اسلام آباد میں پانی کی قلت: 'اگر موجودہ بوسیدہ نظام کو جلد درست نہ کیا گیا تو صورتِ حال بدتر ہو جائے گی'۔

postImg

عمر فاروق

postImg

اسلام آباد میں پانی کی قلت: 'اگر موجودہ بوسیدہ نظام کو جلد درست نہ کیا گیا تو صورتِ حال بدتر ہو جائے گی'۔

عمر فاروق

اسلام آباد میں کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے ایک دفتر میں روزانہ لوگوں کی بھیڑ لگی رہتی ہے۔ ان میں سے بیشتر لوگ شہر کے ان سیکٹروں سے آتے ہیں جہاں زیریں متوسط اور محنت کش طبقہ رہتا ہے۔ سی ڈی اے کا یہ دفتر شہر کو پانی کی فراہمی کا انتظام کرتا ہے اور یہاں آنے والے لوگوں کو سرکاری نلوں سے پانی کی فراہمی میں بے قاعدگی کی شکایات ہیں۔ چند روز پہلے سی ڈی اے کے پاس آنے والے مقامی رہائشیوں کے ایک وفد کے رہنما محمد کاشف کا کہنا ہے کہ "ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ کس سے بات کریں"۔ یہ وفد سی ڈی اے کے حکام سے مل کر پانی کی کمی کا مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل کرانا چاہتا ہے۔

اس مسئلے کی وجہ سے جی-9، جی-10، آئی-9 اور آئی-10 سیکٹروں کے رہائشی نل کے پانی کی عدم دستیابی کے حوالے سے روزانہ قریباً 200 شکایات درج کرا رہے ہیں۔ چونکہ آنے والے دنوں میں گرمی کی شدت بڑھ جائے گی اس لیے ان شکایات میں بھی کئی گنا اضافے کا امکان ہے کیونکہ، سی ڈی اے کے ایک عہدیدار کے مطابق، اگر کسی گھر میں سات لوگ رہتے ہیں تو وہاں موسم گرما میں پانی کی روزانہ اوسط طلب 50 گیلن تک پہنچ جائے گی جبکہ موسم سرما میں اسی گھرانے کو 30 گیلن پانی درکار ہوتا ہے۔ 

یہی وجہ ہے کہ جون اور جولائی کے مہینوں میں جب پانی کی طلب عروج پر ہوتی ہے تو اسلام آباد میں پانی کی قلت بھی اتنی ہی بڑھ جاتی ہے۔ نتیجتاً زیریں متوسط اور محنت کش طبقے کے علاقوں میں نل کے پانی کی سپلائی اکثر معطل ہو جاتی ہے۔

آئی-10 سیکٹر میں زیادہ تر چھوٹے تاجر اور ریٹائرڈ سرکاری ملازمین چھوٹے چھوٹے دو منزلہ گھروں میں رہتے ہیں۔ ان کی اپنی رہائش نچلی منزل پر ہوتی ہے لیکن بالائی منزل انہوں نے کرائے پر دے رکھی ہوتی ہے۔ یہاں کے رہائشی محمد طاہر بتاتے ہیں کہ گزشتہ گرمیوں میں اس سیکٹر میں کئی ہفتے تک نل کا پانی بند رہا۔ ان کا کہنا ہے کہ سردیوں کے موسم میں بھی پانی کی 20 منٹ روزانہ والی عمومی سپلائی ایک ہی گھر میں رہنے والے دونوں خاندانوں کے لئے نا کافی ہوتی ہے لیکن گرمیوں میں جب نل کا پانی کئی کئی دن تک نہیں آتا تو حالات بد ترین ہو جاتے ہیں۔ 

