پینتیس سالہ مشتاق شیخ، ضلع ٹانک میں ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر سے 10 کلومیٹر مشرق میں واقع گاؤں ڈیال کے کاشت کار ہیں۔ وہ اپنا 200 ایکڑ رقبہ خود کاشت کرتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ پچھلے سال اگرچہ انہوں نے گندم زیادہ کاشت نہیں کی تھی۔ پھر بھی ایک ہزار من سے زیادہ پیداوار حاصل کی تھی۔ تاہم رواں سال انہوں نے اپنے سارے رقبے پر گندم اگانے کا فیصلہ کیا اور زمین بوائی کے لیے بھی تیار ہے۔
مشتاق بیج کھاد خرید چکے ہیں اور بیچائی کی تیاریاں مکمل ہیں لیکن اب تک ایک مرلہ گندم بھی کاشت نہیں کر پائے۔
وہ بتاتے ہیں کہ یہاں پانی فراہم کرنے والی وارن کینال دو ماہ سے خشک پڑی ہے اور علاقے کے سب کسان پانی کا انتظار کر رہے ہیں۔ چند روز میں آبپاشی کے لیے پانی نہ ملا تو ان کی فصل کاشت نہیں ہو سکے گی۔
"اس سے نا صرف ہماری ساری محنت ضائع ہو جائے گی بلکہ علاقے کے کسان مزدور سب تباہ ہو جائیں گے۔ ہماری تو زندگی اور روزی روٹی کا واحد ذریعہ ہی کھتی باڑی ہے۔"
نواحی گاؤں رنوال کے زمیندار حکیم سونا خان بتاتے ہیں کہ پچھلے برسوں کے دوران سیلابوں میں وارن کنال کے زمینداروں کی فصلیں اور رقبے برباد ہو گئے تھے۔ لوگوں نے بڑی مشکل سے اپنی زمینوں کو دوبارہ قابل کاشت بنایا ہے۔
"اب ہم گندم کی اچھی فصل کی امید کر رہے تھے کہ گومل زام ڈیم میں تکنیکی خرابی کے باعث نہریں بند ہیں۔ ہمیں خوف ہے کہ اگر یہ مسئلہ فوری حل نہ کیا گیا تو ہزاروں ایکڑ رقبہ دوبارہ بنجر ہو سکتا ہے۔"
صرف مشتاق شیخ اور حکیم سونا خان ہی نہیں ضلع ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان کے لگ بھگ 70 ہزار کسانوں کا معاشی مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے۔
محکمہ زراعت خیبرپختونخوا کے حکام تصدیق کرتے ہیں کہ گومل زام ڈیم میں خرابی کے باعث رواں سیزن میں یہاں ابھی تک محض چند ہزار ایکڑ گندم ہی کاشت ہو سکی ہے۔
گومل زام ڈیم کثیرالمقاصد آبی ذخیرہ
یہ آبی ذخیرہ جنوبی وزیرستان میں کھجوری کے مقام پر بنایا گیا ہے جہاں دریائے گومل اور دریائے ژوب آ کر ملتے ہیں۔
اس منصوبے کی تعمیر کے مقاصد میں سیلاب پر قابو پانا، علاقے کی زرعی زمینوں کے لیے آبپاشی کا نظام تشکیل دینا اور پن بجلی کی پیداوار شامل تھا۔
گومل زام ڈیم کی تعمیر سے قبل اس علاقے (خیبر پختونخوا کا دامان) میں بارشوں اور رودکوہیوں (برساتی نالے) کے سہارے زمینیں کاشت ہوتی تھیں۔ تاہم بعض علاقوں میں کچھ پہاڑی نالے سارا سال بھی بہتے تھے جنہیں مقامی زبان میں 'کالا پانی' کہا جاتا ہے۔
اس منصوبے کے پی سی ون سے ظاہر ہوتا ہے کہ گومل زام ڈیم سے تین بڑی نہریں نکالی گئی ہیں جو ضلع کی ایک تحصیل(ٹانک) کے 36 گاؤں جبکہ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی دو تحصیلوں یعنی کلاچی اور ڈیرہ اسماعیل خان کے 33 دیہات کو پانی فراہم کرتی ہیں۔
اس ڈیم کا کل کمانڈ ایریا (قابلِ آب رسائی اراضی) دو لاکھ 71 ہزار ایکڑ ہے جس میں تحصیل ٹانک کا ایک لاکھ27 ہزار 274 ایکڑ، تحصیل کلاچی کا تقریباً ایک لاکھ 11 ہزار ایکڑ اور تحصیل ڈی آئی خان کا 32 ہزار 875 ایکڑ رقبہ شامل ہے۔
