خواتین امیدواروں کی عام انتخابات میں کامیابی: بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا۔

postImg

مہرین برنی

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

خواتین امیدواروں کی عام انتخابات میں کامیابی: بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا۔

مہرین برنی

loop

انگریزی میں پڑھیں

آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 34 میں کہا گیا ہے کہ "قومی زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کی بھر پور شرکت کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے"۔ تاہم اس کے برعکس پِدر شاہی پر مبنی سیاسی اور انتخابی نظام نے خواتین کی سیاسی عمل میں شرکت کے لیے بہت محدود گنجائش چھوڑی ہے۔

اس حوالے سے 1988 پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم سال ہے کیونکہ اس میں بے نظیر بھٹو وزیرِ اعظم منتخب ہویئں۔ وہ نہ صرف پاکستان کے رجعت پسندانہ نظام کے مقابلے میں ایک عوامی بغاوت کی علامت کے طور پر سامنے آئیں بلکہ جدید تاریخ کی پہلی خاتون مسلمان حکمران بھی بنیں۔ ان کی انتخابی کامیابی اس لیے بھی ایک اہم پیش رفت تھی کہ انہوں نے اپنے پیش رو حکمران جنرل ضیاء الحق کی چادر اور چار دیواری کی پالیسی کو براہِ راست چیلنج کیا تھا جس کے تحت خواتین کو پردے کے اندر اور گھرداری تک محدود کر دیا گیا تھا۔

تاہم خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں نے بے نظیر بھٹو کی انتخابی مہم کے دوران انہیں اس بات پر تنقید کا نشانہ بنایا کہ ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے بہت کم خواتین کو انتخابی امیدوار نامزد کیا تھا۔ انتخاب جیتنے کے بعد بھی انہیں اس بات پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا کہ انہوں نے اپنی پہلی کابینہ میں کسی خاتون کو وزارت کا قلمدان نہیں دیا تھا۔

اس تنقید کے بعد جب 1989 میں بے نظیر بھٹو نے اپنی کابینہ کی تعداد بڑھائی تو انہوں نے چار خواتین کو بھی وزرائے مملکت بنایا۔ ان میں شہناز وزیر علی کو وزارتِ تعلیم ، بیگم ریحانہ سرور کو خواتین ڈویژن اور بعد میں خواتین کی ترقی کی وزارت،  ڈاکٹر محمودہ شاہ کو وزارتِ خصوصی تعلیم و سماجی بہبود اور بیگم نادرہ خاکوانی کو بہبودِ آبادی کی وزارت دی گئی۔ یہ 1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد پہلا موقع تھا کہ خواتین کو مرکزی کابینہ میں اتنی نمائندگی دی گئی تھی۔

لیکن ان چاروں میں سے کوئی بھی عام نشست پر انتخاب لڑ کر قومی اسمبلی میں نہیں پہنچی تھی بلکہ سب کی سب خواتین کے لیے مخصوص کی گئی نشستوں پر چُنی گئی تھیں۔
دراصل 1988 کے عام انتخابات میں 16 خواتین نے عام نشستوں پر انتخاب لڑا ضرور تھا لیکن ان میں سے صرف تین کامیاب ہوئیں تھیں۔ ان میں سے بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے تھا جبکہ سیدہ عابدہ حسین آزاد امیدوار تھیں۔

اگلے تین عام انتخابات میں بھی کم و بیش یہی صورتِ حال رہی۔ 1990 کے انتخابات میں 12 خواتین نے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا لیکن ان میں سے صرف دو (بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو) ہی جیت سکیں۔ 1993 کے انتخابات میں 14 خواتین قومی اسمبلی کی عام نشستوں پر امیدوار بنیں جن میں سے چار کامیاب رہیں۔ ان میں سے تین (بے نظیر بھٹو، نصرت بھٹو اور شہناز جاوید) پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستہ تھیں اور چوتھی (تہمینہ دولتانہ) کا تعلق پاکستان مسلم لیگ نواز سے تھا۔ 1997 میں عام نشستوں پر انتخاب لڑنے والی خواتین کی تعداد 35 ہو گئی تاہم ان میں سے صرف چھ کامیاب ہو کر قومی اسمبلی میں پہنچ سکیں۔ ان میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بے نظیر بھٹو، نصرت بھٹو اور ڈاکٹر فہمیدہ مرزا اور پاکستان مسلم لیگ نواز کی تہمینہ دولتانہ، عابدہ حسین اور مجیدہ وائیں شامل تھیں۔

