بارش کا پہلا قطرہ: وراثتی جائداد میں اپنے حصہ کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے والی قبائلی خواتین

postImg

خالدہ نیاز

postImg

بارش کا پہلا قطرہ: وراثتی جائداد میں اپنے حصہ کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے والی قبائلی خواتین

خالدہ نیاز

سینتالیس سالہ محل بی بی نے والد کی جائیداد میں اپنا حصہ لینے کے لیے خیبر پختونخوا کی صوبائی محتسب رخشندہ ناز کے ہاں درخواست جمع کرائی ہے۔ ان کا تعلق ضم شدہ قبائلی ضلع خیبر کی تحصیل جمرود  سے ہے۔

قبائلی اضلاع کی 20 دوسری خواتین نے بھی ایسا ہی قدم اٹھا رکھا ہے۔

محل بی بی کہتی ہیں کہ اپنا حصہ لینے کا خیال انہیں اس وقت آیا جب حکومت نے ان کے علاقے میں ریسکیو 1122 کے مرکز اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کے دفتر کے لیے ان کے قبیلے سے کئی جریب زمین حاصل کی اور قبیلہ کے ملکان اور چند دوسرے افراد کو اس کا معاوضہ ادا کر دیا لیکن اس میں انہیں کوئی حصہ نہیں دیا گیا۔ "حالانکہ انتظامیہ کے پاس اس زمین اور اس کے حصہ دار افراد کی ساری تفصیل موجود ہے"۔

محل بی بی کہتی ہیں: "ہم نے سنا تھا کہ اب (انضمام کے بعد) قانون بدل گیا ہے، اس لئے امید ہو چلی تھی کہ ہمیں بھی کچھ نہ کچھ ملے گا لیکن افسوس کی بات ہے کہ عورتوں کو کسی نے پوچھا تک نہیں"۔

ان کے خیال میں انتظامیہ کو یہ بات یقینی بنانا چاہیے تھی کہ قبیلے اور شامل خاندانوں کے سب حصے داروں کو ادائیگی ہو "اور خواتین بھی اپنے بھائیوں اور گھر کے دیگر مردوں کی طرح حصہ لے سکیں"۔

خیبر پختونخوا ویمن پراپرٹی رائٹس ایکٹ 2019 کے تحت صوبائی محتسب کو جائیداد میں حصے سے محروم خواتین کو ان کا حق دلانے کے حوالے سے وسیع اختیارات دیے گئے ہیں۔

اس قانون کے تحت صوبائی محتسب نہ صرف خواتین کے منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد میں حق وراثت کے حصول کے لیے درخواستوں پر فیصلہ دے سکتی ہیں بلکہ اس پر ضلعی انتظامیہ، پولیس، محکمہ ریونیو اور دیگر متعلقہ اداروں کے ذریعے عملدرآمد بھی کروا سکتی ہیں۔

خواتین کی درخواستوں کی تعداد بڑھ رہی ہے

صوبائی محتسب کے مطابق قبائلی اضلاع سے اب تک 21 خواتین نے وراثت میں حصے کے لیے درخواستیں دی ہیں، جن میں سے چند کا تو فیصلہ بھی ہوچکا ہے جبکہ باقی پر کارروائی جاری ہے۔

نزہت تسکین صوبائی محتسب کے دفتر میں سینئیر لیگل آفیسر ہیں۔ ان کے کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں نہ صرف مجموعی طور پر وراثت میں حصہ طلب کرنے والی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ قبائلی اضلاع کی  خواتین کی جانب سے موصول ہونے والی ایسی درخواستوں کی تعداد بھی مسلسل بڑھ رہی ہے۔

دفتر کے مطابق سال 2020ء میں صوبے بھر سے ایسی 97 درخواستیں موصول ہوئی تھیں، جن میں سے صرف ایک خاتون کا تعلق قبائلی اضلاع سے تھا۔ 2021ء میں آنے والے کل 281 کیسز میں سے چار اور 2022ء کے کل 619 کیسز میں سے 11 ضم شدہ قبائلی اضلاع کی خواتین کے تھے۔ جبکہ سال رواں میں اب تک موصول ہونے والی کل 204 درخواستوں میں سے پانچ قبائلی خواتین کی ہیں۔

نزہت نے بتایا کہ چونکہ ان اضلاع میں زمین کی ملکیت کے بندوبست کا تحریری ریکارڈ (ریونیو ریکارڈز) موجود نہیں ہے، اس لیے ان کے تصفیے میں کافی مشکلات پیش آتی ہیں۔

"بندوبستی ریکارڈ کی تیاری میں ابھی کئی سال لگیں گے، تاہم قبیلے کے بڑوں کو ڈی سی آفس بلا کر کچھ نہ کچھ تفصیلات حاصل کرلی جاتی ہیں اور کچھ لوگ خود ہی یہ تفصیلات دے دیتے ہیں لیکن کئی کیسز میں کافی دقت پیش آرہی ہے"۔

نیا قانون کام کر رہا ہے

پشاور ہائی کورٹ کے وکیل طارق افغان  کہتے ہیں کہ ہمارا عدالتی نظام جائداد کے معاملات نہ نمٹا سکنے کے حوالے سے بدنام ہے۔

"سول عدالتوں میں دیوانی مقدمات کا سفر نہایت طویل اور تھکا دینے والا ہوتا ہے۔ فریقین کی طلبی، بیانات قلم بند ہونے اور جرح ہونے میں سالوں بلکہ دہائیاں صرف ہو جاتی ہیں۔ پھر اعلیٰ عدالتوں میں اپیل در اپیل کا سلسلہ چل نکلتا ہے"۔
ان کے مطابق نئے قانون کے تحت خواتین کے حق وراثت کے معاملات حل کرنے میں صوبائی محتسب زیادہ موثر ثابت ہو رہا ہے۔

