منظوراں بی بی 2018ء کے عام انتخابات میں گاؤں کے کچھ نوجوانوں کے کہنے پر ایک سیاسی جماعت کو ووٹ دینے پر تو رضامند ہو گئی تھیں لیکن وہ ووٹ کاسٹ نہیں کر سکیں۔
تریسٹھ سالہ منظوراں ضلع ننکانہ صاحب کے قصبہ بڑا گھر کے نواحی گاؤں ہلہ سیداں کی رہنے والی ہیں۔
منظوراں بتاتی ہیں کہ 2018ء کے عام انتخابات کے وقت ان کا شناختی کارڈ نہیں بنا ہوا تھا "تو ووٹ کیسے ڈالتی؟"
منظوراں بی بی کے بقول نہ ہی ان کی کوئی زمین جائیداد ہے کہ جس کا حصہ لینا ہو تو ان کے بقول وہ اتنی تگ و دو کرتیں؟ ویسے بھی ان کے شوہر ان پڑھ اور محنت مزدوری کرتے ہیں۔ انہیں شناختی بنوانے کے لیے ننکانہ صاحب جانے کے لیے مزدوری چھوڑ کر جانا پڑتا۔
2017ء کی مردم شماری کے مطابق منظوراں بی بی کے گاؤں میں 18 سال یا اس سے زائد عمر کے 25 فیصد لوگوں کے پاس شناختی کارڈ نہیں بنے ہوئے تھے۔
وہ جس یونین کونسل میں رہتی ہیں وہاں ان کے گاؤں سمیت آٹھ اور چھوٹے دیہات ہیں لیکن یہاں کے حالات اور بھی زیادہ برے ہیں کیوں کہ یہاں 29 فیصد لوگ اپنی شناخت سے محروم ہیں۔
ہلہ سیداں گاؤں میں خواتین میں خواندگی کی شرح 22 فیصد ہے جبکہ اس پوری یونین کونسل میں یہ شرح 26 فیصد ہے۔
منظوراں کا خیال ہے کہ جن لوگوں کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہیں ان میں اکثریت خواتین کی ہے۔
مردم شماری اور نادرا کا ریکارڈ منظوراں کے خیال کی تصدیق کرتا ہے۔
2017ء کی مردم شماری کے مطابق ضلع ننکانہ صاحب کے دیہی علاقوں میں32 فیصد خواتین کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے جبکہ مردوں میں یہ شرح 12 فیصد ہے۔
ننکانہ صاحب کے دیہات میں تین لاکھ سے زائد خواتین ایسی ہیں جو 18 سال یا اس سے زائد عمر کی ہیں لیکن ان میں سے 97 ہزار کے لگ بھگ خواتین کے شناختی کارڈ نہیں بنے۔
اس ضلع کی دیہی خواتین کے شناختی کارڈ نہ بننے کی شرح صوبہ پنجاب کے دیہی علاقوں میں رہنے والی خواتین کے مقابلے میں بھی پانچ فیصد زیادہ ہے۔
الیکشن کمیشن آفس ننکانہ صاحب سے بھی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ 2018ء میں عام انتخابات کے وقت ضلع ننکانہ صاحب میں چار لاکھ 43 ہزار مرد ووٹرزکے مقابلے میں خواتین ووٹرز کی تعداد تین لاکھ 40 ہزار تھی۔
یعنی مرد اور خواتین ووٹروں میں ایک لاکھ سے زائد کا فرق تھا۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ان خواتین کے شناختی کارڈ ہی نہیں بنے تھے۔
پاکستان مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھنے والی سیاسی کارکن رائے روبینہ آصف کھرل 2018ء کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے117 میں اپنی پارٹی کے امیدوار چودھری برجیس طاہر اور صوبائی حلقہ پی پی 132 میں رانا محمد ارشد کی انتخابی مہم چلارہی تھیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ اس وقت انھوں نے بہت سی خواتین کو ووٹ کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی تاہم انہیں معلوم ہوا کہ نہ صرف ان کے اپنے گاؤں بلکہ حلقہ کے بہت سارے دیہی علاقوں میں خواتین کے شناختی کارڈ ہی نہیں بنے ہو ئے ہیں۔
خواتین کے شناختی کارڈ کیوں نہیں بنے؟
منظوراں بی بی کہتی ہیں اس سے پہلے جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں ان سے کسی نے نہیں پوچھا کہ ان کا شناختی کارڈ ہے یا نہیں؟ اور نہ ہی کبھی انہیں اس کی ضرورت پڑی ہے کیوں کہ ان کی زندگی تو گھریلو ذمہ داریاں نبھاتے ہی گزر گئی ہے۔