واپڈا (ترقیاتی ادارہ برائے پانی و بجلی)کی سرکاری ویب سائٹ بتاتی ہے کہ گومل زام ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 11 لاکھ 40 ہزار ایکڑ فٹ ہے جہاں سے آبپاشی کے لیے نہریں (دائمی یا پرینیئل) نکالی گئی ہیں جن میں، مین کینال اور وارن کینال شامل ہیں۔
مین کینال کی لمبائی 60 کلومیٹر ہے جو آگے جا کر دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہے جبکہ وارن کینال، ڈیم کے باہر ہی مین کینال سے الگ ہو جاتی ہے۔
مین کینال میں پانی کے ڈسچارج کی گنجائش 24 کیومک(کیوبک میٹر فی سیکنڈ) ہے جس کا کمانڈ ایریا ایک لاکھ 63 ہزار ایکڑ ہے جبکہ وارن کینال کا کمانڈ ایریا 28 ہزار 53 ایکڑ ہے جس کو چھ کیومک پانی (ڈسچارج) ملتا ہے۔
واپڈا کے مطابق گومل زام ڈیم 2013ء میں مکمل ہوگیا تھا جس میں 17.4 میگا واٹ کا ہائیڈرو پاور منصوبہ بھی شامل تھا۔ تاہم یہ پاور ہاؤس اب صرف 3.2 میگاواٹ کر قریب بجلی پیدا کر رہا ہے جو ایک الگ کہانی ہے۔
گومل زام سے نکلنے والی مین کینال میں پانی 2016ء میں چھوڑا گیا تھا لیکن واران کینال اور 369 کلومیٹر ڈسٹری بیوٹریز(مائنرز) وغیرہ تین سال کی تاخیر کے ساتھ 2019ء میں مکمل ہوئیں۔
اس ڈیم اور ملحقہ منصوبوں پر مجموعی طور پر 20 ارب 62 کروڑ 60 لاکھ روپے لاگت آئی جو یو ایس ایڈ(امریکی امدادی ادارہ) اور حکومت پاکستان نے خرچ کیے۔
کاشتکار حکیم سونا خان کہتے ہیں کہ آبپاشی کا یہ نظام فعال ہوئے ابھی ڈھائی سال ہی نہیں ہوئے تھے کہ پہاڑوں سے آنے والے سیلابی ریلوں نے واران کینال کے کمانڈ ایریا میں تباہی مچا دی جبکہ مین کینال کے کاشتکاروں کو بھی پانی کے حصول میں شدید مشکلات پیش آئیں۔
"اب دو ماہ پہلے ہم پر نئی مصیبت آن پڑی کہ دونوں اضلاع کی کینالز میں پانی کی سپلائی ایک ساتھ بند ہو گئی ہے جبکہ محکمہ ایریگیشن کے حکام اس کی ذمہ داری واپڈا پر ڈال کر بری الذمہ ہو گئے ہیں۔"
گومل زام کی نہریں کیوں بند ہیں؟
گومل زام ڈیم کو ہائیڈرالک سسٹم کی وجہ سے جدید ٹیکنالوجی کا شاہکار بتایا گیا تھا مگر اب تکنیکی خرابی کے حوالے سے سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔
ڈیم کا مشاہدہ کرنے والے لوگ جانتے ہیں کہ سنگلاخ چٹانوں کے درمیان موجود اس آبی ذخیرے کے ڈاؤن سٹریم میں ایک طرف سپل ویز(پانی نیچے دریا میں چھوڑنے کے گیٹ) ہیں اور اس کے ساتھ ہی آؤٹ لٹ(واحد مرکزی گیٹ) بنایا گیا ہے جہاں سے کینالز کو پانی فراہم کیا جاتا ہے۔
ڈیم کی اونچائی 437 فٹ ہے جہاں آؤٹ لٹ پر82 ٹن وزنی گیٹ لگایا ہے جو ہائیڈرالک سسٹم کے ذریعے کھلتا اور بند ہوتا ہے۔
اس گیٹ کا کنٹرول واپڈا کے پاس ہے جبکہ آؤٹ لٹ سے آگے پانی کی تقسیم اور نہروں کا انتظام محکمہ انہار کی ذمہ داری ہے۔
واپڈا کے اہلکار نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہتے ہیں کہ آؤٹ لٹ گیٹ کے باٹم لیور اور ہائیڈرالک سسٹم میں خرابی آ گئی ہے۔ تاہم حکام اس کی تصدیق کرنے سے گریزاں ہیں۔
نعمان خان گومل زام ڈیم پر واپڈا کے چیف انجینئر ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ آؤٹ لٹ گیٹ میں خرابی سے 82 ٹن وزنی دروازہ 400 فٹ نیچے دھنس چکا ہے جس کی وجہ سے نہروں کو پانی کا اخراج مکمل بند ہو گیا ہے۔
