پیاس کے شہر میں دریا کا سراب: حکومتی نا اہلی کے باعث گلگت کے شہری آلودہ پانی استعمال کرنے پر مجبور۔

postImg

کرن قاسم

postImg

پیاس کے شہر میں دریا کا سراب: حکومتی نا اہلی کے باعث گلگت کے شہری آلودہ پانی استعمال کرنے پر مجبور۔

کرن قاسم

گلگت شہر کے علاقے کنوداس کی رہائشی 14 سالہ ندا روزانہ تقریباً آٹھ سو میٹر پیدل چل کر اپنے گھر کے لیے درکار پانی دریائے گلگت سے بھر کر لاتی ہیں۔ سردی ہو یا گرمی، ان کا یہی معمول ہے کیونکہ، ان کے مطابق، ان کے گھر میں لگا ہوا سرکاری نل بہت کم وقت کے لیے اور بہت محدود مقدار میں پانی فراہم کرتا ہے۔ 

پچھلے سال ان کی ایک ہم عمر سہیلی اور دو خواتین مختلف مواقع پر دریا کے کنارے کپڑے دھوتے ہوئے پاؤں پھسل جانے سے ڈوب کر ہلاک ہو گئی تھیں۔ اس کے باوجود ندا کا کہنا ہے کہ وہ روزانہ اس خطرے کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔ 

گلگت شہر ہی کی مجاہد کالونی میں رہنے والی 55 سالہ زینب بی بی بھی پچھلے 35 سال سے پینے کا پانی بھرنے اور کپڑے دھونے کے لیے دریائے گلگت پر جا رہی ہیں۔ ان کا گھر دریا سے تقریباً تین سو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور وہ کہتی ہیں کہ چاہے سخت گرمی ہو یا برف پڑ رہی ہو انہیں ہر طرح کے موسم میں تقریباً روزانہ دریا پر جانا پڑتا ہے کیونکہ سرکاری نل سے انہیں اپنی گھریلو ضرورریات کے لیے درکار پانی نہیں ملتا۔ 

کنوداس کی مسلم کالونی کے رہنے والے نذر شاہ کو بھی یہی شکایت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ 22 برس سے اس محلے میں مقیم ہیں لیکن اس تمام عرصے میں انہیں کبھی بھی سرکاری ذرائع سے ضروری مقدار میں پانی نہیں ملا۔ 

وہ اس سلسلے میں حکومت سے اس قدر مایوس ہو چکے ہیں کہ انہوں نے باقی اہلِ محلہ سے مل کر اپنی مدد آپ کے تحت دریا میں بجلی کی ایک موٹر لگا لی ہے جو دریائی پانی کھینچ کر گھر گھر پہنچاتی ہے۔ اسے چالو رکھنے کے لیے ہر مقامی گھرانے سے ہر ہفتے ایک ہزار روپے وصول کیے جاتے ہیں۔

گلگت میں پانی کی فراہمی کے ذمہ دار ادارے واٹر اینڈ سینی ٹیشن ایجنسی (واسا) کے ایگزیکٹو انجینئر سہیل کاشف بھی تسلیم کرتے ہیں کہ شہر کے اکثر علاقوں میں گھریلو ضروریات کے لیے درکار پانی مناسب مقدار میں دستیاب نہیں۔ اس کے ایک اہم سبب کی نشاندہی کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ بہت سے بااثر مقامی لوگوں نے پانی کی سرکاری پائپ لائنوں میں غیرقانونی نل نصب کر رکھے ہیں جن کے ذریعے وہ بڑی مقدار میں پانی چوری کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق کچھ لوگ تو چوری کے اس پانی سے اپنی فصلیں بھی سیراب کر رہے ہیں۔ تاہم وہ شکوہ کرتے ہیں کہ شہری انتظامیہ نے ان پانی چوروں کے خلاف کبھی کوئی موثر کارروائی نہیں کی اور نہ ہی کبھی ان کے غیرقانونی نلوں کو بند کیا ہے۔  

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پچھلی تین دہائیوں میں گلگت شہر کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے لیکن واسا کو فراہم کیے جانے والے مالی وسائل کو اسی تناسب سے بہتر نہیں بنایا گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس محکمے کا "سالانہ بجٹ چھ کروڑ روپے ہے اور یہ رقم بھی ہمیں بروقت دستیاب نہیں ہوتی"۔

 مسلم کالونی کنوداس میں پینے کے پائپ لائن کو نکاسی آب کی نالی سے گزارا گیا ہے مسلم کالونی کنوداس میں پینے کے پائپ لائن کو نکاسی آب کی نالی سے گزارا گیا ہے

ان کے مطابق یہ رقم اس قدر قلیل ہے کہ اس سے پانی کی فراہمی کے موجود نظام کو بھی ٹھیک طرح سے نہیں چلایا جا سکتا۔ نتیجتاً "صاف پانی کی طلب اور اس کی فراہمی کے درمیان فرق بہت بڑھ گیا ہے"۔

