اس سال اگست میں وارن کینال میں پے در پے شگاف پڑنے سے سیلابی ریلا ایک طرف تو متوسط زمین دار حکیم سونا خان کا بھرا پُرا گھر بہا لے گیا تو دوسری طرف ان کی زرعی زمینوں کو بھی کاشت کے قابل نہیں چھوڑا۔ یہی کھیتی باڑی ان کی روزی روٹی کا واحد ذریعہ تھا۔
بیالیس سالہ سونا خان خیبر پختونخوا کے شمالی شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے 70 کلومیٹر جنوب میں ضلع ٹانک کے صدر مقام سے چھ کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع گاؤں رنوال میں رہتے ہیں۔ تقربیاً پانچ سو گھروں پر مشتمل اس گاؤں کے لگ بھگ ایک سو گھر اس سال اگست میں آنے والے سیلاب میں بہہ گئے تھے۔
انہیں امید تھی کہ وہ اپنی زمین پر فصلوں کی کاشت سے اگست میں شدید بارشوں کے باعث آنے والے سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا کسی حد تک ازالہ کر لیں گے "لیکن ناقص میٹریل کے استعمال کی وجہ سے وارن کینال بار بار ٹوٹ جاتی ہے اور ہماری زمینوں میں کئی فٹ پانی کھڑا ہو جاتا ہے۔"
وہ کہتے ہیں کہ وارن کینال کی بحالی کے لئے صوبائی حکومت نے دو کروڑ 70 لاکھ روپے مختص کئے "تاہم متعلقہ ٹھیکہ دار کی غفلت کے باعث کام التوا کا شکار ہے جس کی وجہ سے اس سال گندم اور چنے کی کاشت کا وقت گزر گیا۔" ان کا دعویٰ ہے کہ وارن کینال سے سیراب ہونے والی 80 فی صد اراضی پر اس سال ربیع کی فصلیں کاشت نہ ہو سکیں۔
اس حوالہ سے اس منصوبہ کے ٹھیکہ دار محمد جاوید نے سُجاگ کو بتایا کہ حکومت نے فنڈز کا اعلان تو کر دیا لیکن اس کی فراہمی میں تساہل کا شکار ہے جس کی وجہ سے سیلاب زدہ زرعی زمینوں کی بحالی کا کام التوا کا شکار ہے۔
خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان، جو گذشتہ ڈیڑھ دھائی سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے، سے جُڑا ضلع ٹانک دو ڈیموں — گومل زام ڈیم اور ٹانک زام — اور دو دریاؤں — دریائے کُرم اور دریائے سندھ —کے درمیان واقع ہے۔
محکمہ زراعت کے شعبہ شماریات کے مطابق ٹانک کی 49,742 ایکڑ زمین زیر کاشت ہے جس میں 30 فیصد نہری اور 70 فیصد بارانی ہے۔
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں!
ٹانک کی پس ماندگی کے خاتمے اور اس کی بنجر زمین کو سیراب کرنے کے لئے سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1971 میں آب پاشی و آب نوشی کے ساتھ ساتھ ملک کی توانائی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے گومل زام ڈیم کی بنیاد رکھی۔ اس ڈیم کو 10 سال میں پایہ تکمیل کو پہنچنا تھا لیکن اسے مکمل ہونے میں 47 سال لگ گئے۔ سنہ 2011 میں اس ڈیم کی تکمیل کے مزید سات سال بعد یعنی 2018 میں اس کے نہری نظام سے مقامی زمینوں کی سیرابی کا عمل شروع ہوا۔
اس ڈیم سے آب پاشی اور آب نوشی کے لئے367 کلومیٹر پر محیط پانی کی تقسیم کا نظام بنایا گیا ہے جو ضلع ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان کی کلاچی تحصیل کی ایک لاکھ 91 ہزار ایکڑ زمین کو سیراب کرتا ہے۔ ضلع ٹانک کے لئے 36 کلومیٹر پر محیط ایک نہر 'وارن کینال' جو گومل کے علاقہ کوٹ اعظم سے شروع ہوتی ہے اور چھینہ نامی گاؤں تک جاتی ہے، بنائی گئی۔