خواتین کی جیت یا محض خانہ پُری؟

جب جنرل پرویز  مشرف نے 1999 میں جمہوریت کا تختہ الٹا اور خود حکومت سنبھال لی تو سپریم کورٹ نے انہیں جمہوریت کی بحالی کے لیے تین سال کی مہلت دی۔ اس مدت میں انہوں نے بہت سے سیاسی اور انتخابی اقدامات اٹھائے جن میں وفاقی، صوبائی اور مقامی سطح کے منتخب اداروں میں خواتین کے لیے مخصوص نشستوں کی تعداد میں اضافہ بھی شامل تھا۔

اس اضافے کے نتیجے میں 2002 میں بننے والی قومی اسمبلی میں عورتوں کی نمائندگی 21.6 فیصد ہو گئی اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار 70 سے زائد خواتین اس کی رکن بن گئیں۔ ان میں سے 13 عام نشستوں پر انتخاب لڑ کر قومی اسمبلی میں آئی تھیں۔

تاہم ان میں سے کئی ایک کے انتخاب کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ پرویز مشرف نے الیکشن لڑنے والے امیدواروں کے لیے ضروری قرار دے دیا تھا کہ ان کے پاس کم از کم بی اے کی ڈگری ہو۔ نتیجتاً انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نااہل قرار پانے والے بہت سے منجھے ہوئے سیاست دانوں نے اپنا سیاسی اثر و رسوخ برقرار رکھنے کے لیے اپنی تعلیم یافتہ بیٹیوں ، بیویوں اور بہنوں کو بطور امیدوار کھڑا کر دیا۔ چنانچہ قومی اسمبلی کی عام نشستوں پر انتخاب لڑنے والی خواتین کی تعداد 57 تک پہنچ گئی۔

ان میں ایک نمایاں نام سمیرا ملک کا تھا جنہوں نے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 69 خوشاب-1  سے الیکشن لڑا جو ان کے سسرال کا آبائی علاقہ ہے۔ وہ کالاباغ کے نواب ملک امیر محمد خان کی پوتی ہیں (جو جنرل ایوب خان کے دورِ حکومت میں مغربی پاکستان کے گورنر تھے) جبکہ ان کے والد ملک اللہ یار بھی قانون ساز اداروں کے رکن رہ چکے ہیں۔ ان کے ماموں، سردار فاروق احمد خان لغاری، 1993 اور 1997 کے دوران پاکستان کے صدر تھے جبکہ ان کے شوہر کے ماموں، ملک نعیم خان، سابقہ دورِ حکومت میں وفاقی وزیر رہ چکے تھے۔

روبینہ شاہین وٹو نے بھی اپنے والد میاں منظور احمد وٹو کی جگہ انتخاب لڑا جو 1985، 1988 اور 1990 میں پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے سپیکر منتخب ہوئے اور 1993 سے لے کر 1996 تک وزیراعلیٰ پنجاب بھی رہے۔

حنا ربانی کھر بھی اسی طرح قومی اسمبلی کی رکن بنیں۔ ان کے تایا غلام مصطفیٰ کھر 1970 کی دہائی میں پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ اور گورنر رہ چکے ہیں اور انہوں نے 1990 کی دہائی میں وفاقی وزیر کے طور پر بھی کام کیا ہے۔ حنا ربانی کھر نے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 177 مظفرگڑھ 2 سے انتخابات میں کامیابی حاصل کی جہاں سے 1990 اور 1997 میں ان کے والد نور ربانی کھر رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہو چکے تھے۔ 2002 کے انتخابات میں بھی انہوں نے ہی اپنی بیٹی کی انتخابی مہم چلائی۔

عوامی نیشنل پارٹی کی سابقہ رکنِ سینیٹ ستارہ ایاز خواتین کے  اس طرح سے منتخب اداروں کا حصہ بننے کو "خانہ پُری" کا نام دیتی ہیں کیونکہ اس کے ذریعے صاحبِ اثر سیاسی مرد اپنے خاندان کی عورتوں کو محض اس لیے انتخابات لڑواتے ہیں کہ وہ خود قانونی اور انتظامی رکاوٹوں کی وجہ سے انتخابی عمل میں حصہ نہیں لے سکتے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس طرح سے اسمبلیوں میں آنے والی خواتین کو اس وقت تک سنجیدہ سیاست دان نہیں سمجھا جاتا جب تک وہ کسی نہ کسی طرح سے اپنی قابلیت منوا نہ لیں۔ سمیرا ملک اور حنا ربانی کھر نے وفاقی کابینہ میں شامل ہو کر یہی کیا اور آج وہ میدانِ سیاست میں اپنے خاندان کے مردوں جتنی ہی معروف ہیں۔

لیکن ستارہ ایاز کے مطابق بااثر سیاسی خانوادوں کی بہو بیٹیوں کا اپنے گھر کے مردوں کی جگہ انتخابات میں حصہ لینا اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ پاکستان کی انتخابی سیاست میں صرف وہی خواتین آگے بڑھ سکتی ہیں جو پہلے سے ہی کسی نہ کسی حوالے سے با رسوخ ہوتی ہیں۔ ورنہ، ان کے بقول، جو خواتین کسی قسم کا سماجی یا مالی اثر و رسوخ نہیں رکھتیں انہیں اس میدان میں آگے بڑھنے کا موقع نہیں ملتا خواہ سیاسی طور پر وہ کتنی ہی فعال کیوں نہ ہوں۔

