ستائیس سالہ زرینہ (فرضی نام) کوئٹہ کے نواحی علاقے کچلاک کی رہائشی ہیں۔ان کا تعلق پشتون قبیلے خلجی سے ہے۔ وہ پڑھی لکھی نہیں ہیں۔ ان کی دو بہنیں اور تین بھائی ہیں، بہنیں ابھی چھوٹی ہیں اوربھائی محنت مزدوری کرتے ہیں۔
زرینہ کی منگنی کئی سال قبل اپنے ہی قبیلے کے نوجوان تواب خان (فرضی نام) سے ہوئی تھی۔ وہ برسوں سے ایران میں محنت مزدوری کر رہے ہیں لیکن وہ ابھی تک اپنی منگیتر کے والد کو 'ولور' کی رقم ادا نہیں کرپا رہے۔ جب وہ یہ رقم ادا کر دیں گے تو تب ہی ان کی شادی ہو سکے گی۔
زرینہ بتاتی ہیں کہ ان کے والد اور خاندان والوں نے تواب خان سے دس لاکھ روپے ولور مانگا ہے۔
"منگنی کے آٹھ سال بعد بھی شادی نہیں ہو رہی۔ میرے والد اگر ولور نہ لیں تو لوگ انہیں طعنے دیں گے۔ میں اذیت میں ہوں، رشتہ دار کہتے ہیں کہ تواب کو چاہیے وہ کہیں سے ادھار پکڑیں اور اپنی دلہن لے جائیں۔"
زرینہ سمجھتی ہیں کہ ان کے والدین ولور ضرور لیں گے۔ چاہے انہیں ساری عمر ہی یہیں کیوں نہ رہنا پڑے۔ ان کی والدہ بھی پریشان ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے پشتون زیادہ رقم کا تقاضا کرنا اپنی شان سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ولور کا ناسور ختم ہونا چاہیے۔
پشتون رواج کے مطابق 'ولور' وہ رقم ہے جو دولہاشادی کے لیے دلہن کے والدین یاخاندان کو ادا کرتا ہے۔ اسے بلوچی میں 'لب' کہتے ہیں۔ اب ان علاقوں میں اسے بھی 'جہیز' کہا جانے لگا ہے۔ پشتونوں کے ساتھ بعض بلوچ قبائل میں بھی یہ رسم موجود ہے۔
ولور کی روایت یہاں کتنی مضبوط ہے، اس کا کوئی سروے تو نہیں ہوا اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی سرکاری یا غیر سرکاری اعدادوشمار دستیاب ہیں۔ البتہ ایک قبائلی رہنما کا کہنا ہے کہ افغانستان اور بلوچستان کے پشتون علاقوں میں 'ولور 'کے بغیر شادی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
وہ بتاتے ہیں کہ یہاں اکثر شادیاں رجسٹر نہیں ہوتیں نہ ہی ان کا کوئی تحریری ریکارڈ ہوتا ہے۔ عالم دین زبانی نکاح پڑھاتے ہیں اور رخصتی کر دی جاتی ہے۔ ولور کے معاملات بھی دونوں خاندانوں یا جرگے میں زبانی ہی طے پاتے ہیں۔
ولور کےکا نقصانات
زرکون قبیلے کے سردار عبدالرشید خان بتاتے ہیں کہ ولور کی رقم اب بہت زیادہ ہو چکی ہے۔اس سے پشتون سوسائٹی کو سخت نقصان ہو رہا ہے۔ اتنی بڑی رقم کی ادائیگی عام آدمی کے لیے ناممکن ہوتی جارہی ہے۔
"دیہاڑی دار پشتون ولور کے لیے قرضوں کے دلدل میں پھنس جاتا ہے اور برسوں قرضے چکاتا رہتا ہے۔ اس دوران مقروض کے خاندان کی کفالت اور بچوں کی تعلیم بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ ولور اور بعض دوسری رسموں کی وجہ سے مسائل پیدا ہورہے ہیں، جن کا خاتمہ ناگزیر ہوچکا ہے۔"
انہوں نے اپنے قبیلےکے معتبر لوگوں کے ساتھ تین سال مشاورت کے بعد اس معاملے پر 21 مئی 2023 کو کوہلو میں جرگہ بلایا جس میں علما کا 15 رکنی وفد شامل تھا۔
پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی (محمود اچکزئی ) اور پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی (خوشحال خان گروپ) کے دو دو نمائندے اور قبیلے کے معززین اور دیگر افرادکی بڑی تعداد بھی اس میں شریک ہوئی۔
اس جرگے نے شادی کی لیے جہیز کی حد مقرر کرنے اور خواتین کو جائیداد میں حصہ دینے سمیت متعدد فیصلے کیے ہیں جن کے تحت ولور کی زیادہ سے زیادہ رقم 6 لاکھ روپے مقرر کی گئی ہے اور شادی بیاہ پوش (دلہن اور اس کے خاندان کی عورتوں کو کپڑوں کے جوڑے دینا)، کڑیچو(دولہے کے خاندان کا دلہن کے گھر جاکر میٹھے پکوان بنانا)، سوٹ دوپٹہ (دلہن کے سر پر دوپٹہ ڈالنے کے ساتھ رقم وصولی)، گیٹ کھولنے (باراتیوں کا راستہ روکنا) کی رسومات کو ختم کردیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ دولہا کے خاندان کے لیے شادی کے دن دلہن کے خاندان کو بطور دعوت صرف دو دنبے دینے کی حد مقرر کی گئی ہے جبکہ اب سے بہن اور بیٹی کو جائیداد میں شریعت کے مطابق مکمل حصہ دیا جائے گا۔