ان علاقوں کے رہنے والے لوگوں کے پاس پانی کے مسئلے کا واحد حل یہی ہے کہ وہ سی ڈی اے کے شکایات والے دفتر جا کر اپنی شکایت درج کرائیں اور عارضی طور پر ٹینکر کے ذریعے پانی کی فراہمی کی درخواست دیں۔ چونکہ ان علاقوں میں رہنے والے کئی ہزار گھرانوں میں سے ہر ایک کو یہی مسئلہ درپیش ہے اور ٹینکروں کے آنے میں خاصا وقت بھی لگ جاتا ہے اس لیے پانی سے متعلق شکایات کی تعداد روزانہ سینکڑوں تک پہنچ جاتی ہے۔  

شکایات لے کر آنے والے لوگ شنوائی کے انتظار میں گھنٹوں سی ڈی اے کے دفتروں کے باہر قطاروں میں کھڑے رہتے ہیں۔ چونکہ سی ڈی اے روزانہ 250 ٹینکر ہی مہیا کر سکتی ہے اس لیے ان میں بہت سے لوگوں کو کئی کئی دن انتظار کرنا پڑتا ہے۔

طلب و رسد کا معاملہ

اسلام آباد کو پانی کی فراہمی کا انحصار بڑی حد تک بارش پر ہے جسے دو ڈیموں میں ذخیرہ کر کے شہر کو فراہم کیا جاتا ہے۔ ان میں ایک خانپور ڈیم ہے جو شہر کے شمال میں ہے جبکہ دوسرا سملی ڈیم ہے جو شہر کے جنوب مشرق میں واقع ہے۔ یہ دونوں ڈیم پہاڑوں سے گزرنے والے موسمی ندی نالوں پر بنائے گئے ہیں اس لیے ان پہاڑوں پر جتنی زیادہ بارش ہوتی ہے اتنا ہی زیادہ پانی ان ڈیموں میں جمع ہوتا ہے۔  

چونکہ گزشتہ موسم سرما میں ان ڈیموں کے ارد گرد واقع پہاڑوں پر زیادہ بارشیں نہیں ہوئیں اس لیے اسلام آباد کے رہائشیوں کو خدشہ ہے کہ اس سال گرمیوں میں پانی کا بحران گزشتہ سال سے کہیں زیادہ شدید ہو سکتا ہے۔ تاہم سی ڈی اے کے حکام نے میڈیا کو جاری کیے جانے والے متعدد بیانات میں ان خدشات کو رفع کرنے کی کوشش کی ہے۔ سی ڈی اے میں واٹر سپلائی کے شعبے کے ڈائریکٹر سردار خان کہتے ہیں کہ شہر کے پانی کے ذخائر جولائی تک کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہیں۔ 

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر یکم جولائی 2021 سے پہلے مون سون کی بارشوں کا بھرپور انداز میں آغاز ہو گیا تو پانی کی فراہمی میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔ تاہم اگر مون سون کا آغاز تاخیر سے ہوا تو پھر شہر کو پانی کے بحران کا سامنا ہو سکتا ہے۔ 

سی ڈی اے نے پانی کی سپلائی بڑھانے کے لیے شہر میں 175 ٹیوب ویل بھی نصب کر رکھے ہیں۔ سردار خان کے مطابق ان ٹیوب ویلوں اور ڈیموں سے ان کا محکمہ روزانہ اسلام آباد کو 60 ملین گیلن پانی مہیا کر رہا ہے تاہم وہ تسلیم کرتے ہیں کہ شہر میں پانی کی روزانہ طلب اس سے دگنی ( 120 ملین گیلن) ہے۔

کاشف عباسی اسلام آباد سے تعلق رکھنےو الے صحافی ہیں۔ وہ شہر میں پانی کی کمی سے متعلق مسائل پر رپورٹنگ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پانی کی کمی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس شہر کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کے مطابق 20 سال پہلے یہاں پانچ لاکھ لوگ رہتے تھے جبکہ 2017 کی مردم شماری کے نتائج بتاتے ہیں کہ اسلام آباد کی آبادی 20 لاکھ سے زیادہ ہو گئی ہے۔ 

