ڈیرہ غازی خان شہر سے 20 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع بستی کوچا وڈانی کا رہنے والا ایک 33 سالہ شخص نومبر 2021 کی ایک صبح جاگا تو اسے اتنا شدید سردرد ہو رہا تھا کہ اس کی وجہ سے اس کا پورا جسم شل ہو کر رہ گیا تھا۔
فکر کا مارا وہ فوراً ڈیرہ غازی خان کے سب سے بڑے سرکاری طبی مرکز، ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال، پہنچا جہاں ایک ڈاکٹر نے اسے درد اور تھکاوٹ دور کرنے والی ادویات دے کر گھر واپس بھیج دیا۔ لیکن اس کا کہنا ہے کہ اسے یہ دوائیاں کھانے سے کوئی فرق نہ پڑا بلکہ دن بدن اس کا درد شدید تر اور جسم لاغر تر ہوتا گیا۔ اس کے مطابق انہی دنوں اس کی کمر پر عجیب سے نشان ابھر آئے، اس کے مسوڑھے پیلے پڑ گئے اور اسے ہر وقت شدید تھکاوٹ کا احساس رہنے لگا۔
دسمبر 2021 میں اس کی طبعیت اتنی خراب ہو گئی کہ علاج کے لیے اسے دوبارہ اسی ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں جانا پڑا۔ لیکن اس دفعہ ایک مختلف ڈاکٹر نے نہ صرف اس کا تفصیلی طبی معائنہ کیا بلکہ اس کے مختلف ٹیسٹ کروا کر ان کا بھی بغور جائزہ لیا۔ اس تحقیق کے بعد ڈاکٹر نے اسے بتایا کہ اسے جگر کا کینسر لاحق ہے۔
اس شخص کا خیال ہے کہ اس کے مرض کی وجہ ایسے پانی کا استعمال ہے جو یورینیم نامی تابکار دھات کی وجہ سے آلودہ ہو گیا ہے۔ یہ یورینیم کوہِ سلیمان کے پہاڑی سلسلے کے اندر بغل چُر نامی علاقے میں پایا جاتا ہے جو اس کے گاؤں، بستی کوچا وڈانی، سے لگ بھگ 40 کلومیٹر شمال مغرب کی جانب واقع ہے۔
اس علاقے میں یورینیم کی موجودگی کا پتہ 1960 کی دہائی میں چلا لیکن اس کی کان کنی 1970 کی دہائی سے شروع ہوئی۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں لکھی گئی متعدد کتابوں اور تحقیقی مظامین کے مطابق یہاں سے نکالا گیا یورینیم دوائیوں کی تیاری اور بجلی کی پیداوار کے علاوہ ایٹمی ہتھیاروں میں بھی استعمال ہوتا رہا ہے۔
آلودہ پانی کا استعمال
ڈیرہ غازی خان کی میر علی روڈ پر واقع بستی جندوانی نامی گاؤں کے ادھیڑ عمر رہائشی ہدایت اللہ نے صرف میٹرک تک تعلیم حاصل کی ہے لیکن وہ اپنے علاقے کے سماجی اور سیاسی مسائل سے ہروقت باخبر رہتے ہیں۔ انہیں 2012 کے موسمِ گرما میں معلوم ہوا کہ ان کے گاؤں سے تقریباً تین کلومیٹر مغرب میں ہونے والی یورینیم کی کان کنی صحتِ عامہ کے لیے ایک بڑا خطرہ بن چکی ہے۔
اس خطرے کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ "کوہِ سلیمان میں موجود زیادہ تر یورینیم زیر زمین پانی کے ذخائر کے ارد گرد پایا جاتا ہے لہٰذا جب اسے زمین سے نکالا جاتا ہے تو اس کے ذرات پانی کے اِن ذخائر میں سرایت کر جاتے ہیں"۔ ان کے مطابق ان ذرات کی موجودگی کی وجہ سے "اس وقت ڈیرہ غازی خان کے مغرب میں واقع تقریباً تمام دیہات کا پانی آلودہ ہو چکا ہے اور اس کا استعمال کینسر، جگر کے امراض اور معدے کی بیماریوں کا باعث بن رہا ہے"۔
مارچ 2021 میں ڈیرہ غازی خان ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں معدے اور انتڑیوں کے ماہر کے طور پر تعینات ہونے والے ایک ڈاکٹر ہدایت اللہ کے موقف کی تائید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "جن سینکڑوں مریضوں کا اب تک میں نے یہاں معائنہ کیا ہے ان میں سے بالترتیب 80 فیصد اور 60 فیصد جگر کے امراض اور کینسر کا شکار ہیں"۔
