لیاقت ڈوگر کی حویلی کے مشرق میں دور دور تک سبزہ پھیلا ہوا ہے جس میں جا بجا کِھلی پھول گوبھی اور پیلی سرسوں اس کی دلکشی میں اضافہ کر رہے ہیں۔ حویلی کے اردگرد قسم قسم کے پرندوں کی چہچہاہٹ اور مختلف حشرات الارض کی بھنبھناہٹ بھی واضح سنائی دیتی ہے۔ لیکن اگر یہاں ایک مجوزہ حکومتی منصوبے کی تعمیر شروع ہو گئی تو نہ صرف یہ تمام سبزہ غائب ہو جائے گا بلکہ پرندوں اور کیڑوں مکوڑوں کی آوازیں بھی مشینری کے شور میں دب جائیں گی۔
نومبر 2021 کے اواخر میں لیاقت ڈوگر حویلی کے اندر چارپائی پر بیٹھے کچھ لوگوں کے ساتھ مل کر حقہ پی رہے ہیں اور اپنے ارد گرد پھیلی اراضی کی زرخیزی کی تعریفیں کر رہے ہیں۔ ان کے بقول یہ "زمین اس قدر زرخیز ہے کہ اس میں کسی مردے کو بھی دفن کر دیا جائے تو وہ چند روز میں ایک پودے کی شکل میں اگ آئے گا"۔
وہ لاہور کی رِنگ روڈ سے تین کلومیٹر مشرق میں واقع گاؤں گنج سِدھواں کے رہائشی ہیں۔ ان کے مطابق مقامی زمین کے ایک بڑے حصے پر واٹر اینڈ سینی ٹیشن ایجنسی (واسا) لاہور کو پانی فراہم کرنے کے لیے ایک منصوبہ تعمیر کرنا چاہ رہی ہے۔ اس منصوبے کے لئے درکار زمین کا 90 فیصد حصہ گنج سدھواں جبکہ 10 فیصد حصہ اس کے مشرق میں واقع موضع نت کلاں میں واقع ہے۔ لیاقت ڈوگر کے خاندان کی 60 ایکڑ اراضی بھی اس میں شامل ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ انہیں اس زمین سے جذباتی لگاؤ ہے کیونکہ، ان کے مطابق، 1947 میں امرتسر سے ہجرت کر کے ان کا خاندان یہیں آباد ہوا تھا۔ وہ خود بھی 70 سال پہلے اسی جگہ پیدا ہوئے تھے۔ ان کے بقول "اس زمین سے ہمیں اتنا پیار ہے کہ ہم اس سے مٹی بھی نہیں اٹھاتے تاکہ اس کی زرخیزی میں کوئی کمی نہ آئے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری آنے والی نسلوں تک یہ زمین اسی طرح زرخیز ہی رہے"۔
پانی صاف کرنے کے پلانٹ کو کتنی زمین چاہیے
اس منصوبے کی تعمیر کے لیے قرض فراہم کرنے والے بین الاقوامی ادارے ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک (اے آئی آئی بی) کی ویب سائٹ پر موجود دستاویزات کے مطابق لاہور میں پینے کے پانی کی تمام تر طلب زیرِ زمین پانی سے پوری کی جاتی ہے جو پانچ سو 85 ٹیوب ویلوں کے ذریعے زمین سے نکالا جاتا ہے۔ اس طریقے سے واسا روزانہ 24 لاکھ پچاس ہزار کیوبک میٹر پانی نکالتا ہے جبکہ نجی رہائشی سکیمیں، سرکاری کالونیاں، صنعتیں، کنٹونمنٹ بورڈ اور مقامی حکومتیں روزانہ 12 لاکھ کیوبک میٹر پانی نکالتے ہیں۔
لیکن پچھلے کچھ سالوں میں لاہور کے زیرِزمین پانی کی سطح میں تیزی سے ہونے والی کمی کے پیشِ نظر واسا نے طے کیا ہے کہ شہر کے مشرق میں انڈیا کی سرحد کے متوازی بہنے والی بمبانوالہ-راوی-بیدیاں رابطہ نہر سے روزانہ ایک سو مکعب فٹ فی سیکنڈ (کیوسک) پانی لے کر اسے ایک جدید پلانٹ میں صاف کیا جائے گا اور پھر اسے 55 پائپ لائنوں کے ذریعے شہر کے مختلف علاقوں کو مہیا کیا جائے گا۔ واسا حکام کے مطابق حکومت پنجاب اور اے آئی آئی بی کے درمیان اس کے لیے قرض کی فراہمی کے معاہدے پر ابھی دستخط نہیں ہوئے لیکن اس کے لیے زمین کے حصول کا عمل نہ صرف شروع ہو گیا ہے بلکہ اس میں کئی تنازعے بھی سامنے آ رہے ہیں۔
ابتدائی طور پر اس منصوبے کے لیے تین مختلف جگہوں کی نشان دہی کی گئی۔ ان میں سے پہلی جگہ بھسین اور جنڈیالہ نامی دیہات میں بی آر بی نہر سے 30 میٹر کی دوری پر ہے۔ دوسری جگہ گنج سدھواں اور نت کلاں میں نہر سے ساڑھے چار کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ جبکہ تیسری جگہ لاہور رنگ روڈ سے ایک کلومیٹر شمال مشرق میں موضع ہانڈو اور لکھوڈیر میں واقع ہے۔
