خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کس حال میں ہیں؟

postImg

سید زاہد جان

postImg

خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کس حال میں ہیں؟

سید زاہد جان

ملک میں توانائی کا بحران ہے یا گردشی قرضوں کا بوجھ، وجہ کچھ بھی ہو لوگ آئے روز کسی نہ کسی شہر میں بجلی کی لوڈشیڈنگ اور بھاری بھرکم بلوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہوتے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں بھی آج کل گرمی سے پریشان شہری اکثر سڑکوں پر نعرے لگاتے دکھائی دیتے ہیں۔

محمد فہیم پشاور کے رہائشی ہیں جو ایسے ہی ایک مظاہرے میں شریک تھے۔وہ کہتے ہیں کہ  2008ء میں سنا تھا کہ حکومت یہاں دریاؤں پر کئی پن بجلی گھر اور ڈیم بنانے کے منصوبے شروع کر رہی ہے۔ اس بات کو 16 سال گذر گئے لیکن کوئی اچھی خبر نہیں ملی جبکہ لوڈ شیڈنگ کئی گنا بڑھ چکی ہے۔

"گھر میں بچے سو سکتے ہیں نہ خواتین کوئی کام کاج کر سکتی ہیں، محنت کش الگ سے پریشان ہیں۔آخر کوئی بتاتا کیوں نہیں کہ یہ ہائیڈل پاور پراجیکٹس کیوں مکمل نہیں ہو رہے؟ اور ہمیں اس طویل لوڈشیڈنگ سے نجات کب ملے گی؟"

محمد فہیم کے دونوں سوالوں کا جواب تو وقت ہی دے گا۔ تاہم پشاور کے سینئر صحافی مشتاق یوسفزئی سمجھتے ہیں کہ ڈیمز اور ہائیڈل پاور پراجیکٹس  کے منصوبوں میں مختلف حکومتوں نے دلچسپی نہیں لی جس کی وجہ سے واپڈا کے منصوبے تاخیر کا شکار ہوتے چلے گئے۔

وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ خیبر پختونخوا میں گومل زام، گولین گول پاور وغیرہ مکمل ہو چکے ہیں مگر مہمند ڈیم سمیت بڑے منصوبوں پر ابھی کام ہو رہا ہے۔ مرکزی اور صوبائی حکومتیں خصوصاً وفاق ہنگامی اقدامات کرتا تو توانائی کے مسائل پر جلد قابو پایا جا سکتا تھا۔

ان کا ماننا ہے کہ آئی پی پیز کی طرز کے مختلف مافیاز اور سرکاری عہدوں پر بیٹھے ان کے حامی ہائیڈل منصوبوں کی تکمیل میں بڑی رکاوٹ ہیں جو سستی بجلی کی پیداوار کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں جبکہ اس کی سزا عوام لوڈشیڈنگ کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔

پرائیویٹ پاور انفراسٹرکچر بورڈ(وزارت تونائی، پاور ڈویژن) کی 2022ء کی رپورٹ  کے مطابق ملک میں اس وقت کل تقریباً 10 ہزار 852 میگاواٹ ہائیڈل بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت (انسٹالڈ کپیسٹی) ہے جس میں سے لگ بھگ پانچ ہزار 789 میگا واٹ (53 فیصد سے زائد) خیبرپختونخوا میں پیدا ہوتی ہے۔

رپورٹ بتاتی ہے کہ صوبے کے 123 مقامات پر تقریباً 27 ہزار میگاواٹ کے چھوٹے بڑے پاور پراجیکٹ لگائے جا سکتے ہیں جن میں سے 25 پراجیکٹس فعال ہیں جبکہ 14 مقامات پر پبلک سیکٹر میں کام ہو رہا ہے۔

خیبرپختونخوا میں توانائی کے وفاقی منصوبے

وفاقی حکومت توانائی بحران اور سیلابوں پر قابو پانے کے لیے خیبر پختونخوا میں مختلف ہائیڈل پراجیکٹس کی تعمیر پر کام کر رہی ہے جن میں گومل زام ڈیم، گولین گول ڈیم، سکی کناری ہائیڈرو پاور، مہمند ڈیم، داسو سمیت اہم منصوبے شامل ہیں۔

