گندم کی کٹائی اور تھریشنگ شروع ہونے کے بعد بھکر میں فصل کی خریدوفرخت جاری ہے۔ سرکاری مراکز پر کسانوں سے 3,900 روپے فی من کے ریٹ پر گندم خریدی جا رہی ہے جبکہ آڑھتی یا مڈل مین اسی گندم کے 4,250 سے 4,400 روپے تک ادا کر رہے ہیں۔
تحصیل کلور کوٹ سے لیہ کی حدود تک دریائے سندھ کے کنارے 110 کلومیٹر کی پٹی میں شاہ عالم، پنج گرائیں، دریا خان، کوٹلہ جام، نوتک اور بہل سمیت دیگر علاقوں میں کسانوں کے پاس اپنی گندم سرکاری ریٹ سے زیادہ قیمت پر بیچنے کا آپشن موجود ہے اور وہ بیچ رہے ہیں۔
دریائے سندھ کے کنارے نوتک نشیب بستی عمر والی کے آڑھتی حاجی حسنین خان نے کسانوں سے بھاری مقدار میں گندم خرید لی ہے جسے وہ خیبرپختونخوا میں فروخت کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ چند سال پہلے تک ان کے لئے پنجاب حکومت کو گندم بیچنا آسان نہیں ہوتا تھا۔ سرکاری اہلکار منہ نہیں لگاتے تھے اور باردانہ حاصل کرنے کے لیے خوار ہونا پڑتا تھا۔ ایسے میں ہمسایہ صوبے کی مارکیٹ ان کے کام آئی۔ ان کے بقول اب جبکہ خیبرپختونخوا کو گندم کی اشد ضرورت ہے تو وہ اپنی فصل وہیں فروخت کریں گے۔
وہ بتاتے ہیں کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران دریائے سندھ تک گندم پہنچاتے ہوئے ان کی تین ٹرالیاں گندم ضلعی انتظامیہ پکڑ چکی ہے جس کا وہ 45 ہزار روپے جرمانہ ادا کرچکے ہیں۔ ان کا بھی کہنا ہے کہ وہ اپنی ذاتی زمین پر کاشت شدہ گندم سرکاری مرکز خریداری پر بیچیں گے مگر جو گندم وہ مہنگے داموں خرید چکے ہیں یا خرید رہے ہیں اسے وہ سرکار کو دینے بجائے خیبرپختونخواہ میں نجی خریداروں کو فروخت کریں گے۔
دریا سے پار خیبرپختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان اور اس سے متصل تحصیل پرویا اور نائی ویلہ، ماہڑی، رمک اور دیگر علاقوں میں گندم 4,500 روپے سے 5,200 روپے فی من تک فروخت ہو رہی ہے۔
گذشتہ سال آنے والے سیلاب میں ڈیرہ اسماعیل خان کا جنوبی زرعی علاقہ دامان بری طرح متاثر ہوا تھا۔ سیلابی ریلے نے ڈیرہ اسماعیل خان سے ڈیرہ غازی خان کی تحصیل تونسہ تک چشمہ رائٹ بینک کینال کو بہت سی جگہوں پر توڑ دیا جس کے بعد اس نہر کو پانی کی فراہمی بند کر دی گئی تھی۔ دامان کا وسیع زرعی رقبہ اسی نہر کے پانی سے سیراب ہوتا تھا۔ پانی نہ ملا تو وہاں لاکھوں ایکڑ رقبے پر گندم کاشت نہ کی جا سکی۔ اب ان علاقوں کے لوگوں کا انحصار دریا پار بھکر اور اور گردونواح کے علاقوں کی گندم پر ہے جس کی وہ بھاری قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں۔
