آزاد منڈی اور بندی کسان: روٹی نہیں ہے تو کیک کھا لیں؟

postImg

طاہر مہدی

postImg

آزاد منڈی اور بندی کسان: روٹی نہیں ہے تو کیک کھا لیں؟

طاہر مہدی

گندم خسارے کا سودا ہے لیکن پھر بھی کسان اسے اگانے سے باز کیوں نہیں آتے؟

مجھے اس سوال کا جواب ایک ایسی لوکل بس میں سفر کے دوران ملا جس میں انسانوں کے ساتھ بکریاں اور مرغیاں بھی سوار تھیں۔ میں کسی کام سے پنجاب کے ایک گاؤں جا رہا تھا۔ اگلی سیٹ پر دو دیہاتی مزدور خواتین بیٹھی ایک دوسرے کا حال احوال لے رہی تھیں۔ وہ یقیناً ایک دوسرے سے پہلی بار ملیں تھیں۔

اس طرح کان لگا کر دوسروں کی گفتگو سننا کوئی اچھی بات تو نہیں لیکن میں اپنے آپ کو روک نہیں پایا۔ ان کی گفتگو کا محور یہ تھا کہ وہ اپنے اپنے خاندانوں کے لیے سال بھر کے دانے اور دودھ کا بندوبست کس تگ و دو سے کر پاتی ہیں۔

یہ کوئی وقت گزارنے کے لیے کی جانے والی عامیانہ بات چیت نہیں تھی۔ وہ دونوں دراصل ان تمام خواتین کی نمائندہ تھیں جو خاندان کی خوراک کے بندوبست کی ذمہ دار ہوتی ہیں اور ان کے زیرِ تذکرہ دو اجناس دانے یعنی گندم اور دودھ کروڑوں پاکستانیوں کی روزمرہ کی خوراک کا اہم ترین حصہ ہیں۔

گھریلو معیشت کے بارے ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق پاکستان کے تمام خاندانوں کے خوراک پر کیے جانے والے مجموعی صرفے کا 41 فیصد انہی دو اجناس پر ہوتا ہے، خواہ وہ کتنے ہی غریب یا امیر ہوں۔

ایک کسان خاندان کو جو اطمینان گندم سے اٹا اٹ بھرے اپنے گھر کے بھڑولے سے ملتا ہے، اس کا کوئی ثانی نہیں ہو سکتا۔ ماہرین اس تسکین کو فوڈ سیکیورٹی کا نام دیتے ہیں۔ اور یہ یوں ہی حاصل نہیں ہو جاتی اس کے لیے ان خاندانوں کو کئی ناموافق عوامل سے سال بھر جُوجنا پڑتا ہے اور ان عوامل میں سے ایک جو سب سے زیادہ بے رحم، کٹھور اور ناقابل اعتبار ہے، وہ ہے منڈی۔

لگ بھگ ایک صدی پہلے تک ہماری زراعت کی اساس خود کفالتی تھی یعنی کب، کونسی فصل کتنی زمین پر کاشت کرنا ہے اس کا فیصلہ کسان اپنی گھریلو خوراک کی ضرورت کو مدنظر رکھ کر کرتے تھے لیکن پھر آہستہ آہستہ وہ منڈی کی طلب اور رسد کے گرداب میں آ  گئے اور نقد آور فصلوں کو ترجیح دینے لگے لیکن اس طویل عرصے میں کسان اور منڈی کے درمیان کوئی مستقل اور بھروسہ مند تعلق قائم نہیں ہو پایا۔ نتیجتاً کسان منڈی کی طلب، رسد کی منطق اور اپنی فوڈ سیکیورٹی والی سرشست کے درمیان الجھ کر رہ گئے۔

پاکستان میں کسان خاندانوں کی کل تعداد 83 لاکھ کے قریب ہے جن میں سے 84 فیصد (70 لاکھ) ربیع کے موسم میں اپنی دو کروڑ 80 لاکھ ایکڑ زمین پر گندم ہی کاشت کرتے ہیں۔ پاکستان میں گندم کے ایک کھیت کا اوسط رقبہ چار ایکڑ ہے۔

