹر ہومز کا قیام عمل میں لایا گیا۔

تاہم بعد ازاں 2002ء میں ڈیوولیوشن پلان کے تحت ان کا دائرہ کار صوبے کے تمام اضلاع تک پھیلا دیا گیا اور انہیں دارلامان یا شیلٹر ہومز کا نام دیا گیا۔

اس وقت صوبے کے 36 اضلاع میں دارالامان یا شیلٹر ہومز موجود ہیں جہاں ذہنی اور جسمانی تشدد کا شکار خواتین کو تحفظ اور قانونی معاونت فراہم کی جاتی ہے جبکہ متاثرین کو طبی سہولت اور نفسیاتی بحالی میں مدد کے علاوہ ہنر بھی سکھایا جاتا ہے۔

میانوالی میں یہ ادارہ 2006ء میں بنایا گیا جہاں 20 خواتین کے رہنے کی گنجائش رکھی گئی ہے۔

تاہم اس پدرسری سماج کی مخصوص سوچ خواتین کے دارالامان میں پناہ لینے کو بھی 'غلط' تصور کرتی ہے ۔اس حوالے سے سوشل ورکر نازیہ سفیر کہتی ہیں کہ گھروں میں ذہنی و جسمانی تشدد کا شکار خواتین کے لیے دارالامان کے سوا کوئی اور محفوظ پناہ گاہ نہیں ہے۔

"لیکن ہماری پسماندہ سوسائٹی اس اقدام کو بھی قبول نہیں کرتی بلکہ الٹا تشدد زدہ خواتین کے کردار پر سوال اٹھانے شروع کر دیتی ہے۔"

تیس سالہ ساجدہ بی بی تحصیل عیسیٰ خیل کی رہائشی ہیں جو اپنے چار سالہ بچے کے ساتھ ایک ماہ سے دارالامان میں مقیم ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کی شادی پانچ سال قبل ان کے ایک دور پار کے رشتہ دار سے ہوئی جو نشے کے عادی ہیں اور ہر روز ان پر کسی نہ کسی بہانے تشدد کرتے تھے۔

"میں نے اپنے گھر والوں کو بتایا تو انہوں نے مجھے سختی سے کہا کہ صبر سے گزارہ کرو اور آئندہ کوئی شکایت مت کرنا۔ جس کے بعد میں شوہر کے گھر واپس آ  گئی لیکن انہیں جب بھی نشے سے روکتی وہ مجھے مار مار کر لہولہان کر دیتے۔ ہر طرف سے مایوس ہو کر میں نے دارالامان میں پناہ لے لی۔"

اب میں شوہر کی بجائے اپنے والدین کے گھر جانا چاہتی ہوں لیکن وہ مجھے قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ میں نے دارالامان آکر ان کی عزت خاک میں ملا دی ہے۔ "وہ کہتے ہیں کہ میں مر جاتی لیکن یہاں نہ آتی۔"

این سی ایچ آر  کی تحقیق بتاتی ہے کہ پنجاب کے دارالامان میں پناہ لینے والی 70 فیصد خواتین کی عمر 14 سے 30 برس کے درمیان تھی جو زیادہ تر شادی شدہ اور غریب گھروں سے تعلق رکھتی تھیں۔ جبکہ انہیں جسمانی، ذہنی و جنسی تشدد اور مالی نقصان سمیت ہر طرح کی اذیت کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

اس رپورٹ کے مطابق تمام شیلٹر ہومز میں پناہ لینے والی 90 سے 100 فیصد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہو کر گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئیں۔

18ویں آئینی ترمیم کے بعد جب قانون سازی کا اختیار جب صوبوں کے پاس آیا تو پنجاب میں 2016ء میں پنجاب پروٹیکشن آف وومن اگینسٹ وائلنس ایکٹ منظور کیا گیا جس کے تحت گھریلو تشدد کو جرم قرار دیا گیا لیکن یہ قانون صرف وہاں لاگو ہوا جہاں وومن پروٹیکشن سنٹرز موجود تھے۔

یوں اس قانون کا اطلاق محض ملتان تک ہی محدود ہو کر رہ گیا جہاں صوبے کا واحد وومن پروٹیکشن سنٹر موجود تھا۔ تاہم 2022ء کے آخر میں ایک ترمیم کے ذریعے ہر ضلع کے وومن کرائسز سنٹر یا دارالامان کو وومن پروٹیکشن سینٹر ڈیکلیئر کر دیا گیا جس سے اس قانون کا اطلاق پورے پنجاب میں ہو گیا۔

تشدد کا شکار خواتین کی بحالی کے لیے دارالامان میانوالی میں تعینات سائیکالوجسٹ عمارہ نے لوک سجاگ سے گفتگو میں بتایا کہ معاشرے کی مجموعی سوچ ابھی تک دقیا نوسی ہے۔ لوگ تشدد زدہ خواتین کی حالت زار پر غور کرنے کی بجائے انہیں کو ہی مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔

