اپر چترال میں سیلاب سے بحالی کے منتظر بدحال لوگوں کو نئے سیلاب کا خطرہ

postImg

سید زاہد جان

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

اپر چترال میں سیلاب سے بحالی کے منتظر بدحال لوگوں کو نئے سیلاب کا خطرہ

سید زاہد جان

loop

انگریزی میں پڑھیں

سیلاب گزرے 11ماہ ہو گئے مگر ہزاروں لوگ اس تباہی کے اثرات سے باہر نہیں آسکے ، چترال کے علاقے بریپ کو بھی ایسی ہی صورت حال کاسامنا ہے جہاں درجنوں خاندانوں کے سیکڑوں افراد اب تک جھونپڑیوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

ریٹائرڈ لیکچرار لیاقت خان کواپریٹیو فارمز سروسز سنٹر چترال کے صدر ہیں۔ سیلاب سے کاروبار تباہ ہونےپر انہیں خاندان سمیت بریپ سے نقل مکانی کر نا پڑی اور اب وہ اب چترال شہر میں قیام پذیر ہیں۔

 وہ بتاتے ہیں کہ پچھلی گرمیوں میں برفانی گلشئیر پھٹا تواس علاقے سے گزرنے والے چکن گول نالے میں طغیانی آ گئی۔

سیلاب میں تیار فصلوں کے ساتھ 260 سے زیادہ گھر متاثر یا تباہ اور سیکڑوں افراد بے گھر ہوگئے۔ ایک سو سترہ  ایکڑ سیب اور59 ایکڑ چیری اور آلو بخارے کے باغات ، سڑکیں سکول مسجد ڈسپنسری دکانیں جماعت خانے اور واٹر چینل مسمار ہو گئے تھے۔ یہ جگہیں ابھی تک بحال نہیں ہو سکیں اور علاقے میں زراعت اور روزگار ختم ہو چکا۔

"آغا خان ایجنسی فار ہیبیٹٹ بے گھر لوگوں کے لیے بریپ گاؤں سے چند کلو میٹر دور کوتن لشسٹ اور بیرل لیپ پر پناہ گاہیں بنا رہی ہے لیکن یہ منصوبہ ابھی مکمل نہیں ہوا"

ضلع اپر چترال کی تحصیل مستوج کا گاؤں بریپ وادی یارخون کا گیٹ وے کہلاتا ہے، یہ ضلعی ہیڈ کوارٹرز بونی سے 75کلومیٹر اور چترال شہرسے 140کلومیٹر دور واخان بارڈر کے قریب واقع ہے۔

مقامی ولیج کونسل کے چیرمین موسیٰ نبی کے مطابق بریپ میں کل 832 خاندان رہتے ہیں۔ اس کی مجموعی آبادی پانچ ہزار 482 افراد پر مشتمل ہے اور ان میں زیادہ تر کا تعلق اسماعیلی برادری سے ہے۔ یہاں غربت کے باوجود بیشتر لوگ تعلیم یافتہ اور پرامن ہیں۔

 بریپ اور نواح میں کوئی فیکٹری ہے نہ کارخانہ ،مقامی معیشت اور لوگوں کا روزگار زراعت سے وابستہ ہے۔ یہاں کاشتکار مکئی اور گندم تو اگاتے ہی ہیں لیکن روزی روٹی کا زیادہ تر انحصار باغات پر ہے۔

یوں تو یہاں کی خوبانی، چیری اور آلو بخارے سمیت سارے پھل ہی انتہائی رسیلے ہیں مگر سیب کو بریپ کی سوغات مانا جاتا ہے۔ یہ اتنا میٹھا اور خوش ذائقہ ہوتا ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف اپنے اور دوست و احباب کے لیے یہیں سے سیب منگوایا کرتے تھے۔