خون کی گواہی

اگرچہ 2008 کے انتخابات سے قبل انتخابی امیدواروں کے لیے بی اے کی شرط ختم کر دی گئی تھی تاہم عدالتوں میں ایسے متعدد کیس دائر کیے گئے جن میں کئی منتخب سیاست دانوں پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے اپنے کاغذاتِ نامزدگی میں اپنی تعلیمی قابلیت کے بارے میں جھوٹ بولا ہے۔ ان میں سے کئی ایک کو بعد ازاں صادق اور امین نہ ہونے کی بنا پر عوامی عہدے کے لیے نا اہل قرار دے دیا گیا۔

لیکن اس عدالتی نا اہلی سے پہلے کئی ایسے سیاست دان انتخابی عمل میں دوبارہ شریک ہو چکے تھے جنہوں نے بی اے کی ڈگری نہ ہونے کی وجہ سے 2002 میں اپنی بیٹیوں، بیویوں یا بہنوں کو انتخابی میدان میں اتارا تھا۔ اس کے باوجود 2008 کے انتخابات میں پچھلے انتخابات کی نسبت قومی اسمبلی کی عام نشستوں کے لیے خواتین امیدواروں کی تعداد میں کافی اضافہ دیکھنے میں آیا اور ملک بھر سے 64 خواتین نے 60 عام نشستوں پر ان انتخابات میں حصہ لیا۔ ان میں سے 16 نے کامیابی بھی حاصل کی جو پاکستان کی انتخابی تاریخ میں خواتین کی جیت کا ریکارڈ ہے۔

ان میں سے 10 (راحیلہ پروین بلوچ، ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان، ثمینہ خالد گھرکی، نتاشہ دولتانہ، حنا ربانی کھر، خدیجہ احمد یار ملک، فریال تالپور، عذرا فضل پیچوہو، شمشاد ستار بچانی اور فہمیدہ مرزا) کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے تھا۔ تین خواتین (سائرہ افضل تارڑ، سمیرہ یاسر رشید اور تہمینہ دولتانہ) پاکستان مسلم لیگ نواز کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئیں۔ دو خواتین (غلام بی بی بھروانہ اور فرخندہ امجد) پاکستان مسلم لیگ قائدِ اعظم کی امیدوار تھیں جبکہ خوش بخت شجاعت متحدہ قومی موومنٹ کی نمائندہ تھیں اور صائمہ اختر بھروانہ نے آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لیا تھا۔

ان انتخابات میں خاص طور پر پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی خواتین کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں چلائے جانے والی انتخابی مہم تھی جس میں عورتوں کے حقوق کو نمایاں اہمیت دی گئی تھی۔ اسی طرح بے نظیر بھٹو نے عام نشستوں پر انتخابات کے لیے پہلے سے زیادہ خواتین کو پارٹی امیدوار بھی نامزد کیا تھا۔
انتخابات سے کچھ عرصہ پہلے 27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی میں ہونے والے ان کے قتل نے بھی ان خواتین کے انتخاب میں اہم کردار ادا کیا کیونکہ اس کی وجہ سے ووٹروں میں ان کی پارٹی کے لیے ہمدردی کی لہر دیکھنے میں آئی۔

ایک قدم آگے، دو قدم پیچھے

لیکن 2013 کے انتخابات میں عام نشستوں پر منتخب ہونے والی خواتین کی تعداد دوبارہ کم ہو گئی۔

حالانکہ ان انتخابات میں 135 خواتین قومی اسمبلی کے مختلف حلقوں میں بطور امیدوار کھڑی ہوئیں لیکن صرف پانچ کامیاب ہو سکیں۔ ان میں سے تین (فریال تالپور، عذرا فضل پیچوہو اور فہمیدہ مرزا) کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے اور باقی دو (غلام بی بی بھروانہ اور سائرہ افضل تارڑ) کا تعلق پاکستان مسلم لیگ نواز سے تھا۔

تاہم بعد میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی مزید تین خواتین (کلثوم نواز، شذرہ منصب اور شازیہ مبشر) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی ایک اور خاتون (شمس النسا) بھی ان نشستوں پر منتخب ہو گئیں جو ان کے خاندان کے مردوں کی نا اہلی یا وفات کی وجہ سے خالی ہوئی تھیں۔