کروڑوں روپے کے ہوائی وعدے

گلگت کو برمس نامی مقام پر بنائی گئی چھوٹی بڑی نو ٹینکیوں سے پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ پانی کارگاہ نالے سے لیا جاتا ہے جو شہر سے پانچ کلومیٹر دور بہتا ہے۔ اس نالے کے پانی کو لفٹ پمپوں کے ذریعے کھینچ کر بلندی پر واقع ٹینکیوں میں پہنچایا جاتا ہے جہاں سے اسے پائپ لائنوں کے ذریعے گھروں تک لے جایا جاتا ہے۔ 

یہ ٹینکیاں 1988 میں بنائی گئی تھیں جب گلگت کی آبادی تقریباً 55 ہزار تھی۔ اگرچہ 2017 کی مردم شماری کے مطابق گلگت کی آبادی چار لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے اس کے باوجود اسے پانی فراہم کرنے والے سرکاری نظام میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ مقامی آبادی کا ایک بڑا حصہ دریا کا پانی استعمال کرنے پر مجبور ہے۔ 

مقامی لوگوں کو یہ شکایت بھی ہے کہ ٹینکیوں سے آنے والا پانی انسانی استعمال کے قابل ہی نہیں رہا۔ کشروٹ نامی علاقے کے رہائشی محمد زبیر بتاتے ہیں کہ ایک دن انہوں نے نل کھولا تو اس میں سے پانی کے ساتھ ایک مردہ مینڈک بھی برآمد ہوا۔ 

کنو داس کے رہائشی ناصر خان کے مطابق اس آلودگی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بالائے زمین بچھائی گئی پانی کی پائپ لائنیں کئی جگہ بالکل بوسیدہ ہو چکی ہیں جبکہ بہت سے مقامات پر یہ بوسیدہ پائپ لائنیں سیوریج کے پائپوں کے بیچوں بیچ گزرتی ہیں جہاں ان میں گندا پانی بھی شامل ہو جاتا ہے۔ 

ان شکایات کی توثیق پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز نامی وفاقی ادارہ بھی کر چکا ہے۔ اس کے اہل کاروں نے گزشتہ سال اکتوبر میں گلگت کے مختلف مقامات سے لیے گئے پانی کے نمونوں کا تجزیہ کرنے کے بعد تیار کردہ اپنی رپورٹ میں لکھا کہ اس شہر میں پینے کا تمام پانی آلودہ ہو چکا ہے۔ 

گلگت بلتستان کے محکمہ تحفظِ ماحولیات کی ایک رپورٹ بھی پینے کے مقامی پانی میں ٹائیفائیڈ پھیلانے والے جراثیم کی موجودگی کی تصدیق کر چکی ہے۔ اس محکمے کے ڈائریکٹر شہزاد شگری کا کہنا ہے کہ مقامی لوگوں کو فراہم کیا جانے والا نالوں، گلیشیئروں اور چشموں کا پانی صحت کے لیے اچھا نہیں ہے۔ ان کے مطابق  گرمیوں میں اس کی آلودگی خاص طور پر بڑھ جاتی ہے کیونکہ اس موسم میں مال مویشی بھی مقامی ندی نالوں میں نہاتے ہیں اور یوں ان کا فضلہ بھی ان کے پانی میں شامل ہو جاتا ہے۔

دریائے گلگت بھی اسی طرح مسلسل آلودہ ہوتا جا رہا ہے۔

ایک طرف تو شہر کے مختلف محلوں جیسا کہ کوٹ، ڈاک پورہ، تھوپ اور محلہ بازار کا استعمال شدہ گندا پانی چار نالوں کے ذریعے اس میں گر رہا ہے اور دوسری جانب کھاری بسین نامی علاقے میں قائم ایک مذبح خانہ سے نکلنے والی غلاظت بھی اس میں ڈالی جا رہی ہے۔ اسی طرح مقامی لوگوں کی ایک بڑی تعداد دریا میں ہی اپنے کپڑے دھوتی ہے اور گرمیوں میں نہاتی بھی وہیں ہے۔ 

پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کی طرف سے کیے گئے تجزیے کے مطابق، ان تمام سرگرمیوں کے نتیجے میں دریا کے پانی میں ٹائیفائیڈ سمیت متعدد بیماریوں کے جراثیم پیدا ہو گئے ہیں۔ گلگت ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال کے میڈیکل سپیشلسٹ ڈاکٹر رازق حسین بھی اس مسئلے کی نشان دہی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ گندے دریائی پانی کے استعمال سے مقامی لوگوں میں ہیضہ، ہیپا ٹائٹس اور ٹائیفائیڈ جیسی بیماریاں عام ہو رہی ہیں۔ ان کے مطابق "گزشتہ سال ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال میں ہیضے کے تقریباً پانچ سو مریضوں کا علاج کیا گیا جبکہ اس میں علاج کے لیے آنے والے ہیپاٹائٹس اور ٹائیفائیڈ کے مریضوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ ان کا ریکارڈ رکھنا بھی ایک مشکل کام ہے"۔

