کرک شہر سے پچاس کلو میٹر دور تھل لاچی روڈ پر عیسک خماری کے نام سے ایک گاؤں آباد ہے۔ اس گاؤں کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں گزشتہ چھ برس سے کسی بھی گھر میں بجلی کا کنکشن موجود نہیں ہے۔اس کے باوجود چوبیس گھنٹے بجلی دستیاب ہوتی ہے۔
اب یہاں کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ (بجلی لاڑہ بجلی راغلہ ) بجلی آئی اور بجلی گئی۔
عیسک خماری، ضلع کرک کی تحصیل بندہ داؤد شاہ کا ایک گاؤں ہے۔اس کی آبادی تقریبا بارہ ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ یہاں کے زیادہ تر لوگ کاشت کاری سے وابستہ ہیں یا پھر بیرون ملک جاکر محنت مزدوری کرتے ہیں۔
محمد وارث یہاں کے رہائشی ہیں وہ بتاتے ہیں کہ کچھ عرصہ پہلے گاؤں کے لوگ اس بات سے نالاں رہتے تھے کہ بیس بیس گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کے باوجود انہیں ہزاروں روپے بجلی کا بل ادا کرنا پڑتا تھا۔
"میرے گھر میں سوائے چند لائٹوں، دو پنکھوں کے بجلی کا کوئی استعمال نہیں تھا۔ اس کے باوجود میرے بل میں دو سو سے تین سو یونٹ اضافی یونٹ شامل ہوتے تھے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ہمارے گاؤں میں کوئی میٹر ریڈر میٹر ریڈنگ کے لیے نہیں آتا تھا بلکہ واپڈا کے اہلکار پچاس کلومیٹر دور تحصیل لاچی میں بیٹھ کر خود سے یونٹ ڈال لیتے تھے۔"
انہوں نے بتایا کہ گرمیوں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بیس گھنٹوں سے بھی بڑھ جاتا تھا۔
گاؤں والوں نے لوڈ شیڈنگ اور اوور بلنگ کے خلاف بارہا احتجاج کیا لیکن کسی نے نہیں سنی۔
"آخر جون 2018ء میں سب گاؤں والوں نے احتجاجا بجلی کے بل جمع نہیں کروائے اور واپڈا نے پورے گاؤں کی بجلی کاٹ دی۔"
لوگوں کے پاس سوائے واپڈا کی بجلی کا متبادل تلاش کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
"اس لئے گاؤں کے ہر گھر نے اپنی سہولت کے مطابق اپنے گھر میں سولرسسٹم لگوا لیا۔ سولر لگوانے پر ایک ہی بار پیسے خرچ کرنا پڑے ، اس کے بعد لوڈ شیڈنگ اور بجلی کے بھاری بلوں سے جان چھوٹ گئی۔"
عیسک خمار میں گھروں کی تعداد ایک ہزار 33 ہے جن میں سے 980 گھروں میں بجلی کے کنکشن موجود تھے۔
محمد قاسم، عیسک خماری میں پچھلے تین سالوں سے سولر سسٹم لگانے کا کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ صرف انہوں نے گاؤں کے ساڑھے تین سو گھرانوں کو سولر سسٹم پر منتقل کیا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ کم سے کم لاگت والا سولر سسٹم تین لاکھ کا اور زیادہ سے زیادہ دس لاکھ کا ہے۔
"میں نے دس کروڑ روپے کے سولر پلانٹ لگائے ہیں جس میں بڑے اور چھوٹے سولر پینل شامل ہیں۔"
انہوں نے بتایا کہ غریب گھرانے سولر کے دو پینل اور دو بیٹریاں لگوا لیتے ہیں، جس پر 80 ہزار روپے تک خرچ آ جاتا ہے۔
"اس سے دو تین پنکھے اور چار پانچ بلب جل جاتے ہیں لیکن اے سی، فریج یا مشینیں چلانے کے لئے بڑا سسٹم لگوانا پڑتا ہے، جس پر خرچ بھی زیادہ آتا ہے۔"
عمران نے حال ہی میں اپنے گھر کو مکمل طور پر سولر سسٹم پر منتقل کیا ہے۔ انہوں نے لوک سجاگ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ جب گاؤں کی بجلی کٹ گئی تھی تو انہوں نے سولر کی دو پلیٹیں لگو ائی تھیں جس سے ایک لائٹ اور دو پنکھے چلتے تھے۔
"اس وقت میرے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ پورے گھر کو سولر سسٹم پر منتقل کرواتا۔ اس سے ان کے گھر کی خواتین کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ انہیں دور سے پانی بھر کر لانا پڑتا تھا۔"
عمران بتاتے ہیں کہ کچھ عرصے بعد وہ قطر چلے گئے، وہاں جا کر انہوں نے پیسے جمع کیے اور گھر کو مکمل طور پر سولر سسٹم پر منتقل کر لیا۔