اپر چترال میں محکمہ زراعت کے ڈائریکٹر اسلام الحق کے مطابق سیلاب سے پہلے علاقے میں پانچ ہزار ایکڑ پر باغات تھے۔سیب کے ایک کنال باغ سے مالک کو 50 سے 80 ہزار روپے آمدنی ہوتی تھی جو اب ختم ہو گئی ہے۔

بریپ کے رہائشی 42 سالہ فرمان نظارعمر کہتے ہیں کہ باغات کی بیشتر زمین بنجر پڑی ہے، زراعت تباہ ہو چکی ہے اور پچھلے سال سیلاب میں سڑک کا جو حصہ دریا برد ہو گیا تھا اسے دوبارہ ٹھیک نہیں کرایا جا سکا۔ ایسے حالات میں ان کے لیے اپنے بچے کھچے پھلوں کو بھی منڈی بھیجنا ممکن نہیں رہا۔

لیاقت خان نے ریٹائرمنٹ کے بعد خود بھی بریپ میں کاروبارشروع کر لیا تھا مگر چھ کنال باغ کے ساتھ ان کا شاپنگ سنٹر، ٹک شاپ اور پٹرول پمپ بھی سیلاب کی نذر ہوگئے وہ ابھی تک کوئی کام شروع نہیں کر سکے۔

لیاقت بتاتے ہیں کہ سیلاب کے بعد اس وقت کے وزیراعلی محمود خان نےیہاں کا دورہ کیا اور نقصان کے معاوضے کی ادائیگی کے علاوہ اپرچترال کے متاثرہ علاقوں کی نو آبادکاری کیلئے 25 کروڑ روپے دینے اعلان کیا تھا۔ مگر بائیس گھروں کو ڈھائی ڈھائی لاکھ روپے کی ادائیگی کےعلاوہ کسی کو کچھ نہیں ملا۔

مستوج کے اسسٹنٹ کمشنر شاہ عدنان تصدیق کرتے ہیں کہ انہیں سابق وزیراعلیٰ کی اعلان کردہ رقم نہیں ملی، ضلع بھر میں چھ سات سو گھروں کا معاوضہ دیا گیا ہے جبکہ سیکڑوں درخواستوں کی تاحال جانچ پڑتال ہو رہی ہے۔

بیالیس سالہ مسز سراج النساء مقامی سماجی سرگرمیوں میں شامل رہتی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ سیلاب میں نجی املاک کے ساتھ یوٹیلیٹی سٹور، مسجد، اسماعیلی برادری کے تین جماعت خانوں اور گرلز ہائی سکول کو بھی شدید نقصان پہنچا لیکن اب تک کسی حکومتی ادارے نے ان کی بحالی پر توجہ نہیں دی۔

"حکومت ہمارے تباہ شدہ گھروں ، املاک ، فصلوں اور باغات کی زمین کی بحالی کیلئے کچھ تو اقدامات کرے تاکہ ہم بھی اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے گھر کا چولہا جلا سکیں"

متاثرین اپنے نقصان کے ازالے کے لیے باربار احتجاج پر مجبور ہیں۔ بریپ میں ایک ہی ماہ کے دوران دس دیہات کے درجنوں مرد و خواتین نے دو مرتبہ اپنے بچوں سمیت مظاہرے کئے۔ اس دوران علاقے میں مکمل شٹرڈاون ہڑتال رہی اور مظاہرین نے یارخوں بروغل روڈ بند کر دی۔

 یہاں سیلاب 2005ءسے پہلے کبھی نہیں آیا تھا 2015ء اور 2018ء میں بھی علاقے کے دونوں نالوں میں طغیانی آئی لیکن زیادہ نقصان نہیں ہوا تھا۔ تاہم پچھلے سال سیلاب نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی۔

لیاقت خان کا کہنا ہے کہ اس علاقے کے پہاڑوں میں پتھر سے زیادہ مٹی ہے، گلیشئیر سے آنے والا ریلا چکن گول نالے کے کناروں کو بہا لے جاتا ہے،اگر بریپ گاؤں اور سڑک کوبچانا ہے تو حفاظتی پشتہ یا دیوار بنانا ہوگی۔