اپنی موجودہ ملازمت سے پہلے وہ لاہور میں کام کر چکے ہیں جہاں، ان کے بقول، ان کے پاس علاج کے لیے آنے والے لوگوں میں کینسر اور جگر کی خرابی کے مریضوں کا تناسب 15 فیصد سے زیادہ نہیں ہوتا تھا۔ لہٰذا ان کی نظر میں ڈیرہ غازی خان میں ان بیماریوں کا تناسب بلند ہونے کی ممکنہ وجہ یہ ہے کہ "یورینیم کی کانوں کے گردو نواح میں واقع دیہات کے لوگ یورینیم زدہ پانی استعمال کر رہے ہیں"۔
ان کا کہنا ہے کہ اسی وجہ سے ڈیرہ غازی خان میں جوان لوگ بھی بڑی تعداد میں جگر کے امراض اور کینسر کا شکار ہو رہے ہیں حالانکہ، ان کے بقول، عام طور ہر یہ بیماریاں بڑی عمر کے افراد کو لاحق ہوتی ہیں۔
ڈیرہ غازی خان میں واقع ایک میڈیکل کالج میں کینسر کے شعبے کے ایک استاد بھی کوہِ سلیمان کے دیہات میں ان امراض کے پھیلنے کی وجہ وہاں کے آلودہ پانی اور آلودہ آب و ہوا کو قرار دیتے ہیں۔ اس آلودگی کے اجزائے ترکیبی کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ یورینیم کی کان کنی کے بعد اُسے صاف کر کے ایسے ڈھیلوں کی شکل دی جاتی ہے جنہیں سائنسی زبان میں پِیلا کیک (yellow cake) کہا جاتا ہے۔ ان کے بقول "جب یہ کیک خشک ہو جاتا ہے تو اس سے چھوٹے چھوٹے ذرات علیحدہ ہو کر پانی اور ہوا میں تحلیل ہو جاتے ہیں جہاں سے وہ انسانی جسم میں شامل ہو کر بیماریوں کا سبب بنتے ہیں"۔
قومی سلامتی یا عوامی سلامتی؟
بغل چُر اور اس کے اردگرد کی بستیوں میں جگر کے امراض اور کینسر کے غیرمعمولی پھیلاؤ کی خبریں کوئی نئی بات نہیں۔ درحقیقت 2000 کی دہائی میں کچھ مقامی باشندوں نے نیوز میڈیا کے ذریعے باربار ان بیماریوں کی نشان دہی کرنے کی کوشش کی۔ اُن دنوں اپنی آواز اربابِ اختیار تک پہنچانے کے لیے انہوں نے سپریم کورٹ میں ایک رِٹ پٹیشن بھی دائر کی۔
لیکن کچھ عرصے سے یہ لوگ اس معاملے پر بات کرنے کو تیار نہیں۔ یہاں تک کہ ہدایت اللہ جیسے سماجی کارکن اور مقامی طبی ماہرین بھی اس مسئلے کو اجاگر کرتے ہوئے اپنا اصلی نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔
ایٹمی سائنس کے ماہر اور امن کے قیام کے لیے کوششیں کرنے والے مشہور سماجی کارکن ڈاکٹر پرویز ہودبھائی کے خیال میں اس خاموشی کہ وجہ یہ ہے کہ "ڈیرہ غازی خان اور اس کے گردو نواح کے لوگوں میں یورینیم کی کان کنی کے بارے میں پائے جانے والے جائز خدشات کو ہمیشہ قومی سلامتی کے نام پر دبایا جاتا رہا ہے"۔
ان کے مطابق اس دباؤ کی وجہ سے ان لوگوں میں یہ خوف پیدا ہو گیا ہے کہ اس مسئلے پر بات کرنے سے انہیں قومی سلامتی کے اداروں کی طرف سے کسی ناخوشگوار ردِعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس ضمن میں اپنا ذاتی تجربہ بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ 2000 میں انہوں نے چند ساتھیوں سے مل کر اُس علاقے کا دورہ کرنے کا منصوبہ بنایا جہاں سے یورینیم نکالا جا رہا ہے تاکہ اس کے ماحولیاتی اور طبی اثرات کا جائزہ لیا جا سکے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ "ریاستی اداروں نے ہمیں یہ دورہ کرنے سے روک دیا"۔
تاہم یورینیم کی کان کنی اور استعمال کے ذمہ دار وفاقی ادارے، پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن، کا ہمیشہ اصرار رہا ہے کہ بغل چُر کی کانوں سے نکالا جانے والا یورینیم کسی طبی مسئلے کا باعث نہیں بن رہا۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اس یورینیم کو کانوں سے نکالتے ہوئے اور اس کو صاف کرتے وقت نکلنے والے فضلے کو تلف کرتے ہوئے متعلقہ قومی اور بین الاقوامی قواعد و ضوابط کی سخت پابندی کی جاتی ہے۔
