خیبر پختونخوا کے ضم شدہ قبائلی اضلاع میں چالیس فیصد علاقے پر مشتمل ضلع جنوبی وزیرستان کو بہتر انتظام کے مقصد سے دو اضلاع میں تقسیم کیے جانے کو ایک سال مکمل ہونے والا ہے۔ تاہم مقامی سیاسی قیادت کی جانب سے علاقے میں ضلعی دفاتر بنانے کے پرزور مطالبے کےباوجود سردست اس سمت میں کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا جس سے لوگوں کو کئی طرح کی مشکلات کا سامنا ہے۔
پچھلے سال اکتوبر میں محسود آبادی پر مشتمل ان علاقوں کو ملا کر ضلع جنوبی وزیرستان اپر اور احمد زئی وزیر قبائل کی اکثریتی آبادی پر مشتمل علاقوں کو جنوبی وزیرستان لوئر کا نام دیا گیا۔
اس فیصلے سے ممکنہ طور پر وانا سب ڈویژن اور اس کی چار تحصیلوں وانا، شکئی، تولخیلہ اور برمل پر مشتمل ضلع جنوبی وزیرستان لوئر کو ہی فائدہ ہو گا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ وانا پہلے بھی ضلعی ہیڈکوارٹر تھا اور اس لئے وہاں ضلعی سطح کا انتظامی ڈھانچہ کسی حد تک موجود تھا کیونکہ جنوبی وزیرستان کے ضلعی انتظامیہ کے دفاتر بیک وقت وانا اور ملحقہ ضلع ٹانک دونوں میں موجود تھےاور ڈپٹی کمشنر کے اوقات کار دونوں دفاتر میں منقسم تھے۔ لیکن محسود علاقوں میں پہلے بھی ضلعی انتظامیہ کا کوئی خاص عمل دخل نہیں تھا اور ضلع جنوبی وزیرستان اپر (جو تیارزہ، سرویکئی، شوال، لدھا، مکین، شکتوئی اور سراروغہ کے علاقوں پر مشتمل ہے) کے الگ ضلع کا درجہ حاصل کرنے کے بعد بھی اس میں ںہ تو کوئی بہتری آئی ہے اور نہ یہاں کسی طرح کی انتظامی مشینری کا کوئی وجود ہے۔
جنوبی وزیرستان لوئر کے ہیڈ کوارٹر وانا میں چونکہ پہلے سے کافی حد تک سرکاری انفراسٹرکچر موجود تھا، اس لئے نئے ضلع کی تشکیل کے بعد اب ڈپٹی کمشنر وانا میں ہی کام کررہا ہے اور دیگر دفاتر بھی شروع ہو چکے ہیں۔
اس سے برعکس جنوبی وزیرستان اپر میں ہیڈکوارٹر کے مقام کے تعین پر مسائل طوالت اختیار کر گئے، جس پر مقامی شخصیات ان خدشات کا اظہار کرتی رہیں ہیں کہ شاید حکومت محسود علاقے کی ترقی کے لیے مخلص نہیں ہے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ جنوبی وزیرستان اپر کے ڈپٹی کمشنر محسود آبادی کے علاقے سے سو کلومیٹر دور ٹانک میں بیٹھتے ہیں۔ اسی طرح عدالتیں بھی ضلع ٹانک میں قائم کی گئیں، ٹی ایم اے آفس، ایجوکیشن آفس یہاں تک کہ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کا دفتر بھی ضلع ٹانک میں قائم کیا گیا ہے۔
محسود علاقوں میں تعلیمی ادارے نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ صحت کے حوالے سے بھی حالات نہایت خراب ہیں کیونکہ تقریباً اسی فیصد کے قریب آبادی کو ایک عام میڈیکل پریکٹیشنر تک بھی رسائی نہیں ہے۔
سمل بوبڑ سے ضلع ٹانک میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر اپر کے دفتر میں آئے ہوئے امجد محسود نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اپنے گاؤں سمل بوبڑ سے ضلع ٹانک آنے کیلئے انہیں کئی گھنٹے پیدل سفر کرنا پڑتا ہے اور اس کے بعد تین سے چار گھنٹے گاڑی میں لگتے ہیں۔