"صوبائی محتسب کے پاس بھائی، بھتیجے حتیٰ کے شوہر کے خلاف شکایت کے اندراج پر جلد کاروائی ہوتی ہے اور فیصلہ بھی جلدی آ جاتا ہے۔ صوبائی محتسب  ڈپٹی کمشنر، پٹواری اور ریونیو کے سٹاف سے ریکارڈ طلب کرتی ہیں، اور اس بات کا تعین کرتی ہیں کہ دعوے دار خاتون کا حصہ بنتا ہے یا نہیں؟ اگر حصہ بنتا ہو تو خاتون کے حق میں فیصلہ دے کر کیس نمٹا دیا جاتا ہے"۔

حق وراثت کے لیے عدالت جانے والی پہلی قبائلی خاتون

لوئی شلمان کی منہاجہ بی بی نے اپنے حق وراثت کے لیے براہِ راست عدالت سے رجوع کرنے کو ترجیح دی۔

لوئی شلمان ضلع خیبر کی تحصیل لنڈی کوتل میں واقع ہے۔

وہ اپنے والد کی جائداد میں حصے کے حصول کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے والی پہلی قبائلی خاتون ہیں۔

ان کے وکیل ساجد شنواری خیبر بار ایسوسی ایشن کے نائب صدر ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ عدالتی دائرہ اختیار ان علاقوں تک بڑھنے کے بعد خواتین نے اپنے مسائل کے حل کے لیے عدالتوں کا رخ کیا ہے اور وہ نہ صرف موروثی جائیداد میں حصہ کے لیے بلکہ خلع، غگ ایکٹ وغیرہ کے تحت بھی مقدمات دائر کر رہی ہیں۔

منہاجہ بی بی کو جب والد کے وفات کے بعد جائیداد میں حصہ نہ ملا تو انہوں نے عدالت میں درخواست دی کہ انہیں شریعت اور قانون کے مطابق حصہ دیا جائے۔

سماعت کے آغاز میں منہاجہ بی بی کے بھائی نیاز ولی عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ وہ جلد عدالت میں جواب جمع کرائیں گے۔ تاہم وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

پاکستان کے مسیحی وراثتی قوانین: مسیحی عورتوں کے حقِ وراثت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ۔

اس کیس کی اب تک پانچ سماعتیں ہوچکی ہیں۔

'حصہ لو گی تو بھائی کے گھر کس منہ سے جاؤ گی'

ضلع اورکزئی کی سماجی کارکن نوشین فاطمہ کا کہنا ہے کہ خواتین کے لیے جائیداد میں حصہ لینا نہ صرف قبائلی اضلاع میں بلکہ پورے خیبرپختونخوا میں گالی سمجھی جاتا ہے۔ کوئی خاتون حصے کا مطالبہ کرے تو لوگ اسے طعنہ دیتے ہیں کہ حصہ لیا تو بھائی کے گھر کس منہ سے جاؤ گی۔

"حالانکہ خواتین کو وراثت کا حق مذہب میں دیا گیا ہے لیکن ایسے معاملوں میں ہم مذہب کی بجائے رواج کے تقلید کو ترجیح دیتے ہیں"۔

نوشین فاطمہ سمجھتی ہیں کہ خواتین میں اپنے حقوق کے حوالے سے شعور کی ابھی بہت کمی ہے۔

"اس تناظر میں دیکھیں تو اپنے مسائل کے حل کے لیے عدالتوں تک پہنچنا نہایت خوش آئند ہے۔ان خواتین کے بارے میں شروع میں لوگ اچھے خیالات کا اظہار نہیں کریں گے۔ تبدیلی بہرحال آہستہ آہستہ ہی آتی ہے اور یہ خواتین بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوں گی"۔

تاریخ اشاعت 5 جون 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

خالدہ نیاز کا تعلق ضلع نوشہرہ سے ہے، وہ خواتین، مذہبی آزادی، بچوں کے حقوق اور موسمیاتی تبدیلی کے موضوعات پر لکھتی ہیں۔

سندھ: گندم کی سرکاری قیمت 4000، کسان 3500 روپے میں فروخت کرنے پر مجبور

thumb
سٹوری

ماحول دوست الیکٹرک رکشوں کے فروغ کے لیے کون سے اقدامات کی ضرورت ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

مردوں کے راج میں خواتین کو شناختی کارڈ بنانے کی اجازت نہیں

سینٹ کے پیچیدہ طریقہ انتخاب کی آسان ترین وضاحت

فیصل آباد: کرسمس کے بعد ایسٹر پر بھی مسیحی ملازمین تنخواہوں سے محروم

گندم: حکومت خریداری میں سنجیدہ نہیں، کسانوں کو کم قیمت ملنے کا خدشہ

thumb
سٹوری

گولاڑچی کے بیشتر کسان اپنی زمینوں کے مالک کیوں نہیں رہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضا آکاش

مسکان مسیح کے والدین کی "مسکان" کس نے چھینی؟

معذوروں کے چہرے پر خوشیاں بکھیرتے کمپیوٹرائزڈ مصنوعی اعضا

thumb
سٹوری

کیا قبائلی اضلاع میں سباون سکولز انشی ایٹو پروگرام بھی فلاپ ہو جائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceخالدہ نیاز
thumb
سٹوری

ضلع میانوالی کے سرکاری کالجوں میں طلباء کی تعداد کم کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفیصل شہزاد

ڈیجیٹل امتحانی نظام، سہولت یا مصیبت؟

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.