محمد داؤد کی عمر محض 18 سال ہے اور انہیں فیصل آباد میں کپڑے کی ایک مِل کے تکنیکی شعبے میں بطور فِٹر کام کرتے ابھی ایک سال ہی ہوا ہے لیکن انہیں کئی دوسری ملیں اچھے معاوضے پر ملازمت کی پیشکش کر رہی ہیں۔
ان کے خیال میں اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک سرکاری ادارے سے اپنے کام کی باقاعدہ تربیت لی ہے جس سے انہیں اس کی تمام تکنیکی باریکیوں پر عبور حاصل ہو گیا ہے۔ اب وہ نوکری کرنے کے ساتھ ساتھ مزید تعلیم حاصل کر رہے ہیں تاکہ مستقبل میں وہ اور بھی اچھی ملازمت حاصل کر سکیں۔ ساتھ ہی وہ اپنے تین چھوٹے بھائیوں کو بھی تکنیکی تعلیم دلوانے کا ارادہ رکھتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں اس طرح انہیں بھی آسانی سے اچھا روزگار مل جائے گا۔
وہ فیصل آباد کے نواحی گاؤں چک نمبر سات میں رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فروری 2020 میں کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد ان کا سکول بند ہوا تو وہ آٹھویں جماعت میں زیرتعلیم تھے۔ اس وقت ان کے والد اپنے گھر کے ساتھ ملحق کریانے کی ایک چھوٹی سی دکان چلاتے تھے جس سے اتنی آمدن نہیں ہوتی تھی کہ وہ گھریلو خرچے آسانی سے اٹھا سکتے۔ اس لیے محمد داؤد پر دباؤ تھا کہ وہ وبا کے دوران فارغ رہنے کے بجائے کوئی کام کریں اور کچھ کما کر لائیں۔
اس دوران ان کے ایک دوست نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ پیشہ وارانہ تربیت دینے والے کسی سرکاری ادارے میں داخل ہو کر کوئی ہنر سیکھ لیں تاکہ انہیں جسمانی مشقت والی محنت مزدوری کے بجائے کچھ بہتر کام مل سکے۔ لہٰذا انہوں نے فیصل آباد کے سرگودھا روڈ پر واقع پنجاب ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ میں فِٹر کے ایک سالہ کورس میں داخلہ لے لیا۔ یہ کورس مکمل کرنے کے بعد انہوں نے ایک استاد کی وساطت سے ایک کارخانے میں دو ماہ عملی تربیت بھی لے لی۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ تربیت ختم ہوتے ہی انہیں ان کی موجودہ ملازمت مل گئی۔
فیصل آباد ہی میں واقع پیپلز کالونی کے علاقے کی کچی آبادی ڈوگر بستی میں رہنے والی 25 سالہ روبینہ علی نے بھی پیشہ وارانہ تربیت دینے والے ایک سرکاری ادارے سے سلائی کڑھائی سیکھی ہے۔ اب وہ گھر بیٹھے خواتین کے ملبوسات بیچنے والی بڑی بڑی دکانوں اور نامی گرامی ڈیزائنروں کے لئے کپڑے تیار کرتی ہیں اور ماہانہ 40 ہزار روپے تک کما لیتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کے والد یومیہ اجرت پر مزدوری کرتے ہیں اس لیے ان کے معاشی حالات ایسے نہیں تھے کہ وہ میٹرک کے بعد اپنی تعلیم جاری رکھ سکتیں۔ لیکن، ان کے بقول، کپڑے سینے کا کام سیکھنے کے بعد انہیں روزگار کی کوئی فکر نہیں رہی۔
وسائل بمقابلہ مسائل
پنجاب ووکیشنل ٹریننگ کونسل 1998 میں قائم کیا گیا ایک سرکاری ادارہ ہے۔ اس کا بنیادی مقصد زکوٰۃ اور نجی شعبے کی مالی امداد سے پنجاب میں ایسے نوجوانوں کو مفت فنی تربیت فراہم کرنا ہے جو اپنے معاشی حالات کی وجہ سے اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکتے۔ یہ کونسل پنجاب بھر میں قائم دو سو آٹھ ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ چلاتی ہے جن میں ایسے نوجوان لڑکے لڑکیوں کو داخلہ دیا جاتا ہے جو زکوٰۃ کے مستحق ہوں۔
اس کے بورڈ آف گورنرز کے رکن ساجد نصیر کے مطابق 17-2016 سے لے کر پنجاب حکومت ہر سال اسے تقریباً پانچ ارب روپے دے رہی تھی تاکہ یہ اپنے ساتھ ملحق تمام انسٹی ٹیوٹ اچھی طرح چلا سکے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ 22-2021 میں پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے اسے دی جانے والی سالانہ رقم صرف 80 کروڑ روپے کر دی۔
ان کا دعویٰ ہے کہ اس رقم میں سے بھی بعد میں 25 فیصد سے زیادہ کٹوتی کر لی گئی جس کی وجہ سے "ہر سال دو لاکھ افراد کو تربیت دینے کی استعداد رکھنے والی کونسل اب ایک سال میں صرف 60 ہزار افراد کو مختلف ہنر سکھا سکتی ہے"۔
ان کے مطابق پنجاب حکومت نے موجودہ مالی سال (23-2022) میں بھی اس کے لیے صرف ایک ارب 10 کروڑ روپے کی رقم مختص کی ہے جو اس کی سابقہ استعداد بحال کرنے کے لیے کافی نہیں۔ نتیجتاً ہزاروں مستحق لڑکے لڑکیاں اس سال فنی تربیت نہیں لے پائیں گے۔