عام طور پر کسان ایک ایکڑ کی پیداوار اپنے گھر کے بھڑولے میں بھر لیتے ہیں، ایک ایکڑ کی پیداوار کٹائی، گہائی کرنے والے مزدوروں کے حصے میں آ جاتی اور باقی دو ایکڑ کی پیداوار منڈی پہنچتی ہے۔ یہی گندم کسانوں سے خرید کر شہری صارفین کو بیچی جاتی ہے۔

کسان یہ گندم بیچ کر اس فصل پر استعمال کی گئی کھادوں، پانی اور ڈیزل وغیرہ کا بل ادا کرتے ہیں۔ اگر نقد آمدن اخراجات سے زیادہ ہو تو وہ خوش ہوتے ہیں کہ گھر کی ضرورت کی گندم بھی اکٹھی ہو گئی، مال مویشی کے چارے کے لیے بھوسا بھی مل گیا اور پھر کچھ نقدی بھی ہاتھ آ  گئی۔ اگر یہ نقد رقم بہت معمولی ہو تو وہ پھر بھی اپنے آپ کو یہ دلاسہ دے لیتے ہیں کہ چلو اور کچھ نہیں تو خاندان کی فوڈ سیکیورٹی کا ہدف تو حاصل ہو گیا۔

ویسے بھی ربیع کے موسم میں گندم کے علاوہ کچھ اور کاشت کرنے کی چوائس ہر کسان کے پاس نہیں ہوتی۔ اس موسم میں جو دیگر فصلیں کاشت ہو سکتی ہیں ایک تو ان کے لیے کافی سرمایہ درکار ہوتا ہے اور پھر منڈی میں ان اجناس کی طلب اتنی نہیں ہوتی کہ لاکھوں کسان گندم چھوڑ کر اسے کاشت کرنا شروع کر دیں۔

ہر ایک سو چھوٹے اور درمیانے کسانوں میں سے 80 سے زیادہ گندم کاشت کرتے ہیں لیکن سب سے بڑے کسان جو ظاہر ہے مالدار ہوتے ہیں ان میں سے صرف 60 فیصد ہی گندم اگانے کا کشٹ اٹھاتے ہیں۔

ربیع کے موسم کی یہ تنگ دامنی اور سرشست میں شامل فوڈ سیکیورٹی کی خواہش– یہ کسان کی وہ مجبوریاں ہیں جس کا فائدہ ہمارے پالیسی ساز اٹھاتے ہیں۔ آپ اسے استحصال بھی کہہ سکتے ہیں۔

ہماری گندم کی پالیسی کا سب سے بڑا مطمعہ نظر یہ ہوتا ہے کہ آٹے کی قیمت کو کم سے کم رکھا جائے۔ شہر کے تندوروں پر سستی روٹی حکومت کی مثبت تشہیر کرتی ہے۔ اب اس کی کسے پرواہ کہ اس حکومتی 'غریب نوازی' کا بل دیہاتی کسانوں کی جیب کاٹ کر ادا کیا جاتا ہے۔

2014ء سے  لے کر 2019ء تک گندم کی امدادی قیمت میں حکومت نے ایک روپے کا بھی اضافہ نہیں کیا۔ وہ 13 سو روپے من پر جوں کی توں رہی۔  یعنی پالیسی سازوں کی نظر میں ان پانچ سالوں کے دوران نہ تو کسانوں کی روزمرہ زندگی پر مہنگائی کے کوئی اثرات مرتب ہوئے اور نہ ہی گندم کی پیداواری لاگت میں کوئی اضافہ ہوا! وہ بس سستی روٹی کی سیاست کا مزہ لیتے رہے۔ ہاں، جب جنوری 2020ء میں شہروں میں آٹے کی قلت کا بحران پیدا ہو گیا تب وہ حرکت میں آئے۔

پالیسی سازوں کی اس بے حسی کو گذشتہ کچھ سالوں سے ایک اور جواز ہاتھ گیا ہے اور وہ ہے عالمی منڈی سے موازنہ۔ اس جواز کو مضبوط کرنے کے لیے 'ماہرین' ہمارے کسانوں کو انتہائی پسماندہ اور نکما قرار دیتے ہیں کیونکہ دوسرے ممالک کے کسان ان کے مقابلے میں کم لاگت سے زیادہ پیداوار حاصل کرتے ہیں اور یوں ان کی دانست میں ہمارے کسان حکومت کے کاندھوں پر ایک مالیاتی بوجھ کی طرح سوار ہیں۔

