پشاور اور نوشہرہ کے سنگم پر واقع اکبر پورہ کے طارق خان کو توقع تھی کہ اس سال وہ فی ایکڑ 24 من گندم حاصل کرنے میں کامیاب رہیں گے۔ لیکن ان کی امیدیں بر نہ آئیں کیونکہ بے وقت بارشوں اور ژالہ باری نے ان کی فصل کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
طارق کے پاس تین ایکڑ زمین ہے۔ وہ صرف اپنی گھریلو ضروریات پوری کرنے کے لئے گندم کاشت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب گندم نے قد نکالا اور دانہ پک گیا تو بارشوں، تیز آندھی اور ژالہ باری کا سلسلہ شروع ہو گیا جس سے نہ صرف فصل گر گئی بلکہ خوشوں سے دانہ بھی جھڑ گیا۔ ان کا اندازہ ہے کہ امسال وہ پندرہ سولہ من فی ایکڑ سے زیادہ پیداوار حاصل نہیں کرپائیں گے۔
فصل خراب ہونے کے نتیجے میں میں اس سال انہیں آٹے کی قلت رہے گی۔ وہ یہ سوچ کر پریشان ہیں کہ انہیں سستے یا مفت آٹے کی تلاش میں قطاروں میں کھڑے ہو کر گھنٹوں انتظار کرنا ہو گا یا آٹے کے ٹرکوں کے پیچھے بھاگنا پڑے گا۔
چارسدہ کے کاشتکار محمد کریم بھی ایسی ہی کہانی سناتے ہیں۔
بارشوں اور ژالہ باری کے نتیجے میں ان کی چار ایکڑ زمین پر اگی گندم میں سے ڈیڑھ ایکڑ گر گئی ہے۔گزشتہ سال انہیں 35 من فی ایکڑ پیداوار حاصل ہوئی تھی لیکن اس سال 20 من سے زیادہ فصل حاصل ہونے کی امید نہیں ہے۔ طارق کی طرح کریم بھی سال بھر کے آٹے کے لئے اسی گندم پر انحصار کرتے ہیں اور اب مستقبل کے خدشات سے پریشان ہیں۔
صوبائی محکمہ زراعت کے ذیلی ادارے کراپس رپورٹنگ سروسز کے ڈائریکٹر جنرل محمد کلیم نے لوک سجاگ کو بتایا کہ خیبر پختونخوا میں اس سال سات لاکھ 82 ہزار ہیکٹر رقبے پر گندم کاشت کی گئی جس سے 14 لاکھ 50 ہزار میٹرک ٹن گندم حاصل ہونے کا امکان تھا جو پچھلے سال کے مقابے میں تقریباً ایک لاکھ ٹن زیادہ ہے۔ لیکن طوفانی بارشوں اور ژالہ باری سے ہونے والے نقصان کے بعد یہ ہدف پورا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
خیبر پختونخوا کے وسطی اضلاع پشاور، چارسدہ، مردان، صوابی، نوشہرہ اور جنوبی اضلاع ڈی آئی خان، کرک، لکی مروت اور ٹانک گندم پیدا کرنے والے نمایاں علاقے ہیں۔
تنظیم اتحاد زمینداران کے چیئرمین ارباب محمد جمیل کہتے ہیں کہ بے وقت بارشوں کے باعث ان علاقوں میں فصل کی کٹائی میں تاخیر ہوئی اور گندم کا دانہ زمین پر گر گیا۔ خدشہ ہے کہ اس مرتبہ پہلے جتنی پیداوار حاصل نہیں ہو سکے گی۔
موسمی کیفیت میں آنے والی اس بے وقت تبدیلی سے بنوں، لکی مروت، کرک، ٹانک، ڈی آئی خان، ہنگو، شمالی و جنوبی وزیرستان، پشاور، چارسدہ، مردان، صوابی، نوشہرہ اور ملاکنڈ کے کچھ حصے خاص طور پر متاثر ہوئے ہیں۔
