چند سال پہلے رفاقت لال اپنے کچھ رشتے داروں کے ساتھ وسطی پنجاب کے ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تحصیل گوجرہ کے ایک ریستوران میں بیٹھے کھانے کا انتظار کر رہے تھے۔ ان کے سامنے صاف ستھرے چمکیلے برتن رکھے ہوئے تھے لیکن وہ سوچ رہے تھے کہ انہیں استعمال کریں یا نہیں۔ بالآخر انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ان میں کھانا کھانے سے پہلے بیرے کو بتا دیں گے کہ وہ مسیحی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔
لیکن یہ سنتے ہی کہ وہ مسیحی ہیں بیرے نے ان کے سامنے سے وہ برتن اٹھا لیے اور ان کی جگہ نسبتاً پرانے برتن رکھ دیے جو واضح طور پر انہی کے ہم مذہب گاہکوں کے لیے مختص تھے۔
گندمی رنگت اور مضبوط تن و توش کے مالک جواں سال رفاقت لال نے معاشیات میں ایم اے کر رکھا ہے اور لاہور میں واقع ایک پولٹری کمپنی میں بطور اکاؤنٹس منیجر کام کرتے ہیں۔ تاہم ان کا گھر گوجرہ ہی میں ہے جہاں اگست 2009 میں توہینِ مذہب کی افواہوں کے بعد ایک مشتعل مسلم ہجوم نے ایک مقامی مسیحی بستی کو آگ لگا دی تھی جس میں ایک ہی مسیحی خاندان کے سات افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس لیے وہ ہمیشہ محتاط رہتے ہیں کہ کہیں ان کی کسی بات یا عمل سے مسلم اکثریت سے تعلق رکھنے والے لوگ ناراض نہ ہو جائیں۔
اسی احتیاط کے پیشِ نظر وہ جب بھی کسی ریستوران میں کھانا کھاتے ہیں تو اس کے مالک اور بیروں کو اپنے مذہب کے بارے میں ضرور بتاتے ہیں۔ ان کے مطابق اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ "ہمارے علاقے میں ایسے کئی واقعات ہو چکے ہیں جن میں کسی مسیحی نے عام برتنوں میں کھانا تو کھا لیا لیکن اس کے مذہب کا پتہ چلنے پر ریستوران والوں نے اس سے ان برتنوں کی قیمت بھی وصول کی کیونکہ وہ ان کی نظر میں ناپاک ہو چکے تھے"۔
رفاقت لال کہتے ہیں کہ اس طرح کا تعصب صرف کھانے پینے کی جگہوں تک محدود نہیں بلکہ انہیں اپنے کام میں بھی اکثر اس کا سامنا رہا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ کس طرح کچھ عرصہ پہلے ایک کمپنی میں ملازمت کے دوران انہیں محسوس ہوا کہ انہیں روزانہ ایک ہی کپ اور ایک ہی پلیٹ میں چائے اور کھانا دیے جاتے ہیں۔ ان کے بقول "پہلے پہل تو میں نے اس متعصبانہ رویے کو نظر انداز کیا لیکن جب اس میں کوئی تبدیلی نہ آئی تو میں نے اس کے بارے میں کمپنی کے مالکان کو آگاہ کرنے کا فیصلہ کیا"۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کی بات سن کر مالکان نے حیرت کا اظہار تو کیا لیکن کام کے ماحول کو بہتر بنانے کے بجائے انہوں نے اس تمام تر ذمہ داری اس لڑکے پر ڈال دی جو کمپنی کے ملازمین کے لیے چائے اور کھانا بناتا تھا۔ لہٰذا اسے تو نوکری سے نکال دیا گیا لیکن، رفاقت لال کے مطابق، ان کے رفقائے کار کا رویہ پہلے کی طرح متعصبانہ ہی رہا۔ نتیجتاً انہوں نے "تین سال تک دفتر میں کھانا پینا بند کئے رکھا"۔
مسیحی نرسوں کو درپیش رویے
