لب پہ رہ جاتی ہے آ آ کے شکایت میری: 'پولیس کے ڈر اور اس پر عدم اعتماد کے باعث خواتین خود پر ہونے والی تشدد کی رپورٹ درج نہیں کراتیں'۔

postImg

صبا چوہدری

postImg

لب پہ رہ جاتی ہے آ آ کے شکایت میری: 'پولیس کے ڈر اور اس پر عدم اعتماد کے باعث خواتین خود پر ہونے والی تشدد کی رپورٹ درج نہیں کراتیں'۔

صبا چوہدری

گرمی ہو سردی ہو یا بارش، امرت شہزادی انصاف کی توقع لیے اپنے مقدمے کی پیشی پر ہمیشہ عدالت میں موجود ہوتی ہیں۔ تاہم ہر بار انہیں محض اگلی پیشی کی تاریخ دے دی جاتی ہے۔ 

وہ وسطی پنجاب کے ضلع نارووال کی تحصیل شکرگڑھ کے گاؤں شاہ پور میں رہتی ہیں اور عدالت میں پیش ہونے کے لیے ہر بار 50 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے نارووال شہر پہنچتی ہیں۔ ان کو درپیش مشکلات کو دیکھتے ہوئے ان کے قریبی لوگ کچھ عرصے سے انہیں مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ اپنا مقدمہ واپس لے لیں۔ دوسری طرف، ان کے مطابق، فریق مخالف بھی انہیں اس کی پیروی سے روکنے کے لیے دھمکیاں دے رہا ہے۔ 

لیکن 30 سالہ امرت شہزادی کہتی ہیں کہ انہوں نے نہ تو ابھی تک ہمت ہاری ہے اور نہ ہی وہ خوفزدہ ہوئی ہیں۔ 

ان کے مقدمے کی بنیاد ان کا اپنے ہمسایوں کے ساتھ ہونے والا ایک جھگڑا ہے۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ان کے گھر کی بیٹھک میں ان کی ایک دوست نے بیوٹی پارلر کھول رکھا ہے جہاں وہ خود بھی عورتوں کا بناؤسنگھار کرنے کی تربیت لے رہی ہیں۔ اکتوبر 2019 میں جب انہوں نے اس بیوٹی پارلر کا ایک ایسا دروازہ بنانا چاہا جو براہِ راست گلی میں کھل سکے تو، ان کے مطابق، ان کے ہمسایوں نے دروازے کی مجوزہ جگہ پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہوئے ان سے لڑنا جھگڑنا شروع کر دیا۔ وہ کہتی ہیں کہ انہیں نہ صرف دھمکیاں دی گئیں بلکہ کئی اور طریقوں سے ہراساں بھی کیا گیا۔ 

اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے انہوں نے عدالتی کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا اور شکرگڑھ کی ایک عدالت میں اپنے ہمسایوں کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا۔ اس مقدمے کے اندراج کے چند روز بعد جب وہ پیشی کے لیے عدالت میں پہنچیں تو ان کے مخالف فریق نے ان پر اسے واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا۔ لیکن جب انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کیا تو، ان کے بقول، ان کے ہمسائے پولیس کی موجودگی میں ہی انہیں مارنے پیٹنے لگے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس تشدد میں ان کے ہمسایوں کے وکلا بھی شامل تھے۔

اس تمام وقوعے کے دوران عدالت میں موجود کسی شخص نے اس کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال دی جو وائرل ہو گئی۔ اس پر پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے امرت شہزادی پر ہونے والے تشدد کا نوٹس لیتے ہوئے اس میں ملوث ملزموں کی فوری گرفتاری کا حکم دیا۔ ان کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے شکرگڑھ پولیس نے ایک ملزم کو حراست میں لینے کا دعویٰ بھی کیا اور اس کی ہتھکڑیاں لگی تصویر بھی نیوز میڈیا کو جاری کر دی۔ 

تاہم امرت شہزادی کا گرفتار شدہ شخص کے بارے میں کہنا ہے کہ وہ اسے جانتی ہیں نہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انہیں مارنے پیٹنے والوں کے چہرے ویڈیو میں واضح دکھائی دے رہے تھے لیکن پولیس نے انہیں گرفتار کرنے کے بجائے خانہ پری کے لیے کسی غیرمتعلقہ شخص کو پکڑ لیا۔

چنانچہ انہوں نے اس تشدد میں ملوث لوگوں کو سزا دلانے کے لیے نارووال کی عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا جو ڈھائی سال سے زیرسماعت ہے۔  

بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی… 

شکرگڑھ سے تعلق رکھنے والی 60 سالہ شہناز کوثر نے جنوری 2022 میں تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 354 کے تحت مقامی پولیس کو ایک رپورٹ درج کرائی۔ (یہ دفعہ کسی عورت کی عزت مجروح کرنے کے لیے اس پر کیے گئے کسی بھی طرح کے جسمانی یا زبانی حملے کا احاطہ کرتی ہے-) اس میں انہوں نے کہا کہ جب وہ اپنا مکان بیچنے کی غرض سے ایک گاہک کو وہاں لے گئیں تو اس پر ناجائز طور پر قابض شعیب نامی شخص نے نہ صرف انہیں تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ ایک تیز دھار آلے سے ان پر قاتلانہ حملہ بھی کیا۔

صرف یہی نہیں بلکہ، شہناز کوثر کے بقول، اُس نے ان کے اہل خانہ پر اتنا دباؤ ڈالا کہ مجبوراً انہوں نے پولیس کو درج کرائی گئی رپورٹ واپس لے لی۔ وہ کہتی ہیں کہ "اب میں دوبارہ کبھی تھانے نہیں جاؤ گی کیونکہ وہاں عورتوں کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی"۔ 

تحصیل شکرگڑھ کے گاؤں دیلاپور میں دو کمروں کے مکان میں رہنے والی 32 سالہ راحت بی بی اور ان کی 70 سالہ والدہ نذیراں بی بی کو بھی اسی طرح کا مسئلہ درپیش رہا ہے۔ دونوں ماں بیٹی بیوائیں ہیں اور لوگوں کے گھروں میں کام کر کے اپنی روزی روٹی کماتی ہیں۔ 

نذیراں بی بی کہتی ہیں کہ ان کا مرحوم شوہر انہیں اور ان کی بیٹی کو نہ صرف روزانہ تشدد کا نشانہ بناتا تھا بلکہ کئی سال پہلے دوسری شادی کرنے کے لیے اس نے ان دونوں کو اپنے گھر سے نکال بھی دیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے ان اقدامات کے خلاف ایک قریبی قصبے نورکوٹ میں واقع تھانے میں ایک رپورٹ بھی درج کرائی تھی لیکن چند روز بعد ہی انہیں یہ رپورٹ واپس لینا پڑ گئی تھی کیونکہ انہیں خوف تھا کہ ان کا شوہر اور اس کا خاندان انہیں اور ان کی بیٹی کو کہیں مار ہی نہ دیں۔

تھانہ نورکوٹ (جس کے دائرہ کار میں لگ بھگ ایک لاکھ مجوعی آبادی والے 70 دیہات آتے ہیں) کے اہل کار تسلیم کرتے ہیں کہ وہ عورتوں پر ہونے والے تشدد کے واقعات پر خال خال ہی کارروائی کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک اہل کار اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہتا ہے کہ "یہ تشدد عموماً ایک گھریلو معاملہ ہوتا ہے اس لیے تھانے میں بیٹھے ہوئے ہمیں پتہ ہی نہیں چل سکتا کہ آیا کسی گھر کے اندر کسی عورت پر واقعی تشدد کیا گیا ہے یا نہیں"۔ 

پنجاب پولیس کی طرف سے جاری کردہ اعدادوشمار بھی یہی دکھاتے ہیں کہ اس طرح کے واقعات کی اطلاع تھانوں تک پہنچتی ہی نہیں۔ ان کے مطابق یکم جنوری 2021 سے لے کر 31 دسمبر 2021 تک نارووال ضلع میں عورتوں پر ہونے والے گھریلو تشدد کے کسی ایک واقعے کی رپورٹ بھی پولیس کو درج نہیں کرائی گئی۔ 

اسی طرح خواتین کے مرتبے کے تحفظ کے لیے حکومت پنجاب کے قائم کردہ صوبائی کمیشن ((Punjab Commissiono on the Status of Women کی صوبے میں صنفی برابری کے بارے میں تیار کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق ضلع نارووال میں 2020 میں عورتوں پر ہونے والے گھریلو تشدد کے صرف 25 کے قریب واقعات حکومتی اداروں کے سامنے آئے۔ باقی تمام گھروں کے اندر ہی دبا دیے گئے۔ 

جب عورتوں پر ہونے والا تشدد محض ایک گھر کا اندرونی معاملہ نہیں ہوتا تو بھی، نورکوٹ کے پولیس اہل کار کے مطابق، "پولیس اس وقت تک کچھ نہیں کر سکتی جب تک اس کا شکار عورت اس کے بارے میں رپورٹ درج نہ کرائے"۔

