خضدار کی سعدیہ نے نہ طعنوں کی پروا کی نہ تھانے کچہری سے خوفزدہ ہوئیں، اپنے حق کے لیے عدالت پہنچ گئیں

postImg

اقبال مینگل

postImg

خضدار کی سعدیہ نے نہ طعنوں کی پروا کی نہ تھانے کچہری سے خوفزدہ ہوئیں، اپنے حق کے لیے عدالت پہنچ گئیں

اقبال مینگل

خضدار کی سعدیہ نےغربت سے تنگ آکر  قبائلی روایت توڑی اور بھائیوں کے خلاف موروثی جائداد میں حصہ لینے کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکٹا دیا۔

سعدیہ 15 سال کی تھیں کہ جب ان کے بھائیوں نے والد کی وفات کے بعد اپنی اکلوتی بہن کا وٹہ سٹہ کے تحت نکاح کر دیا۔

نکاح کے پانچ سال بعد سعدیہ کی شادی کر دی گئی توان کی تعلیم ادھوری رہ گئی۔

اب وہ 32 سال کی ہو چکی ہیں اور ان کے تین بچے ہیں۔شوہر کی بیروزگاری کے باعث گھر میں فاقوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔

سعدیہ کے والد سکندر مسقط کی فوج سے بطور میجر ریٹائرڈ ہوئے تھے۔ بیٹی سے بہت پیار کرتے تھے اور انہیں عالمہ بنانا چاہتے تھے۔ سعدیہ کو  اب بھی'گلستان سعدی' ازبر ہے۔

ان والد نے ترکے میں دو ایکڑ  پر خوبانی اور سیب کا باغ، ایک مِنی ٹرک اور 12 ایکڑ غیر آباد اراضی چھوڑی تھی۔

سعدیہ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانا چاہتی ہیں لیکن تنگدستی دامن گیر ہے۔ مسلسل اصرار کے باوجود انہیں والد کی جائیداد سے حصہ نہ ملا تو انہوں نے شادی کے 17 سال بعد  حق وراثت کے لیے اگست 2022ءکو مقامی عدالت میں کیس دائر کردیا۔

اب وہ پُرامید ہیں کہ انہیں عدالت سے انصاف مل جائے گا۔

مگر سعدیہ اپنے وراثتی حصے کے لیے قانون کا دروازہ کھٹکھٹانے والی اکیلی عورت نہیں۔

پچھلے دو سال میں حق وراثت کے لیے اوسطاً سالانہ 42 خواتین نے ضلع کی مختلف عدالتوں سے رجوع کیا ہے۔

ڈسٹرکٹ بار کے مطابق رواں سال اس نوعیت کے 36 کیسوں کا فیصلہ ہو چکا ہے جبکہ 16 دعوے زیر سماعت ہیں۔

خضدار بار ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری عبدالسلام لہڑی 12 سے زیادہ خواتین کو وراثتی حق دلا چکے ہیں۔ان کے پاس اب بھی اسی نوعیت کے چھ مقدمات ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ یہاں اکثر خواتین کو وراثت میں حصہ نہیں ملتا۔ خواتین بھی بھائیوں اور رشتہ داروں کی ناراضی مول نہیں لینا چاہتیں۔

ضلع خضدار کی آبادی 16 لاکھ کے لگ بھگ ہے جس میں سے چھ لاکھ 81 ہزار کے قریب خواتین ہیں۔ یہاں خواتین میں شرح خواندگی 30 فیصد بتائی جاتی ہے۔

ضلعی ہیڈ کوارٹرز سے صرف 15 کلومیٹر دور جنوب میں واقع گاؤں فیروزآباد کی رہائشی 38 سالہ نور بی بی بھی وراثت سے محروم ہیں۔

 نور بی بی چار بچوں کی ماں ہیں۔ان کے والد کا 2008ء میں انتقال ہوا تھا اور وہ ترکے میں دوپلاٹ چھوڑ گئے تھے۔

یہ دونوں پلاٹ سی پیک (بسیمہ ٹو خضدار) روڈ میں آگئے۔ سرکار نے ان کا 43 لاکھ 32 ہزار روپے معاوضہ دیا۔گزشتہ سال رقم ہاتھ آئی تو بھائی نے انہیں حصہ دینے سے انکار کردیا۔

نور بی بی کے بقول ان کا حصہ ساڑھے 14لاکھ کے قریب بنتا ہے۔ انہوں نے فروری 2023ء میں سیشن جج سے رجوع کر لیا۔ مقدمے کی دو پیشیاں ہوچکی ہیں اور رواں ماہ فیصلہ آنے کا امکان ہے۔

 ان کے وکیل حیات کاکڑ کہتے ہیں کہ بدقسمتی سے خواتین کے حق وراثت کے حوالے سے کوئی خاص قانون نہیں ہے۔ بہت کم خواتین حق وراثت کے لئےعدالت سے رجوع کرتی ہیں کیونکہ حقوق ملنا تو در کنار کبھی کبھی انہیں جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔

"اگر وراثت کے تنازع پر کسی خاتون کا قتل ہو جائے تو خود کشی وغیرہ کا رنگ دے کر معاملہ دبا دیا جاتا ہے۔"

انہوں نے بتایا کہ عموماً کہا جاتا ہے کہ "حق وراثت کے لیے اس نے خاندان کو بدنام کر دیا ہے۔ اس قدر آزاد ہو گئی ہیں کہ عدالت جا پہنچیں۔"

"طعنہ زنی، مہنگے وکیلوں اور عدالتوں کے چکروں سے بچنے کے لئے زیادہ تر خواتین خاموش ہوجاتی ہیں"۔