واسا نے ان میں سے گنج سدھواں-نت کلاں میں واقع جگہ منتخب کی ہے حالانکہ اس کے اپنے جائزے کے مطابق یہاں منصوبے کی تعمیر کی صورت میں 11 زرعی عمارات اور 15 زرعی ٹیوب ویل متاثر ہوں گے جبکہ بھسین اور جنڈیالہ میں چھ دکانیں، 10 زرعی عمارات اور نو ٹیوب ویل متاثر ہوتے۔
لیاقت ڈوگر کا کہنا ہے کہ اگر نہر کے آس پاس کوئی زمین خالی نہ ہوتی تو "عوامی فلاح کے اس منصوبے کی خاطر ان کے گھر بھی گرا دیے جاتے تو انہیں کوئی اعتراض نہ ہوتا"۔ لیکن، ان کے مطابق، گنج سدھواں سے مشرق کی جانب (لیکن رابطہ نہر سے پہلے) سینکڑوں ایکڑ ایسی زمین موجود ہے جہاں فصلیں کاشت نہیں ہوتیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پلانٹ وہیں لگایا جانا چاہیے۔
لاہور ہائی کورٹ کے وکیل اظہر صدیق بھی پلانٹ کے لئے منتخب کی جانے والی زمین پر معترض ہیں۔ انہوں نے اس منصوبے کو رکوانے کے لئے ایک عدالتی پٹیشن دائر کر رکھی ہے اور واسا حکام سے کہتے ہیں کہ "پلانٹ ضرور لگائیں لیکن اسے زرخیز زمین پر مت لگائیں بلکہ اس کے لئے بنجر اور سستی زمین کا انتخاب کریں"۔
انہوں نے اپنی پٹیشن میں یہ نکتہ بھی اٹھایا ہے کہ گنج سدھواں اور نت کلاں کی زمین لاہور کے ماسٹر پلان میں سرسبز علاقے کے طور پر مختص کی گئی ہے جہاں ایک صنعتی پلانٹ کی تنصیب حکومت کے اپنے قواعدوضوابط کی خلاف ورزی ہے۔ ان کے اس اعتراض کی توثیق منصوبے کے حوالے سے کیے گئے سرکاری ماحولیاتی تجزیے سے بھی ہوتی ہے جس کے مطابق اس کے لیے مختص کی جانے والی ساری کی ساری اراضی زرعی ہے۔
اس اراضی کے حصو ل کے لیے پہلا نوٹیفکیشن لاہور کے لینڈ ایکوزیشن کلکٹر نے 29 اپریل 2019 کو جاری کیا جس میں کہا گیا کہ اس منصوبے کے لیے 315 ایکڑ زمین درکار ہے۔ لیکن جب متعلقہ زمین کے مالکان نے لاہور ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی کہ اس کے لیے ضرورت سے زیادہ رقبہ لیا جا رہا ہے تو نتیجتاً عدالت نے حصولِ اراضی کا عمل روک دیا۔
بعد ازاں 31 جنوری 2020 کو ایک نیا سرکاری نوٹیفکیشن جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ منصوبے کے لیے صرف ایک سو 20 ایکڑ زمین درکار ہے۔ لیکن مالکانِ اراضی اس نوٹیفکیشن کے خلاف بھی لاہور ہائی کورٹ میں چلے گئے جس نے اس بنیاد پر اسے منسوخ کر دیا کہ اس کے اجرا سے پہلے مالکانِ اراضی کے اعتراضات نہیں سنے گئے۔
اظہر صدیق نے بھی اپنی عدالتی درخواست میں انکشاف کیا ہے کہ اس منصوبے کے بارے میں پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کے محکمے میں 13 اکتوبر 2017 اور 5 دسمبر 2017 کو ہونے والے میٹنگوں میں کہیں تین سو 15 ایکڑ زمین کا ذکر نہیں کیا گیا بلکہ ان میٹنگوں کے دوران اس کے لئے درکار زمین کا رقبہ دو سو ایکڑ بتایا گیا تھا۔ تاہم اس کے برعکس واسا نے اے آئی آئی بی کو یہی بتایا کہ اس کے لیے تین سو 24 ایکڑ زمین چاہیے۔
واسا کے ترجمان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ منصوبے کے لیے فی الحال تقریباً سو ایکڑ زمین ہی چاہیے لیکن ابتدا میں تین سو 15 ایکڑ کے حصول کی کوشش اس لیے کی گئی کہ مستقبل میں پلانٹ کی استعداد میں اضافہ کرنے کے لیے درکار زمین بھی ابھی سے لے لی جائے۔
زمین کے حصول میں بے قاعدگی اور بدعنوانی