یہ بیانیہ کسانوں کے حالیہ احتجاج کے سیاسی اثرات کو زائل کرنے کے لیے ایک بار پھر ابھارا گیا ہے لیکن اسے چند اہم حقائق سے چشم پوشی کر کے کھڑا کیا گیا ہے۔

آسڑیلیا کا شمار گندم کے سب سے بڑے عالمی تاجروں میں ہوتا ہے اور وہاں گندم کے کھیتوں کا اوسط رقبہ 11 ہزار ایکڑ سے بھی زائد ہے جبکہ پاکستان میں گندم کے سب سے وسیع کھیتوں کا اوسط رقبہ بھی بس 93 ایکڑ ہے۔ امریکہ اور روس دنیا بھر میں گندم پیدا کرنے والے سب سے بڑے ممالک میں شامل ہیں۔

امریکہ میں 2022ء میں ہونے والی زراعت شماری میں گندم کے کھیتوں کی کل تعداد 97 ہزار نوٹ کی گئی جبکہ روس میں منڈی کے لیے گندم پیدا کرنے والے فارموں کی تعداد 20 ہزار کے قریب بتائی جاتی ہے۔

اب ذرا یہ بھی دیکھ لیں کہ پاکستان میں گندم کاشت کرنے والے کسانوں کی تعداد 70 لاکھ ہے جن میں سے ہر ایک اوسطاً چار ایکڑ پر یہ فصل کاشت کرتا ہے۔ کیا دیگر ممالک کے وسائل سے مالامال کسانوں کا پاکستانی کسانوں سے موازنہ کر کے پالیسی ترتیب دینا عقلمندی ہے؟

لیکن حقائق جو بھی ہوں آپ پالیسی سازوں کا آزاد منڈی کی معیشت پہ ایمان متزلزل نہیں کر سکتے۔ 2023ء میں بین الاقومی منڈی میں گندم کا ریٹ آسمان کو پہنچ گیا کیونکہ روس، یوکرائن کی جنگ کے باعث تاجروں کو خدشہ تھا کہ یہ اہم جنس کمیاب ہو جائے گی۔ (یوکرائن بھی گندم کا ایک بڑا تاجر ملک ہے)۔

اس صورت حال سے نبردآزما ہونے کے لیے حکومت پاکستان نے گندم کی امدادی قیمت 2200 سے بڑھا کر 3900 کر دی۔ یہ امدادی قیمت میں تاریخ کا سب سے بڑا اضافہ تھا۔ کسانوں نے اس پر لبیک کہا اور ریکارڈ پیداوار دے کر ملک میں گندم کی کمی کے خطرے کو ٹال دیا۔

لیکن بین الاقومی تاجروں کے یوکرائن جنگ سے متعلق خدشات جلد ہی غلط ثابت ہو گئے، دنیا میں گندم کی سپلائی کا کوئی بحران نہیں آیا اور قیمتیں گر گئیں۔ موجودہ سیزن میں یہ کم ہوتے ہوتے 225 ڈالر فی ٹن یا ڈھائی ہزار پاکستانی روپے فی من کی سطح پر آ  گئیں۔ حکومت نے پھر آزاد منڈی پر اپنا ایمان تازہ کیا اور سرکاری گودام سستی غیر ملکی گندم سے بھر لیے۔

کراپ رپورٹنگ سروسز، حکومت پنجاب کا ایک ادارہ ہے۔ اس کے تخمینے کے مطابق حالیہ سیزن میں ایک من گندم کی پیداواری لاگت 3280 روپے تھی، اگر چار ایکڑ کی پیداوار سرکاری ریٹ (3900 روپے من) پر کسان سے خرید لی جائے تو اُسے اس چھ ماہی فصل سے 14 ہزار روپے ماہانہ آمدن ہوتی۔ (حکومت پنجاب نے ستمبر 2023 میں مزدور کی کم سے کم اجرت 25 ہزار سے بڑھا کر 32 ہزار کر دی تھی!) اس پر مستزاد یہ کہ یہ تخمینے سرکاری ہیں اور کسان ان سے بالکل متفق نہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