"ہمارے پاس زندگی کی بنیادی سہولیات موجود نہیں ہیں۔ غریب لوگوں کے پاس سرکاری علاج کرانے کی ہی استطاعت ہوتی ہے اور مجھ سمیت بہت سے لوگوں کو بہت دور سے یہاں آنا پڑتا ہے۔ اب ہم کسی نہ کسی طرح یہاں پہنچ ہی گئے ہیں تو ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر موجود نہیں ہیں۔"
امجد محسود کا کہنا تھا کہ کسی بھی محکمے سے سوال کریں تو یہی جواب ملتا ہے کہ وہاں سیکیورٹی کا مسئلہ درپیش ہے، لیکن ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ محکمۂ صحت کو سیکیورٹی کا کوئی مسئلہ نہیں، اس کے باوجود ڈی ایچ او آفس یہاں دوسرے ضلع میں قائم کیا گیا ہے۔
زنگاڑا سے ٹانک آنے والے سید عالم محسود بھی یہی کہتے ہیں کہ اتنے بڑے علاقے میں صحت کا کوئی چھوٹا سا مرکز بھی کام نہیں کر رہا اور اگر سرکاری کاغذات میں کوئی موجود بھی ہے تو نہ انہیں اس بارے میں کوئی علم ہے نہ ہی علاقے کے دوسرے لوگ جانتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یوں لگتا ہے جیسے ان لوگوں کی تکالیف کا کسی کو احساس نہیں۔
شوال سے تعلق رکھنے والے غلام خان یاد کرتے ہیں کہ دو سال قبل ان کے گاؤں تور الگاڈ شوال میں دو بچے بارودی سرنگوں کی زد میں آ کر جاں بحق ہو گئے جنہیں اگر فرسٹ ایڈ مل جاتی تو انہیں بچایا جا سکتا تھا۔
"راستے میں لاتے ہوئے ان بچوں کے زخموں سے اتنا خون بہا کہ وہ جانبر نہ ہوسکے، ہم تو وزیرستان کے انتہائی دور دراز علاقوں کے لوگ ہیں یہاں تو مکین جیسے بڑے علاقے اور شہر میں بھی صحت کے سرکاری مراکز پوری طرح فعال نہیں ہیں۔"
بدر کے علاقے سے آئے سوال الدین نے بتایا کہ ان کے علاقے میں ایک ہی ڈسپنسری ہے، جو تب ہی کھولی جاتی ہے جب فوٹو سیشن ہونا ہو۔
"ہم گھنٹوں پیدل سفر کرکے اور گاڑیوں میں دھکے کھا کر یا تو وانا میں علاج کرانے چلے جاتے ہیں یا پھر ضلع ٹانک آجاتے ہیں۔"
یہ بھی پڑھیں
بنوں کے وزیر قبائل کا احتجاجی دھرنا: 'جب تک ہمیں گیس کی فراہمی کی تحریری ضمانت نہیں دی جاتی ہم اپنے علاقے سے اس کی پائپ لائن نہیں گزرنے دیں گے'۔
اسسٹنٹ کمشنر سرویکئی عمر خطاب نے بتایا کہ سب ڈویژن سرویکئی میں دفاتر قائم کر دیے گئے ہیں جو سازوسامان کی کمی کے باعث تاحال مکمل طور پر فعال نہیں ہوئے، لیکن یہ کام جلد مکمل کرلیا جائے گا اور محسود قبیلے کے بنیادی مطالبے کے حل کی جانب اہم پیش رفت ہو گی جبکہ اگلے مرحلے میں لدھا سب ڈویژن کیلئے بھی یہی طریقہ کار اختیار کیا جائے گا۔
ڈی ایچ او آفس کے جنوبی وزیرستان میں قیام کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس وقت علاقے میں ہیڈکوارٹر کے مقام کے تعین پر بھی اتفاق رائے موجود نہیں، جب تک باہمی مشاورت سے اتفاق رائے نہیں ہوتا اس حوالے سے کوئی بھی فیصلہ منفی نتائج کا حامل ہوسکتا ہے۔
ملک سعید انور محسود الزام عائد کرتے ہیں کہ بنیادی مسئلہ حکومتی سطح پر نیک نیتی کے فقدان کا ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو محسود علاقے میں اب تک ہیڈکوارٹر بن بھی چکا ہوتا۔ عوامی مشکلات کے ازالے کیلئے ڈی ایچ او آفس کے ساتھ تمام محکموں کے دفاتر جلد از جلد س علاقے میں منتقل کرنے کی ضرورت ہے، لیکن اس اہم مسئلے پر سرکاری سطح پر کوئی دلچسپی نظر نہیں آرہی جو قابلِ افسوس ہے۔
تاریخ اشاعت 19 ستمبر 2023