اس صورتِ حال کو تبدیل کرنے کے لیے الیکشن ایکٹ 2017 کے ذریعے پاکستان کے انتخابی نظام میں متعدد تبدیلیاں کی گئیں۔ ان میں سے ایک اہم تبدیلی ایکٹ کی دفعہ 206 کے ذریعے روبہ عمل لائی گئی جس کے تحت "ہر سیاسی جماعت پر لازم ہے کہ وہ کم از کم پانچ فیصد عام نشستوں پر خواتین کو اپنا امیدوار نامزد کرے"۔

اس پابندی کی وجہ سے جماعتِ اسلامی، جمیعت علمائے اسلام اور تحریکِ لبیک پاکستان جیسی مذہبی اور رجعت پسند جماعتوں کو بھی خواتین امیدواروں کو  نامزد کرنا پڑا۔ یوں کل 183 خواتین امیدواروں نے 2018 کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی عام نشستوں پر الیکش لڑا۔

تاہم ان میں سے صرف آٹھ کامیاب ہو سکیں۔

ان میں سے تین (نفیسہ شاہ، شازیہ مری اور شمس النسا) پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتی ہیں، دو (غلام بی بی بھروانہ اور زرتاج گل) پاکستان تحریکِ انصاف سے منسلک ہیں، ایک (مہناز اکبر عزیز) کا تعلق پاکستان مسلم لیگ نواز سے ہے جبکہ دو دیگر خواتین (زبیدہ جلال اور فہمیدہ مرزا) حکمران جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کی اتحادی جماعتوں کی رکن ہیں۔

مبصرین کا خیال ہے کہ خواتین امیدواروں کی تعداد میں تاریخی اضافے کے باوجود عام نشستوں پر اتنی کم خواتین کے منتخب ہونے کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر پارٹیوں نے الیکشن ایکٹ کی خلاف ورزی سے بچنے کے لیے خواتین کو ایسے حلقوں میں امیدوار نامزد کیا جہاں سے ان کے جیتنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر تھے۔ گویا ایک دفعہ پھر انہیں "خانہ پُری" کے لیے استعمال کیا گیا۔

ستارہ ایاز ان نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ خواتین کا عام انتخابات میں حصہ لینا اسی صورت میں ایک معنی خیز عمل بن سکتا ہے جب سیاسی جماعتیں انہیں کمزور حلقوں کے بجائے ایسے حلقوں میں امیدوار نامزد کریں جہاں ان کے جیتنے کے امکانات زیادہ ہوں۔لیکن ان کے خیال میں ایسا تبھی ممکن ہے جب "سیاسی جماعتیں خواتین کو سیاسی اور انتخابی تربیت مہیا کریں اور انہیں اپنی اندرونی فیصلہ سازی میں شریک کریں"۔

تاہم ان کی نظر میں فی الحال کوئی سیاسی پارٹی بھی ایسا نہیں کر رہی بلکہ اس کے برعکس ان میں "فیصلہ سازی کرنے والے عہدوں پرمردوں کی تعداد عورتوں کی نسبت کہیں زیادہ ہوتی ہے" اور یہ مرد "انتخابات سے جڑے ہوئے بیشتر فیصلے صنفی برابری کی بنیاد پر نہیں کرتے" بلکہ ان کے پیشِ نظر کئی دوسرے عوامل ہوتے ہیں۔

تاریخ اشاعت 11 ستمبر 2021

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

مہرین برنی نے انگریزی ادب میں بی اے آنرز کیا ہے۔ وہ سیاسی و انتخابی موضوعات پر کام کرتی ہیں۔

thumb
سٹوری

ماحول دوست الیکٹرک رکشوں کے فروغ کے لیے کون سے اقدامات کی ضرورت ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

مردوں کے راج میں خواتین کو شناختی کارڈ بنانے کی اجازت نہیں

سینٹ کے پیچیدہ طریقہ انتخاب کی آسان ترین وضاحت

فیصل آباد: کرسمس کے بعد ایسٹر پر بھی مسیحی ملازمین تنخواہوں سے محروم

گندم: حکومت خریداری میں سنجیدہ نہیں، کسانوں کو کم قیمت ملنے کا خدشہ

thumb
سٹوری

گولاڑچی کے بیشتر کسان اپنی زمینوں کے مالک کیوں نہیں رہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضا آکاش

مسکان مسیح کے والدین کی "مسکان" کس نے چھینی؟

معذوروں کے چہرے پر خوشیاں بکھیرتے کمپیوٹرائزڈ مصنوعی اعضا

thumb
سٹوری

کیا قبائلی اضلاع میں سباون سکولز انشی ایٹو پروگرام بھی فلاپ ہو جائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceخالدہ نیاز
thumb
سٹوری

ضلع میانوالی کے سرکاری کالجوں میں طلباء کی تعداد کم کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفیصل شہزاد

ڈیجیٹل امتحانی نظام، سہولت یا مصیبت؟

سندھ: ہولی کا تہوار، رنگوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.