پچھلے سال 23 ستمبر کو راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے ورچوئل یونیورسٹی کو بھیجے گئے ایک خط میں لکھا کہ لاہور کے شمال میں کالا شاہ کاکو کے مقام پر واقع اس کے کیمپس "میں ایک غیر قانونی عمارت تعمیر کی جا رہی ہے"۔
اس کے غیر قانونی ہونے کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ اسے راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی اجازت کے بغیر بنایا جا رہا ہے۔ خط میں یونیورسٹی کو یہ تنبیہہ بھی کی گئی کہ وہ "بغیر کسی تاخیر کے" اس کی تعمیر روک دے بصورتِ دیگر اس کے خلاف "قانون کے مطابق سخت کارروائی کی جائے گی"۔
ورچوئل یونیورسٹی کے ترجمان فیصل ضیا تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے ادارے نے راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی سے اس عمارت کی تعمیر کی اجازت نہیں لی۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود یہ عمارت غیر قانونی نہیں ہے کیونکہ یونیورسٹی کے اعلیٰ سطحی بورڈ آف گورنرز نے اس کی منظوری دی ہے اور اس کی تعمیر کا ٹھیکہ بھی تمام سرکاری قواعد و ضوابط کو پورا کر کے دیا گیا ہے۔
متنازعہ عمارت کے باہر لگی تختی پر لکھا ہے کہ اس میں جینومکس اور پروٹومکس نامی سائنسی شعبوں پر تحقیق کا مرکز قائم کیا جا رہا ہے۔ اس مرکز کی تعمیر کا معاہدہ 11 اپریل 2019 کو ورچوئل یونیورسٹی کی انتظامیہ اور نیو وژن انجنئرنگ کنسلٹنٹ نامی کمپنی کے درمیان طے پایا جس کے تحت 16 ہزار مربع فٹ پر مشتمل اس کی عمارت کی تعمیر کا آغاز 24 دسمبر 2019 کو ہوا۔ تقریباً دو ہفتے بعد، 8 جنوری 2020 کو، اس وقت کے وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکشن خالد مقبول صدیقی نے اس کا باقاعدہ سنگِ بنیاد رکھا۔
اگرچہ اس عمارت کو نو ماہ میں مکمل کیا جانا تھا لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر اس میں مسلسل تاخیر ہوتی رہی ہے۔ جنوری 2022 کے دوسرے ہفتے تک اس کا ڈھانچہ تو کھڑا ہو چکا تھا لیکن دروازے اور کھڑکیاں نہیں لگ پائے تھے۔
ورچوئل یونیورسٹی کے رجسٹرار ڈاکٹر محسن جاوید کا کہنا ہے اس تاخیر کی بنیادی وجہ 2020 کے اپریل اور مئی کے مہینوں میں کورونا وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے تعمیراتی سرگرمیوں پر لگائی گئی سرکاری بندش تھی۔ بعدازاں، ان کے مطابق، عمارت بنانے والی کمپنی اپنا کام فوری طور پر شروع نہ کرسکی اور جب بالآخر اس نے کام شروع کیا تو جلد ہی راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا خط آ گیا کہ اسے روک دیا جائے۔
سرکار بمقابلہ سرکار
ورچوئل یونیورسٹی 2002 میں وفاقی حکومت کے ادارے کے طور پر قائم کی گئی۔ اس کے چانسلر صدرِ پاکستان ہیں۔ اس کے قیام کا مقصد ان پاکستانی طلبا کو تعلیم فراہم کرنا ہے جو یا تو ملک سے باہر رہتے ہیں یا وہ کسی وجہ سے کمرہِ جماعت میں جا کر پڑھائی نہیں کر سکتے۔ اس کا تعلیمی مواد پاکستان ٹیلیوژن (پی ٹی وی) اور انٹرنیٹ کے ذریعے طلبا تک پہنچایا جاتا ہے۔
اس یونیورسٹی کا کالا شاہ کاکو کیمپس دو سو چھ ایکڑ اراضی پر مشتمل ہے۔ یہ کیمپس دریائے راوی سے تقریباً 27 کلومیٹر شمال میں ایک ایسی سڑک کے ساتھ واقع ہے جو لاہور-اسلام آباد موٹروے کو جی ٹی روڈ سے جوڑتی ہے اور ضلع شیخوپورہ کی تحصیل فیروزوالا کا حصہ ہے۔
یونیورسٹی حکام کے مطابق اس کیمپس کی زمین 14-2013 میں حصولِ اراضی کے سرکاری قانون کے تحت اور پنجاب حکومت کی مدد سے حاصل کی گئی تھی۔ دس لاکھ روپے فی ایکڑ کے حساب سے اس کی مجموعی قیمت، 20 کروڑ 60 لاکھ روپے، بھی سرکاری خزانے سے ادا کی گئی۔
اس زمین کے ارد گرد باڑ لگا کر اس کی حدود کا باقاعدہ تعین کیا گیا ہے۔ اس باڑ میں موجود واحد داخلی دروازے پر ایک سکیورٹی گارڈ مامور ہے جو شناختی کاغذات دیکھے بغیر کسی کو اندر داخل نہیں ہونے دیتا۔کیمپس میں دُور دُور تک خودرو گھاس اگی ہوئی ہے جس کے اندر بنے ہوئے مختلف راستوں کے ساتھ ساتھ سفیدے کے درخت لگے ہوئے ہیں۔
داخلی دروازے کے پاس سبز رنگ کی ایک عارضی عمارت ہے جس میں پودوں اور پھولوں کی نرسری بنائی گئی ہے۔ جینومکس اور پروٹومکس پر تحقیق کا مرکز بھی اسی دروازے کے قریب ہی زیر تعمیر ہے۔