منصوبے سے متعلقہ عدالتی دستاویزات ایک اور انکشاف بھی کرتی ہیں۔ ان کے مطابق 2019 میں گنج سدھواں-نت کلاں میں پلانٹ کی تعمیر کی داغ بیل ڈالے جانے سے دو سال پہلے واسا نے اسی منصوبے کے لیے ایک بالکل ہی مختلف جگہ منتخب کی تھی جو ضلع شیخوپورہ کے گاؤں غازی ککے کے قریب راوی سائفن نامی مقام پر واقع بنجر زمیں پر مشتمل تھی۔
درحقیقت پنجاب حکومت نے حصولِ اراضی کے قانون کے تحت یہاں تین سو ایکڑ سے زیادہ اراضی حاصل بھی کر لی تھی۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ آیا یہ جگہ پلانٹ کی تعمیر کے لیے موزوں ہے یا نہیں واسا نے تعمیراتی امور کی ماہر دو کمپنیوں کی خدمات بھی حاصل کی تھیں جنہیں ان کے کام کے عوض سرکاری خزانے سے ادائیگی بھی کی گئی تھی۔
لیکن پھر اچانک اس منصوبے کو غازی ککے سے 20 میل جنوب میں گنج سدھواں اور نت کلاں میں منتقل کر دیا گیا جہاں اس کے موزوں ہونے یا نہ ہونے کا تعین کرنے کے لیے تعمیراتی امور کی ماہر ایک تیسری کمپنی کو بطور کنسلٹنٹ رکھا گیا ہے۔
گنج سدھواں کے رہائشی وکیل جہانگیر ڈوگر کے خیال میں منصوبے کی منتقلی کی وجہ یہ تھی کہ واسا نے پنجاب حکومت سے اس کی منظوری لیے بغیر ہی غازی ککے میں زمین کے حصول کا عمل مکمل کر لیا تھا۔ چنانچہ، ان کے مطابق، "جب صوبائی محکمہ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کے سربراہ نے اس کی منظوری نہیں دی تو اس میں ہونے والی بے قاعدگیوں کو چھپانے کے لئے اسے دوسری جگہ منتقل کر دیا گیا"۔
جہانگیر ڈوگر نے نہ صرف اس منتقلی کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کر رکھی ہے بلکہ انہوں نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو بھی ایک درخواست دی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ واسا کے افسران نے "اپنے عہدوں کا غلط اور ناجائز استعمال کرتے ہوئے" منصوبے کو غازی ککے سے گنج سدھواں منتقل کیا جس سے اس کی لاگت بڑھ گئی اور "قومی خزانے کو نقصان پہنچا جو کہ مالی بدعنوانی کے زمرے میں آتا ہے"۔
اظہر صدیق دعویٰ کرتے ہیں کہ منتقلی کی وجہ سے منصوبے کی لاگت 14 بلین روپے سے بڑھ کر 22 بلین روپے تک پہنچ گئی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ واسا نے ایک ہی منصوبے کے لیے تین مختلف ماہر کمپنیوں کی خدمات حاصل کر کے پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی کے قواعدوضوابط کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔
واسا کے ترجمان اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ غازی ککے میں پلانٹ کی تنصیب کا منصوبہ محکمہ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ نے منظور نہیں کیا تھا لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس کی منتقلی کی وجہ اس منظوری کی عدم موجودگی نہیں تھی بلکہ، ان کے مطابق، اس کی وجہ تکنیکی ہے جس کے باعث منصوبے کو نہر کے بالائی علاقے سے اس کے زیریں علاقے میں منتقل کر کے اسے لاہور کے پاس لایا گیا ہے۔
وہ اس بات کی بھی تردید کرتے ہیں کہ اس منصوبے کے لئے کنسلٹنٹ بدلے گئے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ابھی تک ایک ہی کنسلٹنٹ کمپنی نے اس کے موزوں یا غیرموزوں ہونے کے بارے میں رپورٹ تیار کی ہے۔
تاہم 19 دسمبر 2018 کو انگلش اخبار دی نیوز میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق اے آئی آئی بی کے ایک وفد نے ڈاکٹر شکیل خان کی قیادت میں پلانٹ کی تنصیب کے حوالے سے واسا کے دفتر میں ہونے والے ایک اجلاس میں شرکت کی جس میں تین کنسلٹنٹ کمپنیوں، آئی ایل ایف ، ایم پی پی اور جی 3، کے نمائندے بھی موجود تھے۔
تاریخ اشاعت 6 دسمبر 2021