چھموگڑھ کالونی  کنوداس میں پانی ذخیرہ کرنےوالا واٹر ٹینکچھموگڑھ کالونی  کنوداس میں پانی ذخیرہ کرنےوالا واٹر ٹینک

ان مسائل کے حل کے لیے گلگت بلتستان کی علاقائی حکومت نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ 50 کروڑ روپے کی لاگت سے شہر کو پانی فراہم کرنے کے لیے ایک نیا اور مربوط نظام قائم کیا جائے گا۔ اس میں پانی کی موجودہ ٹینکیوں کی دیکھ بھال اور صفائی کے ساتھ ساتھ نئی ٹینکیوں کی تعمیر بھی شامل ہو گی۔ لیکن واسا کے ایگزیکٹو انجینئر سہیل کاشف کہتے ہیں کہ اس منصوبے کو ابھی تک باقاعدہ منظوری نہیں مل سکی۔ 

تاہم گلگت بلتستان کے وزیر اطلاعات فتح اللہ خان دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ منصوبہ جلد ہی مکمل ہو جائے گا۔ ان کے مطابق کنو داس کی پہاڑی پر بنائی جانے والی نئی ٹینکیوں میں 28 لاکھ گیلن پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہو گی جو دریائے گلگت سے لفٹ پمپوں کے ذریعے ان میں ڈالا جائےگا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس منصوبے کے تحت ہر ہفتے ٹینکیوں کی صفائی کی جائے گی، ان میں جراثیم کش ادویات ڈالی جائیں گی اور ان کے پانی کا باقاعدگی سے تجزیہ کیا جائے گا۔ 

گلگت ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر عارف حسین بھی اسی طرح کا دعویٰ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس منصوبے پر کافی کام پہلے ہی کیا جا چکا ہے جبکہ اس کا بقایا کام بھی حکومت سے مطلوبہ رقم بروقت دستیاب ہونے کی صورت میں اگلے دو مہینے میں مکمل کر لیا جائے گا۔ 

تاہم مقامی لوگوں کو ان وعدوں پر اعتبار نہیں۔ 

2015 کے گلگت کے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں شامل ایک منصوبے کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ اس کے تحت دریائے گلگت کا پانی لفٹ پمپوں کے ذریعے مجاہد کالونی اور مرکز کالونی نامی محلوں کو فراہم کیا جانا تھا۔ لیکن، ان کے مطابق، اسے اب تک مکمل نہیں کیا جا سکا کیونکہ اسے تعمیر کرنے والا ٹھیکیدار محض ٹینکیاں بنانے کے بعد پائپ بچھائے بغیر ہی غائب ہو گیا ہے۔    

ان لوگوں کا خیال ہے کہ کوئی نیا منصوبہ شروع کرنے کے بجائے اگر یہی نامکمل منصوبہ کسی طرح تکمیل تک پہنچا دیا جائے تو گلگت شہر میں پانی کی کمی کا مسئلہ بڑی حد تک حل ہو سکتا ہے۔ 

تاریخ اشاعت 13 جون 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

کرن قاسم کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے اور وہ گزشتہ 11 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔

سینٹ کے پیچیدہ طریقہ انتخاب کی آسان ترین وضاحت

فیصل آباد: کرسمس کے بعد ایسٹر پر بھی مسیحی ملازمین تنخواہوں سے محروم

گندم: حکومت خریداری میں سنجیدہ نہیں، کسانوں کو کم قیمت ملنے کا خدشہ

thumb
سٹوری

گولاڑچی کے بیشتر کسان اپنی زمینوں کے مالک کیوں نہیں رہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضا آکاش

مسکان مسیح کے والدین کی "مسکان" کس نے چھینی؟

معذوروں کے چہرے پر خوشیاں بکھیرتے کمپیوٹرائزڈ مصنوعی اعضا

thumb
سٹوری

کیا قبائلی اضلاع میں سباون سکولز انشی ایٹو پروگرام بھی فلاپ ہو جائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceخالدہ نیاز
thumb
سٹوری

ضلع میانوالی کے سرکاری کالجوں میں طلباء کی تعداد کم کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفیصل شہزاد

ڈیجیٹل امتحانی نظام، سہولت یا مصیبت؟

سندھ: ہولی کا تہوار، رنگوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا

thumb
سٹوری

پانی کی تقسیم پر آگ کا کھیل: ارسا آرڈیننس، سندھ، پنجاب کی تکرار کو جھگڑے میں بدل سکتا ہے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

وادی تیراہ میں کھاد کی ترسیل اور امن و امان کے درمیان کیا تعلق ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.