" لگتا یہی ہے کہ دروازہ پانی کے دباؤ کے باعث اپنی جگہ سے ہٹ چکا ہے جو واٹر لیول سے بھی 200 فٹ نیچے ہے۔"
ان کے بقول غوطہ خوروں نے پانی میں 100 فٹ نیچے جا کر گیٹ کا معائنہ کیا ہے، چوں کہ غوطہ خوروں کو اس سے نیچے جانے کی اجازت نہیں ہوتی اس لیے وہ بھی اصل خرابی نہیں جان سکے۔
امریکی امدادی ادارے، یو ایس ایڈ نے گومل زام ڈیم منصوبے کے لیے نصف سے زائد فنڈنگ کی تھی۔ اس ادارے کے مطابق گومل زام ڈیم کے کمانڈ ایریا کی ترقی سے 30 ہزار خاندان یا تقریباً ایک لاکھ 95 ہزار افراد براہ راست مستفید ہوں گے۔
تاہم پانی کا ذخیرہ دستیاب ہونے کے باجود اس سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔
محکمہ زراعت میں کمانڈ ایریا (دامان)کے 70ہزار کاشت کار رجسٹرڈ ہیں لیکن پانی کی بروقت ترسیل نہ ہونے کی وجہ سے آٹھ سال بعد بھی بیشتر کمانڈ ایریا بنجر دکھائی دیتا ہے۔
سرکاری اعدادو شمار کے مطابق ان نہروں کا ایک لاکھ 61ہزار ایکڑ رقبہ غیر آباد پڑا ہے۔ جبکہ پچھلے سال ربیع سیزن میں یہاں صرف 30 ہزار 254 ایکڑ فصل (گندم، مکئی اور چنا) ہی کاشت کی جا سکی تھی۔
مشتاق شیخ کا کہنا ہے کہ رواں سال گندم کی کاشت کا موسم تیزی سے نکلتا جا رہا ہے لیکن پانی کے بغیر بوائی ممکن دکھائی نہیں دے رہی۔ ڈی آئی خان،کلاچی اور ٹانک کے کاشت کار شدید اضطراب کا شکار ہیں جن کی امیدیں ہر گزرتے دن کے ساتھ دم توڑتی جا رہی ہیں۔
مقامی سماجی کارکن اور صحافی عطاء اللہ بلوچ کا ماننا ہے کہ کسانوں کے لیے پانی کا متبادل انتظام یعنی ٹیوب ویل وغیرہ کا بندوبست کرنا فوری طور پر ممکن نہیں ہے۔ یہ بحران ختم نہ ہوا تو اس کے اثرات صرف زمینداروں تک محدود نہیں رہیں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ یہاں زراعت سے لاکھوں لوگوں کا روزگار جڑا ہے۔ کاشت کاروں کے ساتھ مزدور طبقہ بھی گندم کی کٹائی سے سال بھر کی روزی کماتا ہے۔ ڈیم کی تکنیکی خرابی کو جلد دور نہ کیا گیا تو ان علاقوں میں بڑا سماجی و معاشی بحران جنم لے سکتا ہے۔
"ہمارے کاشت کار پانی کے لیے منتخب ارکان اسمبلی کے ڈیروں پر جا جا کر تنگ آ چکے ہیں لیکن مسئلہ حل ہونے کو نہیں آ رہا۔"
یہ بھی پڑھیں
ٹانک میں وارن کینال کے بند پختہ نہ ہو سکے، سالہا سال کی محنت سے آباد کی جانے والی زرعی زمینیں برباد ہونے کا خدشہ
ریٹائرڈ چیف انجینئر تعمیرات سیف الرحمن گنڈہ پور سمجھتے ہیں کہ ڈیم کے آؤٹ لٹ کا یہ مسئلہ چیلنج سے کم نہیں۔ دروازے کو واپس اپنی جگہ لانے کے لیے خصوصی ہائیڈرو مکینیکل آلات کی ضرورت ہے جو فی الحال یہاں دستیاب نہیں ہیں۔
یہ آلات ناصرف مہنگے ہیں بلکہ انہیں انسٹال کرنے کے لیے بھی تربیت یافتہ لوگ درکار ہوں گے۔
چیف انجینئر محمد نعمان خان بھی مسئلے کی پیچیدگی کا اعتراف کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مسئلہ حل کرنے کے لیے ڈیم پر کرینیں اور دیگر ہیوی مشینری لائی گئی ہے لیکن دروازے کو اوپر اٹھانے کی کوششیں میں اب تک ناکامی ہوئی ہیں۔
"ہمیں امید ہے مسئلہ جلد حل کر لیا جائے گا ورنہ اس کے لیے خصوصی ماہرین کی مدد لینی پڑے گی۔"
تاہم انہوں نے نہروں میں پانی فراہم کرنے کے لیے کوئی حتمی مدت نہیں بتائی۔
تاریخ اشاعت 10 دسمبر 2024