راجن پور کے عزادار حسین کپاس کے کاشتکار ہیں۔ پچھلے سال آنے والے سیلاب میں ان کی ساری فصل بہہ گئی تھی اور وہ یہ سوچ کر پریشان ہیں کہ نجانے اس سال ان کے ساتھ کیا ہو گا۔ سیلاب میں ٹوٹنے والے حفاظتی پشتوں کی مرمت تاحال نہیں ہو سکی اور انہیں خدشہ ہے کہ اگر آنے والے مہینوں میں کوہ سلیمان پر زیادہ بارشیں ہوئیں پہاڑی ندی نالوں سے آنے والے سیلابی ریلے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی۔
عزادار حسین راجن پور سے تقریباً 25 کلومیٹر دور فاضل پور میں رہتے ہیں۔ انہوں نے سرائیکی ادب میں ماسٹرز کر رکھا ہے۔ تلاش بسیار کے بعد جب انہیں کوئی اچھی نوکری نہ ملی تو انہوں نے قطب کینال کے کنارے بارہ ایکڑ زرعی اراضی ٹھیکے پر لے کر کاشت کاری شروع کر دی۔
گزشتہ برس انہوں نے کپاس اگانے کے لیے ایک نیا اور مہنگا بیج استعمال کیا جو فصل کو کئی طرح کی بیماریوں سے بچاتا ہے۔ کاشت اور برداشت کے درمیان انہیں ڈیزل، کھاد اور سپرے کے لئے قرض بھی لینا پڑا۔ اگست میں جب کپاس کے سبز ٹینڈے کھل کر سفید روئی میں تبدیل ہوئے تو انہوں نے چنائی کے لیے مزدور خواتین سے رابطہ کیا جنہوں نے دو روز بعد کا وقت دیا۔
اسی رات جب وہ اپنے بچوں کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے تو مساجد سے شہر خالی کرنے کے اعلانات ہونے لگے جن میں بتایا جا رہا تھا کہ کوہ سلیمان سے آنے والے سیلابی ریلے نے قطب کینال میں شگاف ڈال دیا ہے اور سیلابی پانی کسی بھی وقت شہر میں داخل ہو سکتا ہے۔
کچھ ہی دیر میں سیلاب نے علاقے میں تباہی مچا دی۔ اگرچہ پانی اترنے کے بعد سرکاری اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں نے لوگوں کو زندگی کی بحالی کے لیے کچھ مدد بھی فراہم کی لیکن سیلاب سے متاثرہ کاشت کاروں کو ان کی تباہ ہونے والی فصلوں کا معاوضہ نہیں دیا گیا۔ عزادار پچھلی فصل کا قرضہ تاحال نہیں اتار سکے اور اب انہیں اگلی فصل کی پریشانیوں نے گھیر رکھا ہے۔
راجن پور کے مشرق میں دریائے سندھ اور مغرب میں کوہ سلیمان کا پہاڑی سلسلہ واقع ہے۔ اس طرح یہ ضلع دو اطراف سے سیلاب کی زد میں رہتا ہے۔
کوہ سلیمان سے نکلنے والے سات پہاڑی نالے راجن پور کو براہ راست متاثر کرتے ہیں جن میں کالا بگا کھوسڑا، درہ کاہا سلطان، درہ چھاچھڑ، پٹوخ، سوری شمالی، سوری جنوبی اور زنگی شامل ہیں۔ ان میں درہ کاہا سلطان اور درہ چھاچھڑ کا بیشتر پانی میدانی علاقوں کی جانب آتا ہے۔ درہ کاہا میں پانی کی زیادہ سے زیادہ گنجائش 80 ہزار جبکہ چھاچھڑ میں 45 ہزار کیوسک ہے۔ اگست 2022 میں ان نالوں میں کئی روز تک بالترتیب ایک لاکھ آٹھ ہزار اور پچھتر ہزار کیوسک پانی گزرا جس نے پورے ضلعے کو بری طرح متاثر کیا۔
سیلاب میں ٹوٹنے والے سیم نالے اور بچاؤ بند ابھی تک اسی حالت میں ہیں جن کی مرمت کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا
سیلاب سے فاضل پور، حاجی پور، بمبلی اور روجھان مزاری شہر سمیت درجنوں قصبے اور دیہات زیر آب آئے۔ اس دوران 37 افراد ہلاک ہوئے، 28 ہزار سے زیادہ مکان مکمل یا جزوی طور پر متاثر ہوئے اور دو لاکھ 39 ہزار ایکڑ پر چاول اور کپاس کی تیار فصل سیلاب میں بہہ گئی۔