اسماعیلی برادری سے تعلق رکھنے والے 64 سالہ سماجی کارکن میر رحیم دس کے قریب فلاحی تنظیموں پر مشتمل 'بریپ کلسٹر'کے صدر ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ نالے کے کنارے ان کی برادری کے کے پانچ سو خاندان آباد ہیں۔

"ہر سال پانی ان کے گھروں میں داخل ہو جاتا ہے۔ اہل علاقہ پچھلے بیس سال سے حکومت سے نالے کی صفائی اور اس کے کنارے پختہ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں مگر کوئی نہیں سنتا"۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

تونسہ کے دیہات کی سیلاب سے تباہی: 'بجری بنانے والے کارخانے ہمیں لے ڈوبے'

چار بچوں کی ماں عنبرین بی بی بھی گزشتہ سیلاب کے متاثرین میں شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت متاثرین کے تحفظ اور بحالی پر توجہ نہیں دے رہی۔ جون جولائی میں دوبارہ سیلاب کا خطرہ ہے۔ یہ علاقہ رہنے کے قابل نہیں رہا اس لیے انہیں کسی محفوظ مقام پر منتقل کردیا جائے۔

دوسری جانب عدنان شاہ دعویٰ کرتے ہیں کہ نالے کی صفائی اور اس کے کنارے پختہ کرنے کے لیے محکمہ انہار جلد کام شروع کر دے گا۔

غیر سرکاری تنظیم آغا خان ایجنسی فار ہیبیٹٹ اس علاقے میں سماجی شعبے میں کام کرتی ہے۔ اس تنظیم کے ریجنل پروگرام مینیجر نذیر کا کہنا ہے کہ نالے کی صفائی رواں ماہ شروع کر کرانے کی کوشش کی جائے گی تاکہ جب کبھی دوبارہ سیلاب آئے تو لوگوں کا نقصان نہ ہو۔

مستوج کے ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر نے بھی گذشتہ ماہ متاثرین کو یقین دہانی کرائی تھی کہ انتظامیہ بحالی سے متعلق ان کے اہم مسائل پر فوری توجہ دے گی جس پرمظاہرین نےسڑک توکھول دی تھی لیکن انہیں اپنی مشکلات کم ہوتی نظر نہیں آ رہیں وہ دوبارہ احتجاج کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔

تاریخ اشاعت 13 جولائی 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

سید زاہد جان کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع دیر سے ہے اور وہ گزشتہ باٸیس سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔

ننکانہ صاحب: کسانوں نے گندم کی کٹائی روک دی

thumb
سٹوری

کیا واقعی سولر پینل کی مارکیٹ کریش کر گئی ہے یا کچھ اور؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

" پنجاب میں آٹے کا بحران آنے والا ہے، حکومت کے لیے اچھا نہیں ہو گا"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceبلال حبیب
thumb
سٹوری

پنجاب حکومت کسانوں سے گندم کیوں نہیں خرید رہی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاحتشام احمد شامی

سوات: نادیہ سے نیاز احمد بننے کا سفر آسان نہیں تھا

thumb
سٹوری

الیکٹرک گاڑیاں اپنانے کی راہ میں صارفین کے لیے کیا رکاوٹیں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

پسنی: پاکستان کا واحد "محفوظ" جزیرہ کیوں غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceملک جان کے ڈی

پنجاب: فصل کسانوں کی قیمت بیوپاریوں کی

thumb
سٹوری

بھٹہ مزدور دور جدید کے غلام – انسانی جان کا معاوضہ 5 لاکھ روپے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

چمن: حکومت نے جگاڑ سے راستہ بحال کیا، بارشیں دوبارہ بہا لے گئیں

ہندؤں کا ہنگلاج ماتا مندر، مسلمانوں کا نانی مندر"

ای رکشے کیوں ضروری ہیں؟

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.