کاشف عباسی کا کہنا ہے کہ شہر کی آبادی میں تیزی سے اضافے کے باوجود انتظامیہ نے پچھلے 20 سالوں میں پانی کی فراہمی بڑھانے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ اسی طرح شہر کو پانی فراہم کرنے کے لئے بنائے گئے نظام میں بھی کئی خرابیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ مثال کے طور پر پانی کی سپلائی لائنیں جگہ جگہ ٹوٹ پھوٹ گئی ہیں لہٰذا انہیں بڑے پیمانے پر مرمت کی ضرورت ہے۔ 

محمد طاہر اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ شہر کے بہت سے علاقوں میں لوگ سی ڈی اے کی پائپ لائنیں توڑ کر پانی چوری کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق "ہم نے کئی مرتبہ سی ڈی اے کو اس چوری کی شکایت درج کرائی ہے مگر ہماری بات پر کسی نے کان نہیں دھرے"۔

سی ڈی اے کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ سی ڈی اے کے پاس ان تمام مسائل کو حل کرنے کے لیے مالی وسائل نہیں ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت اسلام آباد کو تربیلا ڈیم سے پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے ایک منصوبے پر کام کر رہی ہے جس پر اندازاً 1.2 ارب امریکی ڈالر خرچ ہوں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت اس منصوبے کے لیے چین کے ایک بینک سے قرض لینے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔

لندن میں مقیم ماہرِ ماحولیات دانش مصطفیٰ کچھ عرصہ پہلے تک اسلام آباد میں کام کرتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شہر میں پانی کے مسائل زیادہ تر ناقص انتظام اور پانی کی تقسیم کے نظام کی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کا نتیجہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں: "سب سے پہلی خرابی تو یہ ہے کہ سی ڈی اے نے عام لوگوں کو گھروں میں ٹیوب ویل لگانے کی اجازت دے رکھی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ شہر میں زمین سے بغیر کسی قاعدے قانون کے پانی نکالے جانے کے نتیجے میں زیرِ زمین پانی کی سطح تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ڈیموں میں مٹی جمع ہو رہی ہے جس سے ان میں پانی اکٹھا کرنے کی صلاحیت کم ہوتی جا رہی ہے جبکہ تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ پانی کی تقسیم کے نظام کا ناقص انتظام اور اس کی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے سے بڑے پیمانے پر پانی ضائع اور چوری ہو رہا ہے"۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ مسائل حل ہو جائیں تو پھر اسلام آباد میں پانی کی کوئی کمی نہیں ہو گی۔

ان مسائل کو حل کرنے کے لیے وہ تجویز کرتے ہیں کہ سی ڈی اے غیر قانونی ٹیوب ویل بند کرائے اور زیر زمین پانی کو ٹیوب ویلوں کے ذریعے نکالنے کو کسی قاعدے قانون کے تحت لے کر آئے، پانی کے مناسب نرخ مقرر کیے جائیں اور اس کے بلوں کی وصولی باقاعدہ بنائی جائے۔ اسی طرح ان کا کہنا ہے کہ خاص طور پر سیلاب کے موسم میں ڈیموں سے مٹی نکالی جائے اور نگرانی اور دیکھ بھال کا نظام بہتر بنا کر پانی کے ضیاع اور چوری کا روکا جائے۔ 

دانش مصطفیٰ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب کبھی پانی کی ترسیل میں کمی واقع ہو تو باغات اور لانوں کو پانی دینے اور پانی کو گھروں کے بیرونی حصوں میں استعمال کرنے پر پابندی عائد کی جائے۔ لیکن ساتھ ہی وہ خبردار بھی کرتے ہیں کہ اگر سی ڈی اے نے پانی کی تقسیم کے بوسیدہ نظام کو فوری طور پر درست نہ کیا تو  مستقبل میں موجودہ صورتِ حال بدتر ہو جائے گی۔

یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 31 مئی 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔

تاریخ اشاعت 27 مئی 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

thumb
سٹوری

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

arrow

مزید پڑھیں

یوسف عابد

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.