" اب ہمارے گھر میں پانی کی موٹر بھی چلتی ہے اور فریج بھی چلتا ہے لیکن ہمیں اس بات کی فکر نہیں ستاتی کہ بجلی کے یونٹ بڑھ رہے ہیں یا ہمیں زیادہ بل ادا کرنا پڑے گا۔"
عمران مزید بتاتے ہیں کہ ان کے ہاں آٹھ مہینے تو گرمی پڑتی ہے اور سورج آب و تاب سے چمکتا رہتا ہے۔سردیوں میں بھی ایک دفعہ چارج ہوئی بیٹیریاں دو سے تین دن تک بجلی فراہم کرتی رہتی ہیں۔
عیسک خماری نے لوڈ شیڈنگ اور اوور بلنگ سے تو نجات پالی لیکن اس گاؤں کے تمام لوگ واپڈا کے چودہ کروڑ روپے کے مقروض ہو گئے۔
لاچی میں واپڈا سب ڈویژن کے ایکسین احسان مروت نے لوک سجاگ کو بتایا کہ گاؤں کے لوگوں نے اپریل 2018ء سے بجلی کے بل جمع نہیں کرائے۔ انہیں بار بار نوٹس بھیجے گئے مگر اُن کی طرف سے کوئی مثبت ردعمل نہیں ملا۔
"حتیٰ کہ پختون روایات کے مطابق جرگہ بھی کیا گیا۔ علاقہ کے عمائدین سے بات کی گئی مگر وہ راضی نہیں ہوئے جس کے بعد چاروناچار واپڈ حکام کے پاس بجلی کاٹنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔"
وہ بتاتے ہیں کہ جون 2018ء میں پورے گاؤں کی بجلی کاٹ دی گئی تھی۔ بلوں کی مد میں واجب الادا رقم کی چھ سال گزر جانے کے بعد بھی ادائیگی نہیں ہو ئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بل نہ دینے والے کچھ اور دیہات کی بجلی بھی کاٹ دی گئی تھی جو بقایا جات کی ادائیگی کے بعد بحال کر دی گئی۔
چونکہ واپڈا نے پورے گاؤں کا کنکشن منقطع کر دیا تھا اس لئے گاؤں میں موجود سکول، ہسپتال، مساجد اور دیگر سرکاری و نجی دفاتر بھی بجلی کے بغیر کام کر رہے ہیں۔
پشاور ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس، جسٹس لعل جان خٹک کا تعلق بھی اس گاؤں سے ہے۔
وہ گزشتہ سال پشاور ہائیکورٹ سے ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔ انہوں نے بھی واپڈا اور گاؤں والوں کے درمیان مصالحت کروانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔
انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ گاؤں کے لوگ بقایا جات، نئے بلوں میں تھوڑے تھوڑے کرکے ادا کرنے کو تیار ہیں مگر واپڈا یہ مطالبات ماننے کے لئے راضی نہیں۔
"میں نے اپنے گھر میں 20 لاکھ مالیت کا سولر سسٹم لگوایا ہے۔ میرا کام تو ہو گیا لیکن گاؤں میں بجلی کی بحالی ہونا بھی ضروری ہے کیونکہ یہاں لڑکے اور لڑکیوں کے چار سرکاری اور ایک کمیونٹی سکول ہیں۔ ان میں مجموعی طور پر تین ہزار کے قریب بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔"
یہ بھی پڑھیں
بھکر کے کاشت کار اپنے ٹیوب ویل سولر سسٹم پر کیوں منتقل کر رہے ہیں؟
جسٹس ریٹائرڈ لعل جان خٹک کہتے ہیں کہ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے بچے سخت گرمی میں بھی پنکھوں اور ٹھنڈے پانی کے بغیر بیٹھ کر پڑھنے پر مجبور ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ محکمہ تعلیم نے گورنمنٹ گرلز مڈل سکول میں سولر سسٹم لگوایا ہے، باقی کسی بھی سکول میں بجلی کی سہولت موجود نہیں۔
محمد وارث بتاتے ہیں، گاؤں میں تین ٹیوب ویلوں میں سے دو کو محکمہ آب پاشی نے سولر پر منتقل کر دیا ہے، جس سے علاقے کے لوگوں کو پانی کی ترسیل ہوتی ہے۔ ایک ٹیوب ویل خراب ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے اپنے گھروں کو مکمل طور پر سولر سسٹم پر منتقل کر رکھا ہے، انہوں نے اپنے محلے کی مساجد کو بجلی کا کنکشن دے رکھا ہے۔
بنک اور دیگر نجی ادارے بھی جنریٹر یا سولر پر چل رہے ہیں۔
"لیکن سکول کے بچوں کو گرمی برداشت کرتے ہوئے دیکھ کر ہمارا دل دکھتا ہے، اگر حکومت وہاں بھی سولر سسٹم لگوا دے تو کم از کم بچے سکون سے پڑھائی تو کر سکیں گے۔"
تاریخ اشاعت 11 اپریل 2024