رفعت بشیر کا تعلق ایک مسیحی گھرانے سے ہے۔ وہ پچھلے 15 سال سے نرسنگ کے پیشے سے وابستہ ہیں اور لاہور کے سوشل سکیورٹی ہسپتال میں نرسوں کی انچارج کے طور پر کام کر رہی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ان کی پہلی تعیناتی ضلع قصور میں واقع ایک سرکاری ہسپتال میں ہوئی تھی جہاں ان کے مذہب کی وجہ سے ان کے ماتحت عملے نے ان کے ساتھ کام کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کے بقول "میرے ساتھ مل کر کھانا پینا یا تعلقات بنانا تو دور کی بات میرے ماتحت عملے نے تو صاف کہہ دیا کہ انہیں ایک مسیحی اہل کار کے ساتھ کام کرنا ہی منظور نہیں"۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ معاملہ اس قدر بگڑا کہ "کچھ لوگوں نے مجھے دھمکیاں دینا شروع کر دیں جس کی وجہ سے مجھے اپنا تبادلہ کرانا پڑا"۔
لاہور کے ایک بڑے ہسپتال میں متعین مسیحی نرس شکیلہ بھی اسی طرح کے تجربات سے گزری ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ مسیحی عملے کے ساتھ مسلم عملے کا رویہ ہمیشہ تضحیک آمیز ہوتا ہے۔ ان کے مطابق اگر ان کے مذہب سے تعلق رکھنے والی کسی نرس کو اپنے شعبے کا سربراہ بنا دیا جائے تو دوسری نرسیں اس کا حکم ماننے کے بجائے اس کے بارے میں حقارت سے یہ کہتی ہیں کہ "اس چوہڑی کو کیوں ہمارے سر پر بٹھا دیا گیا ہے"۔ (پنجاب میں چوہڑی یا چوہڑا عموماً ایسے لوگوں کو کہا جاتا ہے جنہیں ان کی ذات، رنگت اور مذہب کی بنیاد پر کم تر جانا جاتا ہے۔)
شکیلہ 25 سال سے نرس کے طور پر کام کر رہی ہیں اور ہسپتال کے ملازمین کی نمائندہ یونین کی عہدیدار بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلم نرسیں غیر مسلم نرسوں کے ساتھ نہ صرف کھانے پینے سے پرہیز کرتی ہیں بلکہ ضرورت پڑنے کے باوجود "ان کے دوپٹے بھی استعمال نہیں کرتیں"۔
جہاں کہیں اس طرح کے تعصبات نسبتاً کم ہوتے ہیں وہاں غیرمسلموں کو کچھ اور مشکلات درپیش ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر رفعت بتاتی ہیں کہ کس طرح ان کے ساتھ کام کرنے والے مسلمان اکثر انہیں اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کرنے کی نصیحت کرتے رہتے ہیں۔ ان کے مطابق ایک ڈاکٹر نے تو انہیں یہ بھی کہہ دیا کہ وہ شکل و صورت اور رنگت سے مسیحی نہیں لگتیں اس لئے انہیں مسلمان ہو جانا چاہیے۔
شکیلہ بھی اسی طرح کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ "کچھ ماہ پہلے ایک مسیحی نرس نے مجھے بتایا کہ ایک مسلم نرس ہر وقت اسے اسلامی مواد کا مطالعہ کرنے اور اپنا مذہب تبدیل کرنے کا کہتی ہے"۔ تاہم یہ بات جب نرسوں کی یونین تک پہنچی تو اس کے عہدیداروں نے مسلم نرس کو سمجھایا کہ وہ مسیحی نرس کے مذہبی جذبات کو ٹھیس نہ پہنچائے۔
تیسرے درجے کے شہری
آرسین سامی جنوبی لاہور کی مسیحی بستی یوحنا آباد کے رہنے والے ہیں۔ وہ پیشے کے اعتبار سے مکینیکل انجینئر ہیں اور ایک ایسے ادارے میں کام کرتے ہیں جہاں مسیحی نوجوانوں کو پیشہ وارانہ تعلیم دی جاتی ہے۔ اس ادارے کے زیادہ تر ملازمین انہی کی طرح مسیحی ہیں لیکن ان میں سے کچھ مسلمان بھی ہیں جو، ان کے بقول، "ہمارے ساتھ میل جول رکھنے اور اکٹھا کھانے پینے سے ہچکچاتے ہیں"۔