کمیشن کے عوامی تعلقات کے منیجر شاہد ریاض کا کہنا ہے کہ ان کا ادارہ نہ صرف سائنسی اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے یورینیم کی کان کنی کرتا ہے اور اس کی صفائی کے دوران پیدا ہونے والے فضلے کو "بہترین طریقے سے" ٹھکانے لگاتا ہے۔ بلکہ، ان کے مطابق، کمیشن اپنی سماجی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے بغل چُر اور اس کے آس پاس کے دیہات میں "صحت، تعلیم اور پینے کے صاف پانی کی سہولیات بھی فراہم کر رہا ہے"۔
ان کا یہ بھی اصرار ہے کہ " کوہِ سلیمان سے یورینیم کی کان کنی 2000 کی دہائی کے اوائل میں ہی ختم کر دی گئی تھی اس لیے اہلِ علاقہ اور ڈاکٹروں کا یہ کہنا درست نہیں کہ یہ عمل مقامی آبادی میں کینسر اور جگر کے امراض کی زیادتی کا سبب بن رہا ہے"۔
یہ بھی پڑھیں
چراغ تلے اندھیرا: آزاد جموں و کشمیر کے باسی اپنے دریاؤں سے بنی بجلی کے ثمرات سے محروم۔
تاہم 22-2021 کا وفاقی بجٹ ان کےآخری دعوے کی تردید کرتا دکھائی دیتا ہے کیونکہ اس میں کوہِ سلیمان سے یورینیم کی کان کنی کے لیے 14 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔
پرویز ہودبھائی اس مسئلے کے ایک اور پہلو کی نشاندہی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کان کنی بند ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ماضی میں کی گئی کان کنی کے منفی اثرات بھی ختم ہو چکے ہیں۔ ان کے مطابق "زمین سے یورینیم نکالنے کے دوران پیدا ہونے والی دھول کے اثرات دراصل کئی دہائیوں تک فضا میں موجود رہتے ہیں"۔
یورینیم: کتنا محفوظ، کتنا خطرناک
شاہد ریاض یہ بھی کہتے ہیں کہ بغل چُر میں پائے جانے والے یورینیم کی کیمیائی ساخت اس طرح کی ہے کہ اسے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال ہی نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس سے صرف ادویات اور بجلی بنائے جا سکتے ہیں۔ اس بنیاد پر ان کا دعویٰ ہے کہ اس یورینیم کے "انسانی ماحول اور انسانی صحت پر نقصانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔"
پرویز ہودبھائی ان سے متفق نہیں۔ اگرچہ وہ مانتے ہیں کہ بغل چُر میں زیادہ تر یورینیم-238 پایا جاتا ہے جو عام طور پر ادویات اور بجلی بنانے کے لیے ہی استعمال کیا جاتا ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس کی ساخت ایٹمی ہتھیاروں میں استعمال ہونے والے یورینیم-235 جیسی ہی ہوتی ہے۔ اس لیے، ان کی نظر میں، یہ "دونوں اقسام انسانی صحت اور ماحول کے لیے ایک جتنی ہی خطرناک ہو سکتی ہیں"۔
ان کی اس بات کی تصدیق 1990 میں ہونے والی امریکہ-عراق جنگ سے بھی ہوتی ہے جس کے ختم ہونے کے چند مہینوں بعد بہت سے امریکی فوجی شدید سر درد، جگر کی خرابی اور گردوں کی سوزش کا شکار ہو گئے تھے۔ جب ماہرینِ صحت نے ان کی بیماری کی وجہ جاننے کے لیے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ یہ اثرات اس یورینیم-238 کے پیدا کردہ ہیں جو ان میزائلوں میں استعمال کیا گیا تھا جنہیں جنگ کے دوران عراقی ٹینکوں کوتباہ کرنے کے لیے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے چلایا گیا تھا۔
تاریخ اشاعت 15 جنوری 2022