فیصل آباد ڈویژن میں متعین پنجاب ووکیشنل ٹریننگ کونسل کے ایریا مینجر ناصر عباس مہار اس کٹوتی کے اثرات کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 2018 میں ضلع فیصل آباد کے سات ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ ایک ہزار آٹھ سو طلبا کو 60 شعبوں میں تربیت دینے کی استعداد رکھتے تھے لیکن اب وہ صرف 38 شعبوں میں تربیت دے رہے ہیں اور ان میں زیرِتربیت نوجوانوں کی تعداد چھ سو نو رہ گئی ہے۔
فیصل آباد ڈویژن میں شامل باقی تین اضلاع میں بھی یہی حالات ہیں۔
مثال کے طور پر ضلع جھنگ کے تین ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ 2018 کی طرح 26 شعبوں میں تربیت دینے کے بجائے اب صرف 16 شعبوں میں تربیت فراہم کر رہے ہیں جبکہ انہوں نے اپنے طلبا کی تعداد بھی سات سو 80 سے کم کر کے دو سو 87 کر دی ہے۔ اس طرح ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کے تین ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ اب 28 کے بجائے 14 شعبوں میں تربیت دے رہے ہیں جبکہ ان میں تربیت لینے والے طلبا کی تعداد آٹھ سو 20 سے کم ہو کر دو سو 30 پر آ گئی ہے۔ چنیوٹ کے واحد ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ میں بھی شعبوں کی تعداد 10 سے کم ہو کر پانچ رہ گئی ہے جبکہ اس میں داخل کیے جانے والے طلبا کی تعداد تین سو سے گھٹ کر صرف 80 ہو گئی ہے۔
لیکن جہاں ایک طرف حکومت ان تربیتی اداروں کے لیے مختص رقم میں کمی کرتی جا رہی ہے وہاں دوسری طرف، ناصر عباس مہار کے مطابق، ان میں داخلے کے خواہش مند نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سال ضلع فیصل آباد میں دو ہزار دو سو 97 امیدواروں نے مختلف شعبوں میں فنی تعلیم حاصل کرنے کے لیے درخواستیں دی تھیں لیکن مقامی ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ ان میں سے صرف 25 فیصد کو ہی داخلہ دے سکے۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ پنجاب ووکیشنل ٹریننگ کونسل نے اپنے مالی وسائل میں اضافہ کرنے لیے ایک نئی سکیم متعارف کرائی ہے جس کے تحت اگر ایک امیدوار کو کسی سرکاری انسٹی ٹیوٹ میں مفت تربیت کے لیے داخلہ نہیں ملتا تو وہ پانچ ہزار پانچ سو روپے ماہانہ فیس ادا کر کے اس میں تربیت لے سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، ان کے مطابق، کونسل مختلف صنعتی تنظیموں اور کاروباری انجمنوں سے بھی پیسے اکٹھے کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو مفت تربیت دی جا سکے۔
پاکستان: غیر ہنرمند افراد کا ملک
پاکستان لیبر فورس سروے 21-2020 کے مطابق اس وقت ملک میں 15 کروڑ 98 لاکھ 30 ہزار افراد کام کرنے کی عمر میں ہیں۔ ان میں سے آٹھ کروڑ 92 لاکھ مرد ہیں اور تقریباً سات کروڑ 89 لاکھ خواتین ہیں۔ تاہم کام کاج کے قابل اس آبادی میں سے دو کروڑ 60 لاکھ مرد اور چھ کروڑ 20 لاکھ خواتین بے روزگار ہیں۔
ورلڈ اکنامک فورم کی 2017 میں جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق ان بے روزگار لوگوں میں سے اکثر کے پاس کوئی ہنر کوئی فن نہیں۔ اس رپورٹ کا کہنا ہے کہ دراصل پاکستان میں ہنر مند افراد کی تعداد اتنی کم ہے کہ اس حوالے سے بنائی گئی ایک سو 30 ممالک کی ایک فہرست میں اس کا نمبر ایک سو 25 ہے۔ اس فہرست میں شامل جنوبی ایشیا کے دوسرے ممالک بھی پاکستان سے کہیں بہتر ہیں۔ ان میں سے سری لنکا کا نمبر 70، نیپال کا 98، انڈیا کا 103 اور بنگلہ دیش کا ایک سو 11 ہے۔
فیصل آباد چیمبر آف کامرس کے سابق صدر انجینئر رضوان اشرف بھی یہی کہتے ہیں۔ ان کے مطابق "پاکستان میں صرف پانچ فی صد بے روزگار نوجوان ایسے ہیں جو فنی تربیت حاصل کرتے ہیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں کسی نہ کسی طرح کی تربیت حاصل کرنے والے بے روزگار نوجوانوں کی شرح 66 فی صد تک ہوتی ہے"۔ وہ سمجھتے ہی کہ "اگر ہمیں اس شرح میں اضافہ کرنا ہے تو ہمیں فنی تعلیم فراہم کرنے والے اداروں کی تعداد اور ان کے لیے مختص رقم دونوں میں اضافہ کرنا ہو گا"۔
تاریخ اشاعت 31 اگست 2022