خیبر پختونخوا میں ضلع اپر دیر کے کوہستانی علاقے تھل، کلکوٹ، کمراٹ اور لواری سبزیوں کی پیدوار کے لیے مشہور ہیں۔ تاہم سوات سے ملحقہ اپر دیر کے مشرقی علاقے عشیری درہ اور نہاگ درہ کی پہچان سٹرابیری ہے جو یہاں بڑے پیمانے پر کاشت کی جاتی ہے کہ ان علاقوں کی زرخیز زمین سٹرابیری کی پنیری کی کاشت کیلئے انتہائی موزوں ہے۔
تین یونین کونسلوں پر مشتمل عشیری درہ میں جنوری، فروری اور مارچ میں بڑے پیمانے پر سٹرابیری کی پنیری اگائی جاتی ہے اور پھر اکتوبر اور نومبر میں یہاں سے خیبر پختونخوا کے کئی اضلاع سمیت پنجاب بھر میں فروخت کیلئے بھیج دی جاتی ہے۔
تاہم اس مرتبہ یہاں کے باغبانوں کو پریشانی کا سامنا ہے کیونکہ ہزاروں ایکڑ رقبے پر کاشت ہونے والی سٹرابیری کی پنیری کو خطرناک کیڑے کھا رہے ہیں جن سے فصل کو شدید نقصان ہو رہا ہے۔ کھیتوں میں کھڑی سٹرابیری کی پنیری ان کیڑوں کے باعث ناکارہ ہوتی جا رہی ہے اور اندیشہ ہے کہ پہلے سالوں کی نسبت اس مرتبہ پنیری بڑی مقدار میں نہ اگنے کے باعث سٹرابیری کی پیداوار میں بھی کمی آئے گی۔
عشیری درہ سے تعلق رکھنے والے زمیندار گوہر خان بتاتے ہیں کہ پنیری کے ایک پودے کو ایک سے دو روپے تک قیمت میں فروخت کرنا ہوتا ہے۔ اگر سیزن اچھا نہ ہو تو اسے ایک سے ڈیڑھ روپے تک میں بیچ دیا جاتا ہے۔ اس فصل سے جڑے کاشتکار اور زمیندار سیزن میں لاکھوں پودے بیچتے ہیں۔ تا ہم امسال فصل میں کیڑے لگنے سے زیادہ تر علاقوں میں سٹرابیری کی پنیری قابل فروخت نہیں رہی۔
"میں ایک چھوٹا زمیندار ہوں لیکن پچھلے سال میں نے چار کینال زمین میں سٹرابیری کے چار لاکھ کے قریب پودے اگائے تھے جس سے اخراجات نکال کر بھی دس لاکھ روپے کی آمدنی ہوئی تھی۔ تا ہم اس بار فصل میں کیڑے لگنے سے زیادہ تر علاقوں میں سٹرابیری کی فصل تقریباً تباہ ہو گئی ہے۔"
محکمہ زراعت اپر دیر کے ڈپٹی افسر محمد پرویز کہتے ہیں کہ پنیری میں کیڑے لگنے کی اہم وجہ دیسی کھاد یعنی گوبر کا استعمال ہے۔ ان کا ادارہ کسانوں کو اس بارے میں آگاہی بھی فراہم کرتا رہتا جس پر عمل کر کے ایسے نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ محکمہ زراعت گندم، مکئی یا پھل دار باغات کے مالکان و زمینداروں کے ساتھ رابطے رہتا ہے اور جتنے زمیندار رجسٹرڈ ہیں انہیں ہر قسم کی کھاد رعایتی قیمت پر فراہم کی جاتی ہے۔
محمدپرویز کے بقول سٹرابیری سمیت دیگر فصلوں کے جو زمیندار زراعت آفس میں رہنمائی کیلئے آتے ہیں انہیں ادارے کا عملہ ایسے نقصانات سے بچنے اور کیڑے مکوڑوں اور بیماریوں پر قابو پانے کیلئے مختلف طرح کے کیمیکل اور ان کے استعمال کا مؤثر طریقہ کار بھی بتاتا ہے۔
علاوہ ازیں اس بارے میں زمینداروں کی آگاہی کیلئے موقع پر رہنمائی کے علاوہ سوشل میڈیا پر آگاہی مہم بھی چلائی جاتی ہے لیکن محکمہ زراعت کے پاس کاشتکاروں کو مفت فراہمی کیلئے کوئی بھی کیمیکل یا کھاد دستیاب نہیں ہوتی۔
تاہم گوہر خان کہتے ہیں کہ اپردیر میں محکمہ زراعت نے کاشتکاروں کے ساتھ نہ تو کوئی رابطہ کیا ہے اور نہ ہی فصلوں کیلئے سپرے اور دیگر سہولیات فراہم کی ہیں جس کے باعث نقصان بھی زیادہ ہوا جبکہ رہی سہی کسر حالیہ بارشوں کے دوران ژالہ باری نے پوری کردی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومت نقصانات کی مد میں مالی معاونت کے ساتھ فصل کو کیڑوں اور دیگر امراض سے بچانے کے لیے بھی تعاون کرے کیونکہ اس سے ان جیسے کاشتکاروں اور ہزاروں غریب دیہاڑی دار مزدوروں کا روزگار وابستہ ہے۔
اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے مقامی سماجی کارکن مظہرالدین نے بتایا کہ ان علاقوں میں اسٹرابیری کی پنیری دیہاڑی دار مزدور، کاشتکار اور ٹرانسپورٹروں سمیت بہت سے لوگوں کے لیے روزگار کا اہم ذریعہ بن چکی ہے۔ پنیری اگانے والے زمیندار اور کاشت کار بھی اس فصل سے سالانہ لاکھوں روپے کماتے ہیں۔
اگر آئندہ فصل کو نقصان سے بچانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات نہ کیے گئے تو ہزاروں لوگوں کا روزگار اور زندگی بری طرح متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں
'سیلاب ہمارے لیے بہت بڑا عذاب ثابت ہوا': کوہستان میں پھلوں اور سبزیوں کے کاشتکار حکومت کی عدم توجہی پر نالاں
سٹرابیری کی پنیری کو ایک سے دوسری جگہ پہنچانے والے ڈرائیور یوسف علی بتاتے ہیں کہ انہوں ںے پچھلے سال تین مہینوں کے دوران صرف عشیری درہ کے علاقوں سے ہی پنیری لے کر مختلف علاقوں میں پہنچانے کا کام کر کے دس لاکھ روپے کمائے تھے۔
اس سے پہلے وہ پنجاب اور سندھ کی ملوں میں مزدوری کرتے تھے اور اس دوران ناصرف انہیں گھر سے دور رہنا پڑتا تھا بلکہ یہ کام بہت زیادہ مشقت طلب بھی تھا۔ اب انہیں اپنے ہی علاقے میں روزگار میسر آیا ہے جو ان کے لیے نعمت سے کم نہیں۔ تاہم انہیں خدشہ ہے کہ اگر سٹرابیری کی فصل کو نقصان ہوتا رہا تو ان کے اچھے دن برقرار نہیں رہ پائیں گے۔
تاریخ اشاعت 22 اگست 2023