گومل زام ڈیم

جنوبی وزیرستان میں دریائے گومل پر تعمیر کیے جانے والے اس منصوبے پر جولائی 2002ء میں کام شروع کیا گیا تھا جس کے بنیادی مقاصد 17.4 میگاواٹ بجلی کی پیداوار اور علاقے کے ایک لاکھ 63 ہزار ایکڑ رقبے کی آبپاشی تھے۔ ضلع ٹانک کے کسانوں کو پانی کی موثر تقسیم کے لیے  وارن کینال کی تعمیر بھی منصوبے کا اہم حصہ تھا۔

سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اس منصوبے کی بنیاد  70ء کی دہائی کے اوائل میں رکھی تھی اس ڈیم کو 10 سال میں پایہ تکمیل کو پہنچنا تھا لیکن اسے مکمل ہونے میں 47 سال لگ گئے۔ سنہ 2011 میں اس ڈیم کی تکمیل کے مزید سات سال بعد یعنی 2018 میں اس کے نہری نظام سے مقامی زمینوں کی سیرابی کا عمل شروع ہوا۔

واپڈا (پانی وبجلی کا قومی ادارہ) کی سرکاری  ویب سائٹ کے مطابق گومل زام ڈیم کے پہلے نظرثانی شدہ تخمینے کے تحت اس منصوبے پر 20 ارب 62 کروڑ سے زائد رقم خرچ کی جا چکی ہے جس میں سے 10 ارب روپےکے قریب رقم حکومت پاکستان نے خرچ کی جبکہ 10 ارب سے زائد کی غیرملکی (یو ایس ایڈ) امداد شامل تھی۔

ادارہ کہتا ہے کہ 2004ء میں چینی شہری کے اغوا اور قتل کے باعث تعمیراتی کام ڈھائی سال رکا رہا۔ 2006 میں کنٹریکٹ منسوخ کر کے نیا ٹھیکہ 2007ء میں فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کو الاٹ کیا گیا جس کے بعد 2013ء میں کام مکمل کر لیا گیا۔ تاہم کینال اور ذیلی نہریں 2019ء میں چالو کی گئیں۔

قومی ادارہ برائے پانی وبجلی بتاتا ہے کہ 2022ء کے سیلاب میں گومل ڈیم شدید متاثر ہوا جس کے باعث پاور سٹیشن کا یونٹ نمبر ایک بند کرنا پڑا۔ اس سے قبل جنوری 2022ء میں ایکنک نے اس منصوبے کا تقریباً 26 ارب روپے کے تخمینے پر مشمل دوسرا نظرثانی شدہ پی سی ون منظور کرنے کی سفارش کی تھی۔

ڈیم کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کے بارے میں مختلف آرا ہیں۔

جنوبی وزیرستان کے رہائشی فرمان وزیر(فرضی نام) دعویٰ کرتے ہیں کہ گومل زام پاور ہاؤس اور گرڈ سٹیشن کے درمیان 132 کلو واٹ لائن میں مسئلہ تھا جس کی مرمت کرکے بجلی سپلائی بحال کی گئی ہے۔ مقامی لوگ بھی اس سے بڑی حد تک مستفید ہو رہے ہیں لیکن اب بھی لوڈ شیڈنگ جاری ہے۔

تاہم واپڈا کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر لوک سجاگ کو بتایا کہ گومل زام ڈیم سے ڈی آئی خان ، ٹانک اور دیگر اضلاع کو بجلی کی ترسیل کے کمزور سسٹم کے باعث وولٹیج میں کمی آ جاتی ہے۔

سکی کناری ہائیڈل پاور

اسلام آباد سے 248 کلومیٹر دور ضلع مانسہرہ میں دریائے کنہار پر 'سکی کناری ہائیڈرو پاور' کی تعمیر کا کام جنوری 2017ء میں سی پیک کے تحت شروع ہوا جس کی تکمیل سے بجلی کی یومیہ پیداوار 884 میگاواٹ ہو گی۔

سی پیک سیکرٹریٹ  کے مطابق اس پاور پراجیکٹ کی مالی معاونت چینی کمپنی آئی پی پی (انڈیپنڈینٹ پاور پروڈیوسر) کے طور پر کر رہی ہے اور اس منصوبے کی اب تک کی صلاحیت (انسٹالڈ کپیسٹی) 870 میگا واٹ ہے۔