شہید بے نظیر ویمن سنٹر خضدار  سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق 2022ء میں حق وراثت کے لئے 54 خواتین نے اس سنٹر کے توسط سے عدالت سے رجوع کیا تھا جن میں سے 39 کو عدالتی حکم پر حصہ مل چکا ہے۔

عدالت نے فیصلہ دیا کہ شرعی حکم کے مطابق خواتین کو وراثت میں سے حصہ دیا جائے۔ ایسے پندرہ کیسز تاحال زیر سماعت ہیں۔

خواتین کو وراثت میں حصہ دینے کے بارے میں سپریم کورٹ کا منظور احمد ملک، امین الدین خان و دیگر کے کیس میں 21جنوری 2020ء کا فیصلہ بھی موجود ہے۔

اس فیصلے کے مطابق موروث اعلیٰ کی موت کے بعد تمام قانونی وارثان مرحوم کی چھوڑی گئی جائیداد کے ازخود مالک بن جاتے ہیں۔

جولائی 2021ء میں بلوچستان ہائیکورٹ کے ایک فیصلے میں کہا گیا کہ خواتین وارثان کے نام شامل کیے بغیر جائیداد کے معاملات کا عمل مکمل نہیں کیا جاسکتا۔ عدالت نے  اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ "جائیداد کے انتقال سے قبل خواتین سمیت تمام حصے داران  کے نام شامل کیے جائیں۔ خواتین کا نام شامل نہ کیا گیا تو انتقال کا سارا عمل کالعدم ہوجائے گا۔"

ہائی کورٹ نے بورڈ آف ریونیو کو ہدایت کی تھی کہ قانونی وارث کو محروم رکھنے والوں کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 498  اے کے تحت کیس درج  کیا جائے۔

اس دفعہ کے تحت کم سے کم سزا پانچ سال اور زیادہ سے زیادہ 10سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ ہے۔

"مخصوص مائنڈ سیٹ ہے۔وراثت کی تقسیم سے قبل ہی بہنوں کو حیلے بہانوں سے اپنا حصہ ہبہ یا معاف کرنے پر آمادہ کر لیاجاتا ہے۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ بھائی بھی اپنا حصہ بہنوں کو ہبہ کر دیں۔"

رکن صوبائی اسمبلی  اوربلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما خواجہ ثناء بلوچ کہتے ہیں کہ بلوچ سماج میں کوئی ایسا رواج یا روایت نہیں کہ خواتین کو وراثت سے محروم رکھا جائے۔

انہوں نے بتایا کہ صوبائی اسمبلی میں خواتین کے حق وراثت پر قراردادیں تو بہت منظور کی گئیں مگر قانون سازی نہیں ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

بارش کا پہلا قطرہ: وراثتی جائداد میں اپنے حصہ کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے والی قبائلی خواتین

"وفاق میں' ویمن امپاورمنٹ ایکٹ 2017 ' پاس ہوا تو اس میں بھی حق میراث سے متعلق کوئی شق نہیں تھی"۔

ثنا بلوچ کا کہنا ہے کہ 18ویں آئینی ترمیم کے تحت 2010 ء صوبوں کو قوانین بنانے کے اختیارات مل گئے تھے تاہم بلوچستان اسمبلی نے ایسا کوئی قانون بنایا نہ ہی کبھی بل پیش کئے جانے کی نوبت آئی۔

وہ کہتے ہیں اگر آن لائن سسٹم متعارف کرا دیا جائے تو وراثت سے محروم خواتین گھر بیٹھے دعویٰ دائر کرسکتی ہیں۔

مقامی رکن صوبائی اسمبلی میر یونس عزیز زہری  کا خیال ہے کہ اگر کسی خاتون کو وراثت نہیں ملتی تو وہ شرعی عدالت جاسکتی ہے۔

"قاضی شرعی قانون کے تحت فیصلہ دے دیتا ہے"۔

انہوں نے دلیل دی کہ شرعی قانون موجود ہے اس لیے وراثت پر قانون سازی نہیں ہوئی تاہم اب اگر ضرورت پیش آتی ہے تو اسمبلی میں اس پر بات کی جا سکتی ہے۔

تاریخ اشاعت 11 جولائی 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محمد اقبال مینگل کا تعلق خضدار سے ہے۔ وہ گزشتہ آٹھ سال سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔

"بلاسفیمی بزنس": پولیس کی تحقیقاتی رپورٹ

thumb
سٹوری

ضلع تھرپارکر خودکشیوں کا دیس کیوں بنتا جا رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

معلومات تک رسائی کا قانون بے اثر کیوں ہو رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

ریاست خاموش ہے.....

وہ عاشق رسولﷺ تھا مگر اسے توہین مذہب کے الزام میں جلا دیا

وزیراعلیٰ پنجاب کے مسیحی ووٹرز سہولیات کے منتظر

thumb
سٹوری

پانی کی قلت سے دوچار جنوبی پنجاب میں چاول کی کاشت کیوں بڑھ رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ریاض

سندھ، عمرکوٹ: ایک طرف ہجوم کی شدت پسندی، دوسری طرف مانجھی فقیر کا صوفیانہ کلام

جامشورو پار پلانٹ: ترقیاتی منصوبوں کے سہانے خواب، مقامی لوگوں کے لیے خوفناک تعبیر

سندھ: وزیر اعلیٰ کے اپنے حلقے میں کالج نہیں تو پورے سندھ کا کیا حال ہو گا؟

thumb
سٹوری

لاہور کی چاولہ فیکٹری کے مزدوروں کے ساتھ کیا ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceکلیم اللہ
thumb
سٹوری

جامشورو تھرمل پاور سٹیشن زرعی زمینیں نگل گیا، "کول پاور پراجیکٹ لگا کر سانس لینے کا حق نہ چھینا جائے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.