شبنم بشیر کو چند ماہ پہلے بخار ہوا تو ان کے جسم کی رنگت زرد پڑنے لگی اور انہیں ہر وقت نقاہت رہنے لگی۔ کچھ روز بعد جب انہوں نے ایک ہسپتال سے معائنہ اور ٹیسٹ کرائے تو انہیں پتہ چلا کہ انہیں یرقان ہو چکا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ "جب ڈاکٹروں نے بتایا کہ مجھے یرقان ہوا ہے تو میرے سر پر قیامت ٹوٹ پڑی"۔ ان کے اس شدید ردِعمل کا سبب یہ پریشانی تھی کہ ان کے "علاج کے اخراجات کیسے پورے ہوں گے" کیونکہ، ان کے مطابق، ان کے شوہر ایک تندور پر روٹیاں لگاتے ہیں جس سے انہیں اتنی کم آمدنی ہوتی ہے کہ اس میں مشکل سے ان کی گزر بسر ہوتی ہے۔
دو بچیوں کی ماں شبنم بشیر کی عمر 31 سال ہے اور وہ آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد کے وسط میں ٹانگہ سٹینڈ نامی ایک پرانی اور گنجان بستی میں دو کمروں کے کرائے کے مکان میں رہتی ہیں۔ ان کے معالجوں کے خیال ہے کہ انہیں یرقان ہونے کی وجہ آلودہ پانی کا استعمال ہے۔
یہ تشخیص صحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ ان کے گھر میں پانی فراہم کرنے والی سرکاری پائپ لائن ان کے محلے کے سامنے سے گزرنے والے ایک گندے نالے کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ یہ لائن اس قدر خستہ حال ہے کہ اس میں نالے کے گندے پانی کا شامل ہو جانا کوئی حیرت کی بات نہیں۔
لیکن شبنم بشیر یہ نہیں جانتیں کہ ان کے گھر میں استعمال ہونے والا پانی انسانی صحت کے لیے کتنا نقصان دہ ہے۔ درحقیقت مظفر آباد میں رہنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد انہی کی طرح لاعلم ہے کہ ان کے گھروں میں فراہم کیا جانے والا پانی کس قدر آلودہ ہے اور اسے پینے کی وجہ سے انہیں کس قسم کے طبی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
تاہم سرکاری اعدادوشمار نشان دہی کرتے ہیں کہ اس پانی کے استعمال کی وجہ سے مظفر آباد میں یرقان اور اسہال جیسے متعدد امراض بڑے پیمانے پر پھیل چکے ہیں۔ شہر کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال، عباس انسٹیٹوٹ آف میڈیکل سائنسز، کے شعبہ شماریات کے مطابق 2017 میں وہاں یرقان کے 16 ہزار نو سو 82 مریض لائے گئے جبکہ 2018 میں ان کی تعداد بڑھ کر 19 ہزار سات سو 97 تک پہنچ گئی۔ اگرچہ پچھلے چار سالوں میں یہ تعداد کچھ کم ہوئی ہے لیکن پھر بھی 2022 کے پہلے پانچ ماہ میں اس مرض میں مبتلا ایک ہزار آٹھ سو دو لوگوں کو اس ہسپتال میں لایا گیا ہے۔
اسی طرح 2017 میں اسہال کے دو لاکھ 82 ہزار دو سو 56 مریض عباس انسٹیٹوٹ آف میڈیکل سائنسز میں علاج کے لیے آئے جبکہ 2018 میں ان کی تعداد تین لاکھ 14 ہزار ایک سو 84 اور 2019 میں تین لاکھ 32 ہزار تین سو 18 ریکارڈ کی گئی۔ اِس سال 30 مئی تک بھی اسہال کا شکار 44 ہزار 56 مریضوں کا یہاں علاج کیا گیا ہے۔
اس ہسپتال کے میڈیکل سپیشلسٹ ڈاکٹر عادل چودھری کا کہنا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا ان امراض میں مبتلا ہونا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ "مظفرآباد اور اس کے گردونواح میں آبی آلودگی کی شرح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے"۔ وہ خبردار کرتے ہیں کہ "اگر اس آلودگی کا تدارک نہ کیا گیا تو اگلے 20 سالوں میں یہاں صحت کا بہت بڑا بحران جنم لے سکتا ہے"۔
سرکاری جائزے، عوامی ضروریات
اسد غلام دین 28 سال کے پڑھے لکھے انسان ہیں۔ لیکن حال ہی میں وہ مظفرآباد شہر سے دو میل مغرب میں دریائے نیلم اور دریائے جہلم کے اتصال پر واقع ایک تاریخی بارہ دری کے سامنے ایک ایسے چشمے سے پانی بھرنے والے لوگوں میں شامل ہیں جس کے پاس لگے بورڈ پر واضح طور پر لکھا ہے کہ اس کا پانی پینے کے قابل نہیں۔ وہ اس اِنتباہ کی موجودگی سے آگاہ ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ "ہم یہی پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ سرکاری سپلائی کے ذریعے ہمارے گھروں میں آنے والا پانی نہ صرف ہماری ضروریات سے بہت کم ہے بلکہ اس میں پائی جانے والی آلودگی اِس چشمے کی آلودگی سے کہیں زیادہ خطرناک ہے"۔