سکی کیاری پراجیکٹ کے جنرل منیجر ہی ژیانگ فی بتاتے ہیں کہ کہ اس منصوبے کی تعمیر کے ابتدائی مراحل شیڈول کے مطابق مکمل کر لیے گئے ہیں۔ ڈیم کی باڈی فلنگ، ڈائیورژن ٹنل لائننگ، پریشر سٹیل لائننگ کی تنصیب، یونٹ کی تنصیب اور انجینئرنگ کے دیگر اہم کام اب تک مکمل ہو چکے ہیں۔

"اس ہائیڈل منصوبے سے سالانہ 3.21 ارب کلو واٹ آور ماحول دوست بجلی پیدا ہو گی جس سے تقریباً 13 لاکھ ٹن کوئلے کے برابر ایندھن کی بچت اور سالانہ 25 لاکھ ٹن کاربن گیسوں کی کمی واقع ہو گی۔"

مانسہرہ کے رہائشی آصف علی بتاتے ہیں کہ سکی کناری پراجیکٹ سے اگلے ماہ بجلی کی ترسیل شروع ہونے کی توقع ہے۔ امید ہے اس سے مقامی لوگوں کو بھی لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نجات ملے گی۔

گولین گو ہائیڈل پاور

چترال میں گولین گول پاور پراجیکٹ کا ابتدائی پی سی ون ایکنک (ایگزیکٹو کمیٹی برائے قومی اقتصادی کونسل) نے 2002ء میں منظور کیا تھا مگر اس میں پیشرفت نہ ہو سکی۔

واپڈا کے مطابق پہلے نظر ثانی شدہ پی سی ون کے تحت گولین گول پاور کی تعمیر کا آغاز فروری 2011ء میں ہوا جو بالآخر جنوری 2018ء میں تکمیل کو پہنچا۔ واپڈا کی زیر نگرانی 29 ارب روپے کی لاگت سے مکمل ہونے والے اس پاور پراجیکٹ کی پیداواری صلاحیت 108 میگاواٹ ہے۔

چترال کے صحافی و سماجی کارکن کمال احمد جمیل بتاتے ہیں کہ یہ ہائیڈرو پاور دریائے مستوج کی معاون شاخ پر'گولین 'کے مقام پر بنایا گیا جس کو دنیا کی بلندترین ٹرانسمشن لائنز میں سے ایک کے ذریعے قومی گرڈ سے منسلک کیا گیا ہے۔

"واپڈا نے چترال سے تیمر گرہ گرڈ سٹیشن تک 180 کلومیٹر طویل ٹرانسمشن لائن بچھائی جو دس ہزار چار فٹ اونچی لواری ٹاپ سمیت برفانی چوٹیوں سے ہوتی ہوئی قومی گرڈ میں شامل ہوتی ہے۔"

وہ کہتے ہیں کہ گولین گول بجلی گھر کے تعمیراتی ڈیزائن میں سیلاب کے خطرات کو نظر انداز کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں 2015ء کے سیلاب نے اس ڈیم کو تباہ کر کے رکھ دیا تھا۔

"کویت سمیت غیر ملکی و قومی سرمائے سے تعمیر ہونے والے اس پاور پراجیکٹ کی پیداواری صلاحیت بہت کم ہو چکی ہے۔اس وقت بمشکل 15 سے 20 میگاواٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے جبکہ سردیوں میں 10 میگاواٹ سے بھی کم ہو جاتی ہے۔"

مہمند ڈیم ضلع مہمند

مہمند ڈیم، پشاور شہر سے 48 کلومیٹر کے فاصلے پر ضلع مہمند، باجوڑ اور چارسدہ کے درمیان دریائے سوات پر تعمیر کیا جا رہا ہے۔ یہ ڈیم بنانے کا فیصلہ 2003ء میں جنرل مشرف کے دور میں کیا گیا جس کی کل لاگت کا تخمینہ اس وقت ایک ارب ڈالر بتایا گیا تھا لیکن بدقسمتی سے یہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہو گیا۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

ضلع خیبر کی زمینیں بنجر ہو رہی ہیں باڑہ ڈیم بننے میں آخر رکاوٹ کیا ہے؟

واپڈا کے مطابق  اس ڈیم کا بنیادی مقصد سیلاب کو روکنا، ساڑھے 16 ہزار ایکڑ رقبے کی آبپاشی، کلین بجلی کی پیداوار اور مقامی لوگوں کی سماجی و معاشی حالت بہتر بنانا ہے۔اس کی مدت تکمیل دسمبر 2025ء مقرر کی گئی ہے۔