اس کی حیثیت پہلی بار نو جنوری 2021 کو متنازعہ ہوئی جب فیروزوالا تحصیل کونسل نے ورچوئل یونیورسٹی کو ایک خط لکھ کر کہا کہ وہ "اس کا تعمیراتی کام فوری طور پر روک دے" کیونکہ یہ عمارت "خلاف ضابطہ ہے"۔ کونسل کے مطابق اس کی تعمیر "بغیر حصول پیشگی منظوری نقشہ اور انتظامیہ کو نوٹس دیے بغیر" کی جا رہی ہے۔ اس لیے اس نے یونیورسٹی کو ہدایت کی کہ وہ سات یوم کے اندر سرکاری قواعد و ضوابط کے مطابق بنایا گیا اس کا نقشہ تحصیل کونسل کے دفتر میں جمع کرائے۔
آٹھ ماہ بعد راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے بھی یونیورسٹی کو اسی طرح کا خط بھیج دیا۔
ورچوئل یونیورسٹی کے ترجمان فیصل ضیا سجھتے ہیں کہ یہ خط کسی "غلط فہمی کا نتیجہ" ہے ورنہ، ان کے بقول، "یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک سرکاری ادارہ دوسرے سرکاری ادارے کے خلاف کارروائی کر کے حکومتی پیسے کا ضیاع کرے"۔
یونیورسٹی کے دیگر حکام کا کہنا ہے کہ اس خط کا کوئی جواز نہیں کیونکہ تحقیقی مرکز کی تعمیر راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قیام سے مہینوں پہلے شروع ہو چکی تھی۔ ان کی بات اس حد تک درست ہے کہ جب اگست 2020 میں پنجاب حکومت نے دریائے راوی کے اردگرد ایک نیا شہر بسانے کے لیے یہ اتھارٹی قائم کی تو مرکز کا ایک بڑا حصہ تعمیر ہو چکا تھا۔
ان حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ خط ملنے سے پہلے وہ تحصیل کونسل فیروز والا سے متنازعہ عمارت کی تعمیر پر پیدا شدہ مسئلے کے حل کے لیے بات چیت کر رہے تھے۔ اس لیے، ان کے مطابق، اتھارٹی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کونسل کے ساتھ اپنا دائرہِ اختیار طے کیے بغیر ورچوئل یونیورسٹی کو احکامات جاری کرنا شروع کر دے۔
یونیورسٹی کے رجسٹرار ڈاکٹر محسن جاوید تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ان کے ادارے کو بھیجا گیا خط ایک امتیازی رویے کی نشان دہی کرتا ہے کیونکہ "راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی مجوزہ حدود میں اور بھی کئی سرکاری یونیورسٹیاں موجود ہیں جن کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا"۔
اتھارٹی کے ترجمان شیر افضل بٹ ان اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ باقی سرکاری یونیورسٹیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی کیونکہ ان کے پاس اپنی اپنی تعمیرات کی منظوری کے مکمل ثبوت موجود ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کا ادارہ کسی امتیاز اور تفریق کے بغیر غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کارروائی کر رہا ہے۔ اس کی مثال دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اتھارٹی کی حدود میں واقع "کئی نجی تعلیمی اداروں کی تعمیرات کو بھی ورچوئل یونیورسٹی کے مرکز کی طرح روک دیا گیا ہے"۔
یہ بھی پڑھیں
راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی غیر قانونی آبادیوں کے خلاف کارروائی: 'زرعی زمین پر کنٹرول کا طریقہ'۔
عدالتی فیصلے کا انتظار
لاہور ہائی کورٹ کے وکیل فہد ملک راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے موقف کی حمایت کرتے ہیں لیکن صرف اس حد تک کہ محض ورچوئل یونیورسٹی کے بورڈ آف گورنرز کی طرف سے دی گئی منظوری تحقیقی مرکز کی تعمیر کو قانونی نہیں بنا سکتی۔ بلکہ، ان کے مطابق، اس کے لیے متعلقہ مقامی ادارے کی منظوری لینا بھی ضروری ہے۔ البتہ وہ کہتے ہیں کہ اس بات کا تعین کرنے کے لیے کہ آیا وہ ادارہ راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی ہو یا تحصیل کونسل فیروز والا اس معاملے کو "عدالتی تناظر میں دیکھنا بھی ضروری ہے"۔
وہ کہتے ہیں کہ لاہور ہائی کورٹ میں راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی سے متعلق متعدد ایسے مقدمات چل رہے ہیں جن میں نہ صرف اس کے دائرہ اختیار بلکہ اس کے قیام کے جواز پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ وہ خود بھی ان میں سے کچھ مقدمات میں وکیل کے طور پر پیش ہو چکے ہیں۔
اگرچہ عدالت نے ان پر سماعت مکمل کر لی ہے لیکن اس نے اپنا فیصلہ ابھی تک نہیں سنایا۔فہد ملک کی نظر میں ورچوئل یونیورسٹی کو بھیجے گئے خط سمیت راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے کسی بھی اقدام کا جائز یا ناجائز ہونا اس بات سے مشروط ہے کہ یہ فیصلہ کیا ہو گا۔
تاریخ اشاعت 19 جنوری 2022