محکمہ زراعت کے ڈائریکٹر سیڈ ڈاکٹر مراد علی خان نے نے بتایا کہ گزشتہ سال سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں یوایس ایڈ اور اقوام متحدہ کے امدادی اداروں کی جانب سے کسانوں کو معیاری تخم ،کھاد اور زرعی ادویات فراہم کی گئی تھیں جس سے ان علاقوں میں گندم کی بروقت کاشت ممکن بنائی گئی۔ یہ ریلیف متاثرہ علاقوں کے علاوہ ان اضلاع میں بھی دیا گیا جہاں دیگر فصلیں اگائی جاتی ہیں۔ تاہم بارشوں اور ژالہ باری کے باعث یہ کاوشیں اکارت گئیں۔
محکمہ زراعت کے مطابق صوبہ اپنے ضرورت کا صرف 24 فیصد گندم خود پیدا کرتا ہے جبکہ بقیہ گندم کیلئے سرکاری سطح پر پنجاب سے اور پاسکو کے ذریعے بیرونی ممالک سے گندم خریدی جاتی ہے۔ خیبر پختونخوا کو اپنی سالانہ ضرورت پوری کرنے کے لیے لگ بھگ پچاس لاکھ میٹرک ٹن گندم درکار ہوتی ہے جبکہ پچھلے تین سال میں صوبے میں اوسط 12 لاکھ 90 ہزار 9 سو 70 میٹرک ٹن گندم پیدا ہوئی ہے۔
صوبے کے زیادہ تر کاشتکار اپنی سالانہ ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے گندم کاشت کرتے اور اسے ذخیرہ کر لیتے ہیں۔ اسی لئے حکومت بھی زمینداروں سے خریداری نہیں کرتی۔ اس سال حکومت پاسکو کے توسط سے 14 لاکھ میٹرک ٹن گندم خریدنے کا ارادہ رکھتی ہے جبکہ باقی کمی کو پورا کرنے کیلئے پنجاب سے آزاد تجارت کے ذریعے گندم لائی جائے گی۔
گندم کی پیداوار میں کمی بیشی سے قطع نظر خیبرپختوانخوا میں سال بھر آٹے کی قلت رہتی ہے۔ موسمیاتی عوامل کے باعث گندم کی پیداوار میں آنے والی حالیہ کمی کے بعد صوبے میں آٹے کے بحران میں شدت آنے کا خدشہ ہے۔ چند ماہ سے صوبے کے بڑے شہروں میں بیس کلو سپیشل آٹے کا تھیلا 3,600 روپے میں فروخت ہوتا رہا ہے جبکہ شہری مراکز سے دور علاقوں میں آٹے کی قیمت اس سے بھی زیادہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں
بھکر میں گندم کی ٹرالیوں نے سرکاری خریداری مراکز سے منہ موڑ کر دریا کا رخ کر لیا
آٹا ڈیلرز خیبر پختونخواکے صدر حاجی رامبل نے بتایا ہے کہ اس وقت صوبے میں آٹے کی قیمت افغانستان سے بھی زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے طورخم بارڈر پر ہوٹل مالکان افغانستان سے آٹا منگوا رہے ہیں۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی جانب سے پابندیوں اور سرحد کو بند کئے جانے کے بعد افغانستان نے تاجکستان سے گندم درآمد کرنا شروع کر دی ہے۔
محکمہ خوراک کے کنٹرولر فوڈ کمال احمد کہتے ہیں کہ صوبے میں آٹے کے بحران کی شدت کو کم رکھنے کے لئے سمگلنگ کی روک تھام پر خاص توجہ دی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں صوبے کے تمام اضلاع کے داخلی و خارجی راستوں پر محکمہ خوراک کی چیک پوسٹیں قائم کی گئی ہیں۔ علاوہ ازیں ضلع خیبر میں کسٹم حکام کے ساتھ ایک مشترکہ چیک پوسٹ بھی بنائی گئی ہے جہاں افغانستان جانے والی گاڑیوں کی سخت نگرانی کی جا رہی ہے۔
تاریخ اشاعت 16 مئی 2023