یہ نہر آٹھ مائنر (چھوٹی نہروں) — شیخ سلطان، ڈبرہ، مانجھی، رنوال، گاؤں پتھر، فرید آباد، ڈیال اور اعظمی مائنر — پر مشتمل ہے۔ یہ آٹھ چھوٹی نہریں اس ضلع کی تقریباً 40 ہزار ایکڑ اراضی کو سیراب کرتی ہیں۔ ضلع ٹانک کے پاپولیشن آفیسر ڈاکٹر طارق ﷲ کے مطابق اس نہر کے اطراف میں آباد تقریباً ایک لاکھ 70 ہزار افراد وارن کینال کے پانی کو پینے کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں۔
محکمہ زراعت کے شعبہ شماریات کے مطابق سال 2021-22 میں وارن کینال کے پانی سے 33 ہراز سات سو 37 ایکڑ پر تقریباً 30 ہزار پانچ سو 66 ٹن گندم کاشت کی گئی۔ اس کے علاوہ دو ہزار پانچ سو 22 ایکڑ پر چار سو 56 ٹن آئل سِیڈ، آٹھ سو 42 ایکڑ پر چھ سو 70 ٹن مسور کی دال اور ایک ہزار چار سو 47 ایکڑ پر 12 ہزار دو سو 48 ٹن گنّا کاشت کیا گیا تھا۔
اس سال کے سیلاب نے جہاں ضلع بھر میں تباہی مچائی اور درجنوں دیہاتوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا تو وہیں وارن کینال میں بھی جگہ جگہ شگاف پڑ گئے۔ محکمہ زراعت کے شعبہ شماریات کے مطابق حالیہ سیلاب سے وارن کینال سے کاشت کی جانے والے دو ہزار 97 ایکڑ پر مکٸی، چاول، سورج مُکھی، گنّے اور سبزیوں کی کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں۔
ٹانک شہر سے 15 کلومیٹر دور چھینہ گاؤں کے 35 سالہ زمین دار ملک عمران کہتے ہیں کہ تاحال حکومت کی جانب سے ان کو کوئی امداد نہیں دی گئی اور "نہ ہی زمینوں کی بحالی کے لئے کوئی اقدامات کئے گئے ہیں۔"
ٹانک شہر سے تین کلومیٹر جنوب میں گَرہ بلوچ نامی گاؤں کے ایک کسان عطا اللہ بلوچ کہتے ہیں کہ وارن کینال کو زمین سے 10 فٹ بلندی پر بنایا گیا ہے جس کے لئے کچی مٹّی کو مطلوبہ دباؤ دے کر بٹھایا نہیں گیا "جس کی وجہ سے وقتاً فوقتاً مٹّی بیٹھ جاتی ہے اور نہر ٹوٹ جاتی ہے۔"
وارن کینال کے حوالہ سے ٹانک میں ارِیگیشن ڈیپارٹمنٹ کے ایک ایگزیکٹو انجنیئر (ایکس سی این) غلام رسول برکی بھی اس نہر کی تعمیر میں پائے جانے والے سقم کے حوالہ سے عطا ﷲ کی بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں زمین دوز نہری نظام محفوظ اور بہترین نظام تصور کیا جاتا ہے لیکن وارن کینال کی ڈیزائننگ کے وقت اس کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھا گیا۔
یہ بھی پڑھیں
جہلم اور خوشاب کے لیے آب پاشی کا نیا منصوبہ: 'نہروں اور نالوں کی تعمیر سے ہمارا زرعی رقبہ ختم ہو رہا ہے'۔
ان کے مطابق "وارن کینال ایک تو بہت لمبی ہے دوسرا یہ اونچائی پر واقع ہے جس کی وجہ سے نشیبی علاقوں میں اس کے پانی کا بہاؤ کافی تیز ہوتا ہے۔ نتیجتاً نہر کے نشیبی حصوں میں شگاف پڑ جاتے ہیں۔" وہ ضلع ٹانک کی چِکنی مٹّی کو بھی نہر میں شگاف پڑ جانے کا باعث سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ "کوشش کی جا رہی ہے کہ وارن کینال کے اطراف میں پتھروں کے حفاظتی بند باندھے جائیں جس سے نہر میں شگاف پڑنے کے مسئلہ پر کافی حد تک قابو پایا جا سکے گا۔"
لیکن سرِ دست ٹانک کے اکثر زمین اپنے طور پر اپنی زمینوں کی بحالی کے کام میں مصروف ہیں جنہیں ہر وقت یہ خدشہ لاحق رہتا ہے کہ اگر دوبارہ نہر کا بند ٹوٹ گیا تو ان کی کئے کرائے پر ایک مرتبہ پھر پانی پھر جائے گا۔
تاریخ اشاعت 28 دسمبر 2022