خواتین کے مرتبے کے بارے میں بنائے گئے کمیشن کی رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ 2020 میں نارووال میں عورتوں پر ہونے والے مختلف اقسام کے تشدد کے ایسے واقعات کی تعداد ایک سو 23 تھی جن کی رپورٹ حکومتی اداروں کو دی گئی (جبکہ بہت سے دیگر واقعات کبھی ان اداروں کے سامنے ہی نہیں آئے)۔ یہ تعداد اُس سال پنجاب کے تمام دوسرے اضلاع کے مقابلے میں کم تھی۔ 

پنجاب پولیس کی طرف سے جاری کردہ اعدادوشمار بھی اسی طرح کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔ ان کے مطابق یکم جنوری 2021 سے لے کر 31 دسمبر 2021 تک نارووال ضلع میں عورتوں پر ہونے والے تمام قسم کے تشدد کے تین سو 69 واقعات کے بارے میں پولیس کو بتایا گیا۔ ان میں سے صرف 20 اُس سال کے پہلے چھ ماہ میں پیش آئے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اُن مہینوں کے دوران ہونے والے واقعات کی ایک بڑی تعداد کی اطلاع کبھی پولیس تک پہنچی ہی نہیں۔ اگر ایسا نہیں تھا تو سال کے باقی مہینوں میں بھی ایسے واقعات کی تعداد 20 کے لگ بھگ ہی رہنی چاہیے تھی۔ 

صنفی برابری کے بارے میں جاری کی گئی رپورٹ کے مصنفین سمجھتے ہیں کہ تشدد سے متاثرہ عورتیں ایسے واقعات کی اطلاع حکومتی اداروں کو اس لیے نہیں دے پاتیں کہ انہیں خوف ہوتا ہے کہ ایسا کرنے سے خود ان کے "نام پر آنچ" آئے گی۔ مزیدبرآں "پولیس کا ڈر، پولیس اہل کاروں کی کارکردگی پر عدم اعتماد اور مجرموں کو سزا نہ ملنے" کے خدشات بھی انہیں ایسا کرنے سے روکتے ہیں۔ 

خواتین بمقابلہ پولیس

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیم ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی ڈائریکٹر ریسرچ اینڈ پالیسی شمائلہ خان کہتی ہیں کہ مردوں کی بالادستی والے معاشرے میں خواتین کے لیے خود پر ہونے والے تشدد کے خلاف آواز اٹھانا آسان نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "بہت سی خواتین اس لیے بھی اس تشدد کی شکایت نہیں کرتیں کہ انہیں فوری اور باآسانی انصاف ملنے کی امید نہیں ہوتی"۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

جو بول سکتی تھیں وہ زبانیں کٹی ملی ہیں: 'جنسی زیادتی کا شکار خواتین اپنے مخالفین کا مقابلہ نہیں کر پاتیں'۔

تاہم ان کی نظر میں اس صورتِ حال کی سب سے بڑی وجہ پولیس کا غیرذمہ دارانہ رویہ ہے۔ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ "خواتین پر تشدد کے مقدمات میں پولیس نہ تو صحیح طریقے سے شواہد اکٹھے کرتی ہے اور نہ ہی بروقت تفتیش مکمل کرتی ہے"۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بعض اوقات ان معاملات میں تاخیر کی وجہ ملزموں کی طرف سے پولیس پر ڈالا جانے والا سیاسی اور سماجی دباؤ بھی ہوتا ہے۔ 

شکرگڑھ میں واقع صدر تھانے میں نائب محرر کے عہدے پر کام کرنے والے جعفر حسین اپنے محکمے کے اس مبینہ رویے کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 354 کے تحت درج ہونے والے عورتوں پر تشدد کے اکثر مقدمات جعلی ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ باہمی تنازعات میں انتقامی کارروائی کے طور پر اپنے مخالف فریق پر الزام لگا دیتے ہیں کہ اس نے ان کی عورتوں کی عزت مجروح کی ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ "اگر پولیس کے پاس کسی خاتون پر تشدد کی کوئی حقیقی رپورٹ آ بھی جائے تو عموماً چند ہی روز میں فریقین کے درمیان صلح ہو جاتی ہے اور یہ رپورٹ واپس لے لی جاتی ہے"۔ ان کے بقول اسی لیے دفعہ 354 کے تحت دائر کیے گئے مقدموں میں سے بمشکل ایک فیصد میں ہی مجرموں کو سزا ہو پاتی ہے۔

تاریخ اشاعت 21 جولائی 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

صبا چوہدری نے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا ہے۔ وہ قومی اور بین الاقوامی اشاعتی اداروں کے لیے صنفی موضوعات، انسانی حقوق اور سیاست پر رپورٹ کرتی ہیں۔

thumb
سٹوری

خیبر پختونخواہ میں ایڈز کے مریض کیوں بڑھ رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.