ان کی عمر 48 سال ہے جس میں، ان کے مطابق، انہوں نے ہمیشہ ایسے ہی امتیازی سلوک کا سامنا کیا ہے۔ اپنے بچپن کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ "جب میری عمر نو یا دس سال تھی تو ہمارا خاندان (وسطی پنجاب کے شہر) سرگودھا میں رہتا تھا کیونکہ میرے والد وہاں ملازمت کرتے تھے۔ ایک دفعہ وہاں میں نے اپنے والد کے ہمراہ ایک دکان سے دہی بھلے کھائے لیکن جیسے ہی دکان دار کو ہمارے مذہب کا پتہ چلا تو اس نے ہمیں ڈانٹنا شروع کر دیا کہ ہم نے اس کے برتن ناپاک کر دیے ہیں"۔
یہ بھی پڑھیں
وہ پڑی ہیں روز قیامتیں کہ خیالِ روز جزا گیا: 'جس نے دنیا میں جہنم دیکھنی ہو وہ رحیم یار خان میں رہنے والے ہندوؤں کی زندگی دیکھ لے'۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کچھ سال پہلے جب وہ گوجرانوالہ کی ایک فیکٹری میں ملازمت کر رہے تھے تو نہ صرف ان سے ان کے مذہب کے بارے میں متعصبانہ باتیں کی جاتی تھیں بلکہ ان کا پانی کا گلاس تک علیحدہ رکھا جاتا تھا۔ سیالکوٹ میں جراحی کے آلات بنانے والے ایک ادارے میں کام کرتے ہوئے بھی "کینٹین میں میرے برتن علیحدہ رکھے جاتے تھے۔ حتیٰ کہ کھانے کے دوران میری کرسی میز بھی دوسروں سے الگ لگائی جاتی تھی"۔
سماجی ترقی کے لیے کام کرنے والے کمیونٹی ورلڈ سروس نامی غیرسرکاری ادارے نے 2020 میں کی جانے والی اپنی تحقیق میں اس طرح کے بے شمار واقعات درج کرتے ہوئے کہا ہے کہ تقریباً تمام غیر مسلم پاکستانی شہریوں کو چھوت چھات کی بنیاد پر لگ بھگ روزانہ تعصب کا تجربہ ہوتا ہے۔ لیکن اس کا کہنا ہے کہ اس کے متاثرین میں پنجاب میں رہنے والے مسیحی سرِفہرست ہیں۔ اگر 2017 کی مردم شماری کو اس تناظر میں دیکھا جائے تو لاہور کے ہر بیس باشندوں میں سے ایک کو مسیحی ہونے کے ناطے اسی تعصب کا سامنا ہے (کیونکہ اس شہر کی تقریباً پانچ فیصد آبادی مسیحی ہے)۔
مذہبی اقلیتوں کے حقوق پر کام کرنے والے محقق اور سینٹر فار سوشل جسٹس نامی غیرسرکاری ادارے کے ڈائرکٹر پیٹر جیکب بھی اس مسئلے کی نشان دہی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان میں چھوت چھات کا نظام ابھی تک ختم نہیں ہو سکا حالانکہ ملکی آئین رنگ، نسل، ذات اور مذہب کی بنیاد پر کسی قسم کی تفریق یا امتیازی سلوک کی اجازت نہیں دیتا۔
اگرچہ ان کا کہنا ہے کہ نِجی اور سرکاری اداروں میں دفتری، تکنیکی اور انتظامی امور پر متعین غیرمسلم پاکستانیوں کو ان پڑھ اور صفائی ستھرائی کا کام کرنے والے غیرمسلموں کی نسبت کہیں کم امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن، ان کے مطابق، پاکستانی معاشرے میں "یہ تاثر عام ہے کہ اکثریت سے مختلف عقیدہ رکھنے والے لوگ دوسرے درجے کے شہری ہیں جنہیں اعلیٰ سرکاری عہدے حتیٰ کہ درمیانے طبقے سے منسلک پیشے تک اختیار کرنے کا استحقاق ہی نہیں"۔
تاریخ اشاعت 7 جولائی 2022