دریائے سندھ کے پار زیادہ تر گندم پتن میانجی، پتن میتلا اور پتن بستی موسن والا کے مقام پر کشتیوں میں لاد کر خیبرپختونخواہ کی حدود میں بھیجی جاتی ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ پنجاب کی سمت میں واقع یہ تینوں جگہیں دریائی علاقے کی ایک مخصوص بناوٹ کی وجہ سے خیبرپختونخوا کا حصہ ہیں تاہم 58 مربع کلومیٹر سے زیادہ رقبے پر مشتمل اس علاقے میں عام طور پر پنجاب انتظامیہ کی عملداری رہتی ہے۔
جب گندم کی سمگلنگ شروع ہوئی تو یہاں ضلعی انتظامیہ اور پنجاب پولیس نے متحرک کردار ادا کرتے ہوئے اسے روکنے کی کوشش کی۔ لیکن چند ہی روز کے بعد خیبرپختونخوا پولیس نے ان تینوں جگہوں کو اپنی عملداری میں لے لیا اور بھکر کی ضلعی انتظامیہ اور پنجاب پولیس کو یہاں داخل ہونے سے روک دیا۔
اس نمائندے نے صورت حال کا جائزہ لینے کے لئے میانجی پتن کا دورہ کیا تو وہاں خیبرپختونخوا کی تحصیل پرویا کی پولیس تعینات تھی۔ اس جگہ گندم کی سینکڑوں بوریاں بھی دریا پار لے جائے جانے کے لئے موجود تھیں۔
پتن پر تعینات پولیس کے انچارج شیر گل نے اس نمائندے کو بتایا کہ وہ مقامی زمینداروں کی درخواست پر یہاں آئے ہیں جنہوں نے شکایت کی تھی پنجاب پولیس اور بھکر کی ضلعی انتظامیہ ان کی گندم پر قبضہ کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک یہ گندم دریا پار پرویا میں منتقل نہیں کر دی جاتی اس وقت وہ پتن پر موجود رہیں گے۔
مختار خان ڈھانڈلہ ڈیرہ اسماعیل خان اور بھکر میں دریائے سندھ کے کناروں پر آٹھ ہزار ایکڑ زرعہ رقبے کے مالک ہیں۔ ان کی اراضی کا ایک حصہ پتن میانجی سے متصل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دریا پار منتقل کی جانے والی اور پتن پر موجود گندم ان کی اپنی، ان کے مزارعوں اور دیگر چھوٹے کاشتکاروں کی ملکیت ہے۔ چونکہ یہ علاقے خیبرپختونخوا میں آتا ہے اس لئے یہاں سے دریا پار بھیجی گئی گندم کو سمگلنگ نہیں کہا جا سکتا۔
یہ بھی پڑھیں
محنت کسان کی، ریٹ سرکار کا، منافع آڑھتی کا: 'ذخیرہ کی گئی گندم مارکیٹ میں لا کر اربوں روپے کا اضافی منافع کمایا جاتا ہے'
دریا کنارے پنجاب کے علاقے میں تعینات سب انسپکٹر امیر نواز (فرضی نام) الزام عائد کرتے ہیں کہ خیبرپختونخوا کی پولیس اپنی نگرانی میں گندم سمگل کروانے میں مصروف ہے۔
''پتن ہی واحد راستہ ہے جس سے گندم کی سمگلنگ روکی جا سکتی ہے لیکن اس پر خیبرپختونخواہ پولیس کا قبضہ ہے۔ ہمارے اعلیٰ افسروں نے بھی ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ پتن کی طرف نہیں جانا۔''
اقبال حسین بلوچ نے بستی بمبھ میں اپنے ملکیتی پندرہ ایکڑ رقبے پر گندم کاشت کی تھی جس کی انہوں نے روایتی انداز میں مزدوروں کے بجائے کمبائن ہارویسٹر کے ذریعے ایک ہی دن میں کٹائی کی اور اگلے ہی روز ایک آڑھتی کو 4,250 روپے فی من کے حساب سے بیچ آئے ہیں۔ انہیں اس سے غرض نہیں کہ یہ گندم کس طرح اور کہاں جائے گی۔ وہ اس بات پر خوش ہیں کہ انہیں ان کی محنت کا اچھا معاوضہ مل گیا ہے۔
تاریخ اشاعت 10 مئی 2023