چک شکاری کے کاشت کار رحیم بخش کا کہنا ہے کہ 2008 سے پہلے اس علاقے میں سیلاب سے زیادہ نقصان نہیں ہوتا تھا کیونکہ رودکوہی کے سیلابی پانی کو دریا میں ڈالنے کے لیے قدیمی گزرگاہیں اپنی اصل حالت میں موجود تھیں۔ راستے میں آنے والی ریلوے لائن اور انڈس ہائی وے پر مختلف جگہوں پر پل بنائے گئے تھے جس سے رودکوہی کا پانی علاقے کو نقصان کیے بغیر سیدھا دریائے سندھ میں جا گرتا تھا۔
''2008 کے بعد سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے بعض لوگوں نے رودکوہی کے راستے میں ہل چلا کر فصلیں کاشت کرنا شروع کر دیں۔ ان کی دیکھا دیکھی سیلابی گزرگاہوں کے قریب رہنے والے باقی لوگوں نے بھی ان جگہوں کو آباد کر کے اپنے رقبے میں شامل کر لیا جس کا کسی سرکاری محکمے نے نوٹس نہ لیا۔ اس طرح قبضہ مافیا کو شہ ملی اور اس نے انڈس ہائی وے پر سیلابی پانی کے کازوے کو کہیں مٹی ڈال کر بند کر دیا تو کہیں اس پر پیٹرول پمپ قائم کر لیے۔ جب پانی کو راستہ نہیں ملتا تو وہ علاقے میں سیلابی کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔''
یوں تو ہر ضلعے میں ایک ایگزیکٹو انجینئر محکمہ آبپاشی کا ضلعی سربراہ ہوتا ہے لیکن راجن پور میں کوہ سلیمان سے آنے والے سیلابی پانی کو کنٹرول کرنے کے لیے ایکسیئن ہل ٹورنٹ یا رودکوہی کا علیحدہ عہدہ اور آفس ہے۔حکومت اس دفتر کو سیلاب سے بچاؤ کے لیے ہر سال سالانہ خطیر رقم مہیا کرتی ہے جس کا مقصد کوہ سلیمان سے آنے والے بارش کے پانی کی گزرگاہوں کی صفائی اور سیلابی پشتوں کی تعمیر مرمت کرنا ہے۔
تاہم راجن پور کے لوگ اس محکمے کی کارکردگی کے بارے میں کچھ اچھی رائے نہیں رکھتے۔
یہ بھی پڑھیں
گندم کی نئی فصل سندھ کو ایک نئے غذائی بحران کے دہانے پر لے آئی ہے؟ سات اہم باتیں
مقامی شہری محمد خان کا کہنا ہے کہ اب تک اس محکمے کی کارکردگی بہت مایوس کن رہی ہے۔ اس محکمے کے اہلکاروں نے سال بھر میں صرف مون سون کے دو تین ماہ ہی کام کرنا ہوتا ہے لیکن صورتحال یہ ہے کہ گزشتہ برس کے سیلاب میں ٹوٹنے والے سیم نالے اور بچاؤ بند ابھی تک اسی حالت میں ہیں جن کی مرمت کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا جبکہ مون سون کا موسم آنے والا ہے۔
''کوٹلہ عیسن اور پارکو کے درمیان انڈس ہائی وے سے سیلابی پانی کو گزارنے کے لیے بنایا گیا پل گزشتہ سیلاب میں ٹوٹ گیا تو اسے تعمیر کرنے کے بجائے اس کے سامنے نئی سڑک بنا کر پانی کا راستہ روک دیا گیا۔ گزشتہ برس کی طرح اگر اس سال بھی کوہ سلیمان پر زیادہ بارشیں ہوئیں تو پل بند ہونے کی وجہ سے سیلابی ریلا سیدھا راجن پور شہر کا رخ کر لے گا۔''
لوک سجاگ کی ٹیم نے ایکسیئن رودکوہی زین ملک کا موقف لینے کے لیے ان سے کئی مرتبہ فون پر اور بالمشافہ ملنے کی کوشش کی لیکن نہ تو انہوں نے فون کال کا جواب دیا اور نہ ہی اپنے دفتر میں دستیاب ہوئے۔
تاریخ اشاعت 18 اپریل 2023