اڑتالیس سالہ سردار عبدالرشید کہتے ہیں کہ پشتون سماج میں بڑے بڑے مسائل اور تنازعات کا حل جرگے کے ذریعے نکالا جاتا ہے۔ اس لیے انہوں نے بھی ان رسومات کے خاتمے کے لیے اسی کا انتخاب کیا۔اور اس کی شدت سے ضرورت تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ ولور پر جرگے کا فیصلہ کثرت رائے سے ہوا ہے اس پر عمل درآمد کرانا مشکل نہیں ہو گا۔اس سلسلے میں وہ تمام عمائدین سے دوبارہ بھی ملاقات کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ولور دولہےکےخاندان والے دیتے ہیں۔ مقصد یہ تھا کہ دلہن کے والدین کو آسانی ہو اور اپنے بچی کےلیے زیور، کپڑے و دیگر چیزیں خرید سکیں۔لیکن لوگ حد سے زیادہ رقم مانگ لی جاتی ہے۔یوں ولور کا مقصد فوت ہوگیا ہے اور یہ رسم لوگوں پر بوجھ بن گئی ہے۔
ولور ختم کیوں نہیں گیا گیا؟
سردار رشید کہتے ہیں کہ ولور کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں۔ یہ جہیز کے لیےلڑکی کے والدین کی مالی مدد ہوتی ہے۔ تاہم رقم کی حد مقرر کرنے کے فیصلے کو پشتون قبائل نے سراہا ہے۔
میر حسن اتل پشتوادب و تاریخ کے پی ایچ ڈی سکالر اور ژوب کالج میں لیکچرار ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ زرکون قبیلے کا ولور کے حوالے سے فیصلہ مثبت قدم ہے۔بے روزگاری اور غربت کے اس دور میں ولور کے نام بھاری رقم کا تقاضا ٹھیک نہیں ہے۔
حسن اتل بتاتے ہیں کہ ولور کی روایت سب سے بڑے پشتون قبیلے خلجی میں دوسروں سے زیادہ مضبوط رہی ہے۔ ہوتک، خروٹی، اندڑ اور ترہ کئی وغیرہ خلجی کی ذیلی شاخیں ہیں اور ان میں بھی یہ رسم چلی آ رہی ہے۔ اس کے ساتھ زرکون ، اچکزئی ، کاکڑ ، نورزئی قبیلوں میں سرداروں سےلے کر غریب آدمی تک سبھی ولور لیتے اور دیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
شادی کرو یا 15 لاکھ ہرجانہ دو: پنجاب کے قبائلی علاقوں میں لڑکیوں کی زندگی پنچایت کے ہاتھ میں کھلونا بن گئی
انہوں نے بتایا کہ اب ولور کی رسم نے کاروبار کی شکل اختیار کرلی ہے۔ لڑکیوں کے والدین اور بھائیوں نے لڑکے والوں سے زیادہ سے زیاد پیسے لینا شروع کر دیے ہیں۔بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ مردوں میں خواہ خرابی بھی ہو یا ان کی چاہے جتنی بھی عمر ہو، اسے نظر انداز کر کے رقم کے عوض لڑکی کی ان سے شادی کر دی جاتی ہے۔
میرحسن کہتے ہیں کہ ولور سے بچنے کی ایک ہی صورت ہوتی ہے اور وہ ہے وٹہ سٹہ کی شادی۔اس لیے جن لوگوں کو ولور دینا ہو وہ یہ رقم جمع کرنے کی خاطر گھر بار چھوڑ دیتے ہیں۔ بیرون ملک جا کر مزدوریا ں کرتےہیں۔ ان میں بعض بہت سے لوگ ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی مسائل سے شکار ہوجاتےہیں۔
عورت فاونڈئشن کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر علاؤالدین خلجی کہتے ہیں کہ ولور کے خاتمے کیلئے اب تک سرکاری سطح پر کوئی قانون سازی نہیں کی گئی۔ اس رسم سے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں عمریں ضائع ہو رہی ہیں۔ عام طور پر ولور کی رقم دس لاکھ سے 70 لاکھ تک ہوتی ہے اور اس کا بڑی حد تک انحصار لڑکی کی خوبصورتی پر بھی ہوتا ہے۔ کوئٹہ جیسے بڑے شہروں میں ولور کا تصور قدرے کم ہوا ہے تاہم باقی پشتون بیلٹ بشمول قلعہ عبداللہ ، قلعہ سیف اللہ ، ژوب اور لورالائی میں اب بھی ولور لیا اور دیا جاتا ہے۔
تاریخ اشاعت 3 اکتوبر 2023