ذکیہ رانی پاکستان پیپلز پارٹی شعبہ خواتین ضلع ننکانہ صاحب کی صدر ہیں۔ان کا بھی یہی ماننا ہے کہ گھریلو ذمہ داریاں اور تعلیم اور سیاسی شعور کی کمی کی وجہ سے خواتین شناختی کارڈ نہیں بنواتیں۔
"بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت مالی امداد کی وصولی کے لیے اب خواتین میں شناختی کارڈ بنوانے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔"
پاکستان تحریک انصاف شعبہ خواتین کی ضلعی صدر شاہین فاطمہ کھرل کا کہنا ہے کہ خواتین کسی بھی سیاسی جماعت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں۔
"تمام سیاسی جماعتوں میں شعبہ خواتین رسمی طور پر بنے ہوئے ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں مرد عہدیدار اپنی ہی جماعت کے شعبہ خواتین کو مضبوط ہوتا برداشت نہیں کرتے"۔
شاہین سوال کرتی ہیں کہ جب کسی جماعت کا شعبہ خواتین ہی حقیقی طور پر فعال نہیں ہوگا تو فیلڈ ورک کیسے ہو گا اور دیہات میں خواتین کے شناختی کارڈ بنوانے میں کیسے دلچسپی لے گا؟
مسلم لیگ نواز کی کارکن روبینہ آصف کھرل کے خیال میں 2018ء کے مقابلے میں اب حالات میں بہتری آئی ہے۔
وہ بتاتی ہیں کہ پچھلے عام انتخابات کے بعد انھوں نے ایک سماجی تنظیم "ساؤتھ ایشیاء پارٹنر شپ پاکستان " میں بطور ڈسٹرکٹ کوآرڈی نیٹر ضلع بھر میں خواتین میں سیاسی شعور کی آگاہی، ان کے شناختی کارڈ بنوانے اور ووٹ کے اندراج کے لیے کام کیا۔
اور بقول پچھلے پانچ سال میں 15 ہزار سے زائد ایسی خواتین کی نشاندہی کی جن کے شناختی کارڈ نہیں بنے تھے۔ ان خواتین میں سے پانچ ہزار سے زائد نے اپنے شناختی کارڈ بنوائے جن کا ووٹ کا بھی اندراج ہو گیا۔
2018ء کے الیکشن میں منظوراں کے حلقے سے پی ٹی آئی کے رہنما اعجاز احمد شاہ نے کامیابی حاصل کی اور وہ وفاقی وزیر داخلہ بن گئے۔
ان کے مطابق اعجاز شاہ کی کوششوں سے ان کے گھر سے 15 کلو میٹر دور سید والہ میں نادرا دفتر بنا تو ان سمیت گاؤں کی کچھ عورتوں نے اپنے شناختی کارڈ بنوا لیے۔
سہیل ندیم نادرا کے ضلعی دفتر میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ 2018ء میں ضلع ننکانہ صاحب میں صرف تین نادرا سنٹر تھے جبکہ اس وقت ضلع بھر میں چھ سنٹر کام کر رہے ہیں۔
ان میں ننکانہ صاحب، سید والہ، موڑ کھنڈا، واربرٹن، سانگلہ ہل اور شاہ کوٹ شامل ہیں۔
"ان تمام سنٹرز پر روزانہ 700سے زائد مرد وخواتین کے شناختی کارڈ بنائے جاتے ہیں جبکہ چار موبائل وینز ضلع کے مختلف مقامات پر روزانہ 300 سے زائد افراد کے شناختی کارڈ بناتی ہیں"۔
انہوں نے بتایا کہ نادرا سنٹروں اور موبائل وین پر روزانہ ایک ہزار سے زائد افراد شناختی کارڈ بنوا رہے ہیں جن میں سے 60 فی صد سے زائد خواتین شامل ہوتی ہیں۔
سہیل ندیم کہتے ہیں کہ تمام نادرا سنٹرز پر خواتین کی سہولت کے لیے علیحدہ کاؤنٹرز بنائے گئے ہیں اور ان کے ترجیحی بنیادوں پر شناختی کارڈ بنائے جاتے ہیں۔
"ضلعی ہیڈ کوآرٹر ننکانہ صاحب کے نادرا سنٹر میں اس وقت پانچ کاؤنٹر کام کر رہے ہیں جن میں سے ایک کاؤنٹر خواتین کے لیے مخصوص ہے جہاں نادرا کی خاتون اہلکار تصاویر سمیت شناختی کارڈ کے حصول کے تمام مراحل مکمل کر تی ہیں۔"
انہوں نے بتایا کہ ننکانہ صاحب میں پانچ میں سے تین کاؤنٹرز پر خواتین اہلکار ڈیوٹی کے فرائض سر انجام دیتی ہیں۔