ملک میں گندم کی کاشت کا نیا ریکارڈ مگر کسان کیوں پریشان ہیں؟ پنجاب حکومت کے لیے نیا چیلنج

وہ خاص طور اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ بازار میں یوریا اور ڈی اے پی کی قیمتیں ان تخمینوں میں دی گئی قیمتوں سے لگ بھگ 50 فیصد زیادہ رہی ہیں۔ پھر طرہ یہ ہے کہ 3900 روپے تو درکنار، تاجر کسان کو تین ہزار روپے فی من کا ریٹ بھی نہیں دے رہے۔ گویا کسان کو حاصل ہونے والی رقم اس کے گندم کی فصل پر نقد خرچے سے بھی کم ہے۔

کسانوں کا خودکفالتی ذہن اسے یوں سمجھتا ہے کہ جو گندم انہوں نے خود، اپنی زمین پر پیدا کر کے اپنے گھر کے لیے رکھی ہے منڈی نے ان سے اس کے بھی پیسے وصول لیے ہیں، جو سراسر ظلم ہے جس پر وہ خاموش نہیں بیٹھ سکتے۔

سیاسی بیان بازی ایک طرف، حکومت نے ہمارے کمزور کسانوں کو عالمی منڈی کے بے رحم دیوہیکل پہلوانوں سے دنگل کے لیے میدان میں دھکیل دیا ہے جس میں وہ اپنے پاؤں جما ہی نہیں سکتے۔

18ویں صدی کی ایک فرانسیسی ملکہ کے بارے میں مشہور ہے کہ جب اسے معلوم ہوا کہ کسان اس کے محل کے باہر اس لیے احتجاج کر رہے ہیں کہ ان کے پاس کھانے کے لیے روٹی نہیں ہے تو اس نے کہا تھا کہ 'تو وہ روٹی کی بجائے کیک کیوں نہیں کھا لیتے؟'۔ تین صدی بعد ہمیں اپنی جمہوری اشرافیہ سے یہ توقع رکھنے کی جسارت تو کرنی چاہیے کہ انہیں اب تک معلوم ہو چکا ہو گا کہ ان کے پسندیدہ کیک بھی اسی گندم سے بنتے ہیں جو کسان اگاتے ہیں۔

تاریخ اشاعت 25 مئی 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

طاہر مہدی ایک انتخابی تجزیہ نگار ہیں انہیں صحافت کا وسیع تجربہ ہے اور وہ سیاسی اور سماجی امور پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

thumb
سٹوری

چراغ تلے اندھیرا: سندھ میں شمسی توانائی کا 'انوکھا' منصوبہ

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

پنجاب: زرعی ٹیوب ویلوں کو سولر پر چلانے کے منصوبے پر ماہرین کیوں تقسیم ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کس حال میں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
thumb
سٹوری

ملک میں بجلی کی پیداوار میں "اضافہ" مگر لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

بلوچستان کے ہنرمند اور محنت کش سولر توانائی سے کس طرح استفادہ کر رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

سولر توانائی کی صلاحیت: کیا بلوچستان واقعی 'سونے کا اںڈا دینے والی مرغی" ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحبیبہ زلّا رحمٰن
thumb
سٹوری

دیہی آبادی کے لیے بجلی و گیس کے بھاری بلوں کا متبادل کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعزیز الرحمن صباؤن
thumb
سٹوری

چمن و قلعہ عبداللہ: سیب و انگور کے باغات مالکان آج کل کیوں خوش ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحضرت علی

اوور بلنگ: اتنا بل نہیں جتنے ٹیکس ہیں

thumb
سٹوری

عبدالرحیم کے بیٹے دبئی چھوڑ کر آواران کیوں آ گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

"وسائل ہوں تو کاشتکار کے لیے سولر ٹیوب ویل سے بڑی سہولت کوئی نہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

لاہور کے کن علاقوں میں سب سے زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.