یہ بورڈ آزاد کشمیر کے ادارہ تحفظ ماحولیات ( ای پی اے ) نے لگایا ہے جس کے ڈائریکٹر شفیق عباسی کا کہنا ہے کہ انہوں نے مظفرآباد اور اس کے گردونواح میں عوام کی آگاہی کے لئے ایسے کئی بورڈ نصب کیے ہیں۔ ان کی تنصیب کی وجہ بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ان کے ادارے نے "2013 اور 2019 میں دو سروے کیے جن سے پتہ چلا کہ اس علاقے میں واقع متعدد چشموں اور ندی نالوں کا پانی انتہائی آلودہ ہو چکا ہے"۔
وفاقی حکومت کے تحقیقی ادارے، پاکستان کونسل فار ریسرچ اِن واٹر ریسورسز، نے بھی 2015 اور 2020 میں دوبار مظفرآباد کے پانی کا جائزہ لیا جن کے نتیجے میں اس نے انکشاف کیا کہ یہاں استعمال ہونے والا 70 فیصد پانی غیر محفوظ ہو چکا ہے۔ ان میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ نہ صرف شہر کے آس پاس پائے جانے والے زیادہ تر ندی نالوں اور چشموں کا پانی زہریلا ہو چکا ہے بلکہ اس میں سے گزرنے والے دریائے نیلم اور اس کے نواح میں بہنے والے دریائے جہلم کا پانی بھی انسانی استعمال کے قابل نہیں رہا۔
ناکام منصوبے، خاموش ادارے
1998 کی مردم شماری کے مطابق مظفر آباد کی آبادی چار لاکھ 54 ہزار تھی جو 2017 میں بڑھ کر چھ لاکھ 50 ہزار ہو گئی ہے۔ اکتوبر 2005 میں آنے والے زلزلے کے بعد آزاد کشمیر کے دیہی علاقوں سے یہاں منتقل ہونے والے لوگ اس کے علاوہ ہیں جن کی اصل تعداد کے بارے میں کوئی سرکاری اعدادوشمار موجود نہیں۔
مظفر آباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین اظہر گیلانی کہتے ہیں کہ یہ نقل مکانی شہر کے پانی کی آلودگی کی ایک اہم وجہ ہے۔ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ "زلزلے کے بعد شہر میں آنے والے لوگوں کو مکانوں کی تعمیر کے لئے اجازت نامے جاری کرتے ہوئے تعمیراتی قواعدوضوابط کو بالکل نظرانداز کیا گیا جس کے نتیجے میں قدرتی ندی نالوں اور چشموں کے ارد گرد بڑی تعداد میں انسانی بستیاں بن گئی ہیں" جن کا کچرا انہی ندی نالوں اور چشموں کے اردگرد پھینکا جا رہا ہے۔ اسی طرح، ان کے مطابق، "ان آبادیوں سے گندے پانی کی نکاسی کے لیے زیرزمین پائپ لائنیں بھی نہیں بچھائی گئیں چنانچہ یہ پانی کھلے نالوں سے گزرتا ہوا آبی گزر گاہوں میں شامل ہو رہا ہے"۔
شفیق عباسی ان کے موقف کی تائید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "شہر کی آبادی میں بے ہنگم اضافے کی وجہ سے" اس کے مضافات میں ایسی دشوار گزار جگہوں پر بھی بستیاں بنا دی گئی ہیں" جہاں گندے پانی کی نکاسی جیسی شہری سہولتیں فراہم کرنے کے لیے "سرکاری ادارے کبھی پہنچ ہی نہیں پاتے"۔
مظفرآباد میونسپل کارپوریشن کے سٹیٹ آفیسر انجم بلال پانی کی آلودگی کی ایک اور وجہ کی نشان دہی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ شہر میں "روزانہ تقریباً 50 ٹن سے 55 ٹن کوڑا کرکٹ پیدا ہوتا ہے جسے تلف کرنے کا کوئی انتظام موجود نہیں۔ اس لیے اسے مقامی دریاؤں اور ندی نالوں میں پھینک دیا جاتا ہے"۔
یہ بھی پڑھیں
سنگِ مرمر کی فیکٹریوں کا کیمیائی فضلہ: 'بونیر کے ندی نالوں سے مچھلیاں ختم ہو گئی ہیں اور ان کا پانی مقامی زمینوں کو بنجر کر رہا ہے'۔
مظفر آباد کے ایک سماجی کارکن فیصل جمیل کشمیری بھی اسی مسئلے کو پانی کی آلودگی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اسے حل کرنے کے لیے "2019 میں شہر کی انتظامیہ نے دفعہ 144 نافذ کر کے دریائے نیلم میں کوڑا پھینکنے پر پابندی بھی لگائی لیکن اس پر عمل درآمد کرانے کے لیے کوئی عملی اقدامات نہ کیے گئے اور یوں شہر کا کچرا آبی گزرگاہوں کا حصہ ہی بنتا رہا"۔
اُسی سال وفاقی حکومت کے ادارے، واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا)، کی جانب سے آزاد کشمیر کی حکومت کو تقریباً 30 کروڑ روپے بھی فراہم کیے گئے تاکہ مقامی دریاؤں اور ندی نالوں کو کوڑے کرکٹ سے پاک کیا جا سکے۔ لیکن فیصل جمیل کشمیری کہتے ہیں کہ "اس کے باوجود ان آبی وسائل کی آلودگی میں کوئی کمی نہیں آئی"۔
مقامی سرکاری اہل کار تسلیم کرتے ہیں کہ یہ مسئلہ اتنا شدید ہے کہ انہیں اس کا کوئی فوری حل نظر ہی نہیں آ رہا۔ ان میں سے ایک کا کہنا ہے کہ دراصل "حکومت کے پاس اتنے مالی وسائل ہی نہیں کہ وہ آبی آلودگی پر قابو پانے کا کوئی مستقل بندوبست کر سکے"۔
تاریخ اشاعت 9 اگست 2022