"تمام نادرا سنٹرز پر جمعہ کا دن خواتین کے لیے مخصوص کیا گیا ہے اور تمام سنٹرز پر ترجیحی بنیادوں پر خواتین کے شناختی کارڈ بنائے جاتے ہیں"۔
لیکن الیکشن کمیشن کے اعدادو شمار اس سے مختلف ہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے 20 مارچ 2023ء کو جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ضلع ننکانہ صاحب میں رجسٹرڈ خواتین ووٹرز کی تعداد چار لاکھ 20 ہزار سے زائد ہے۔
لیکن یہ تعداد اب بھی اس ضلع میں مرد ووٹرز کے مقابلے میں86 ہزار یعنی 9.28 فیصد کم ہے۔
ڈاکٹر عابد علی عابد سماجی تنظیم پہچان ویلفیئر سوسائٹی کے صدر ہیں اور وہ فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن )کے لیے بطور ڈسٹرکٹ کوآرڈی نیٹر بھی کام کرتے ہیں۔ وہ نادرا افسر کے دعوؤں سے متفق نہیں ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ضلعے میں تمام نادرا سنٹروں کے مخصوص اوقات کار ہیں اور بڑے شہروں کی طرح کوئی بھی نادرا سنٹر 24گھنٹے کھلا نہیں ہوتا۔ کچھ عرصہ قبل تک نادرا سنٹرز پر ایک دن خواتین کے لیے مخصوص ہوتا تھا جس پر اب عمل درآمد نہیں ہوتا۔
عابد علی عابد کا کہنا ہے کہ خواتین میں شناختی کارڈ بنوانے کا رجحان مردوں کی نسبت پہلے ہی کم ہوتا ہے جبکہ رہی سہی کسر نادرا دفاتر میں ان کے فارم پر لگائے جانے والے اعتراضات پوری کر دیتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ کہ دیہی خواتین سارا دن گھر اور کھیتوں میں کام کرتی ہیں۔ جب وہ شناختی کارڈ بنوانے موبائل وین پر جائیں اور وہاں ان کے فارم پر اعتراضات لگا کر یا والدین کو ساتھ لانے کا کہہ کر واپس بھیج دیا جائے تو بہت سی خواتین ایسی ہوتی ہیں جو وقت بچانے کے لئے دوبارہ وین کا رخ نہیں کرتیں۔
یہ بھی پڑھیں
شکم کی آگ لیے پھر رہی ہے شہر بہ شہر: 'جو لوگ استعداد رکھتے ہیں وہ ننکانہ صاحب میں رہنا پسند نہیں کرتے'۔
ہلہ سیداں کی پینتیس سالہ نیکاں بی بی کی باتوں سے اس کی تصدیق ہوتی ہے جنہوں نے ابھی تک شناختی کارڈ نہیں بنوایا۔
اس کی وجہ وہ یہ بتاتی ہیں کہ شادی کے بعد جب وہ ننکانہ صاحب شہر کے نادرا دفتر اس مقصد کے لیے گئی تھیں تو عملے نے نکاح نامے میں بعض نقص نکال کر انہیں درست کرانے کی ہدایت کی۔ جب دوسری بار وہ اسے درست کرکے گئیں تو والدین کو شناختی کارڈ سمیت ساتھ لانے کی شرط رکھ دی گئی۔
نیکاں بی بی کے بقول ان کی والدہ کی طبیعت ایسی نہیں تھی کہ وہ انہیں بغیر ذاتی گاڑی کے 40 کلومیٹر دور لے جاتیں۔اس لئے انہوں ںے شناختی کارڈ بنوانے کا ارادہ ہی ترک کر دیا۔
عابد علی کے مطابق ننکانہ صاحب میں جن خواتین کے شناختی کارڈ نہیں بنے ان میں اکثریت عمر رسیدہ عورتوں کی ہے جن کے لواحقین ان کا کارڈ بنوانے کا تردد نہیں کرتے کیوں کہ دیہی علاقوں میں نہ تو خواتین کو وراثتی جائیداد میں حصہ دینے کا رواج ہے اور نہ ہی ان کے نام پر کوئی زمین جائیداد خریدی جاتی ہے۔
اسی گاٶں کی 60 سالہ شمیم بی بی اور 65 سالہ شاداں بی بی تصدیق کرتی ہیں کہ انہیں زندگی میں شناختی کارڈ کی ضرورت ہی نہیں پڑی اس لیے انھوں نے بنوانے کی کوشش ہی نہیں کی۔
ووٹ ڈالنے کے سوال پر دونوں کا موقف تقریباً ایک جیسا ہی تھا کہ "الیکشن سے ان کا کون سا کوئی فائدہ ہوتا ہے۔ ووٹ دیں یا نہ دیں روٹی تو انہیں خود ہی کمانی پڑتی ہے۔"
تاریخ اشاعت 14 جون 2023