"ہمارا واسطہ روزانہ ایسی خواتین سے پڑتاہے جو دارالامان آنے کا فیصلہ تب لیتی ہیں جب طویل عرصہ ذہنی و جسمانی تشدد سہنے کے بعد ان کے لیے یہ اذیت ناقابل برداشت ہو جاتی ہے اور ان کے پاس دارالامان آنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا ۔"

پاکستان جرنل آف کریمنالوجی کی رپورٹ 2018ء کے مطابق 2009ء میں ایچ آر سی پی کا کہنا تھا کہ سرکاری شیلٹر ہومز کا عملہ متاثرہ خواتین کی ان پر ظلم کرنے والوں سے یہ کہہ کر صلح کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ اکیلی عورت کو تو کوئی مکان بھی کرائے پر نہیں دیتا۔

این سی ایچ آر کے مطابق اس کے باوجود عام پبلک دارلامان کو "بُری" عورتوں کی جنت خیال کرتی ہے اور اس 'ٹھپے' کی وجہ سے شیلٹر ہومز عوامی حمایت سے محروم ہیں۔

اس سلسلے میں سائیکالوجسٹ عمارہ ایک اعلیٰ سرکاری افسر کی گفتگو کا حوالہ دیتی ہیں جنہوں نے ایک بار کہا کہ "اس ادارے (شیلٹر ہوم) کی وجہ سے ہم سب جہنم میں جائیں گے کیونکہ یہ ادارہ ایسی خواتین کو تحفظ دیتا ہے جو اپنے ماں باپ اور شوہر کی عزت خاک میں ملا کر آتی ہیں۔"

وہ کہتی ہیں کہ جہاں سرکاری افسران کی دارلامان سے متعلق یہ سوچ ہو وہاں عام آدمی کی رائے اور جذبات کیا ہوں گے؟ حالانکہ تشدد کا شکار خواتین اپنے عزیزوں سے دور دوسروں کے جرائم کی سزا بھگت رہی ہوتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

'کھانا اکثر پڑوسیوں سے مانگ کر کھاتی ہوں': ڈیرہ اسماعیل خاں ڈویژن میں بے وسیلہ خواتین کے لیے کوئی دارالامان نہیں

دارالامان کی سپرنٹنڈنٹ ثاقبہ زیب بتاتی ہیں کہ اس وقت میانوالی دارالامان میں 12 خواتین اور ان کے ساتھ آٹھ بچے رہائش پذیر ہیں۔

یہاں ان خواتین کو قانونی معاونت کے علاوہ سائیکالوجسٹ کی خدمات بھی حاصل ہوتی ہیں جبکہ انہیں دستکاری بھی سکھائی جاتی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ذہنی و جسمانی تشدد کا شکار کوئی بھی خاتون اپنی مرضی سے 'کانسینٹ فارم' بھر کر یہاں آ سکتی ہے۔ ان کا طبی معائنہ کیا جاتا ہے اور متعلقہ تھانے کو بھی فوری اطلاع دے دی جاتی ہے۔ جبکہ متاثرہ خاتون کی مرضی کے بغیر ان سے کسی شخص کی ملاقات نہیں کرائی جاتی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہاں مقیم ہر خاتون کا مکمل ریکارڈ رکھا جاتا ہے جس کی رپورٹ ہر ہفتے عدالت میں جمع کرانا ہوتی ہے۔  دارالامان میں 24 گھنٹے سکیورٹی میسر ہے تاہم کوئی مرد پولیس اہلکار خواتین کی رہائش گاہ کے پاس نہیں جا سکتا اور نہ ہی عدالتی حکم کے بغیر کسی خاتون کو پوچھ گچھ کے لیے پولیس کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔

ثاقبہ زیب کے مطابق دارالامان متاثرہ خواتین کے لیے انتہائی محفوظ جگہ ہے جہاں انہیں تین ماہ تک شیلٹر مہیا کیا جاتا ہے جس کی بعد کیس کی نوعیت کو سامنے رکھتے ہوئے ایڈوائزری بورڈ کسی خاتون کے قیام میں توسیع کا فیصلہ کرتا ہے۔

"ہمیں اگر کسی خاتوں کی ری ہیبلیٹیشن ( بحالی یا معاملات درست ہونے کی) کی کوئی امید نہ ہو تو غیر شادی شدہ لڑکی کو کاشانہ، بیوہ یا طلاق یافتہ عورت کو دارالفلاح اور معمر خاتون کو عافیت جیسے ادارے میں بھیج دیا جاتا ہے۔"

ثاقبہ اس بات پر افسوس کا اظہار کرتی ہیں کہ لوگوں کو کیوں یہ بات سمجھ نہیں آتی  کہ یہ خواتین کتنا کرب سہنے کے بعد گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئی ہیں؟

*(نوٹ: سٹوری میں مقتولہ خاتون کا نام تبدیل کر دیا گیا ہے۔)

تاریخ اشاعت 2 اپریل 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

ماہ پارہ ذوالقدر کا تعلق میانوالی سے ہے اور درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہیں۔ ان کے پسندیدہ موضوعات میں ماحول، تعلیم، سماجی مسائل خصوصاً خواتین و بچوں کے مسائل شامل ہیں۔

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں ایڈز کے مریض کیوں بڑھ رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.