مہمند ڈیم پر واپڈا کی زیرنگرانی کام کا آغاز 20 ستمبر 2019ء کو ہوا۔ پی سی ون کے مطابق اس کی لاگت کا تخمینہ لگ بھگ تین کھرب 10 ارب روپے ہے۔ ڈیم کی اونچائی 700 فٹ اور پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 1.2 ملین ایکڑ فٹ ہو گی جبکہ اس میں 800 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہو گی۔

مہمند ڈیم کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان اور چیف جسٹس ثاقب نثار نے اعلان کیا تھا کہ یہ منصوبہ 2024ء تک مکمل کر لیا جائے گا لیکن بعد ازاں اس مدت میں توسیع کر دی گئی۔

مہمند کے رہائشی گل زرین خان کہتے ہیں کہ اس کثیرالمقاصد منصوبے کی تعمیر میں بہت تاخیر ہو چکی ہے۔اگر اب بھی اس کی مقررہ مدت میں تکمیل نہ ہوئی تو لوگوں میں بہت مایوسی ہو گی۔

داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ

واپڈا کے مطابق خیبر پختونخوا کے ضلع کوہستان میں دریائے سندھ پر چار ہزار 320 میگاواٹ کے داسو ہائیڈرو پراجیکٹ  پر کام جون 2017ء میں شروع کیا گیا جہاں جولائی 2022ء تک آر سی سی ڈیم اور اس سے متصل ہائیڈرالک سٹرکچرز کی 18 فیصد تعمیر ہو چکی تھی۔

2022ء کے بدترین سیلاب نے منصوبے کو بہت نقصان پہنچایا، ٹنلز میں پانی بھر گیا جس کی وجہ سے کام رک گیا تھا۔ تقریباً پانچ کھرب 11 ارب روپے کے اس منصوبے کا پہلا مرحلہ مئی 2027ء میں مکمل ہونے کی توقع ہے۔

تاہم داسو ڈیم کی آفیشل ویب سائٹ   نے 21جون 2023ء کو اعلان کیا تھا کہ اپ سٹریم میں 'ڈیم کے کنکریٹ سٹارٹر' کا پہلا مرحلہ مکمل کر لیا گیا ہے۔

قومی ادارہ برائے پانی و بجلی کے مطابق لوئر کوہستان میں 128 میگاواٹ کے ایک اور منصوبے 'کیال خوڑ   ہائیڈرو پاور پراجیکٹ' کی تعمیر کا کام جرمن کمپنی اور یورپین انویسٹمنٹ بینک کے تعاون سے 2016ء میں شروع کیا گیا تھا۔ تاہم اس کا ٹھیکہ 2017ء میں منسوخ کر دیا گیا تھا اور اب اس کے لیے دوبارہ ٹینڈرز مانگے جا رہے ہیں۔

تاریخ اشاعت 26 جولائی 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

سید زاہد جان کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع دیر سے ہے اور وہ گزشتہ باٸیس سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔

لیپ آف فیتھ: اقلیتی رہنماؤں کے ساتھ پوڈ کاسٹ سیریز- رومانہ بشیر

آنند کارج شادی ایکٹ: کیا سکھ برادری کے بنیادی حقوق کو تحفظ مل جائے گا؟

پنجاب: سکھ میرج ایکٹ، آغاز سے نفاذ تک

thumb
سٹوری

"ستھرا پنجاب" کے ورکروں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کا ذمہ دار کون ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceکلیم اللہ

سندھ: 'سب کچھ ثابت کر سکتے مگر اپنی بیوی کا شوہر ہونا ثابت نہیں کر سکے'

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں یا ہائبرڈ بیج؟ دھان کی اگیتی کاشت سے کسانوں کو نقصان کیوں ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ریاض

نمائندے ووٹ لے کر اسمبلی پہنچ جاتے ہیں، اقلیت راہ دیکھتی رہتی ہے

سندھ: ہندو میرج ایکٹ تو پاس ہو گیا مگر پنڈتوں کی رجسٹریشن کب ہو گی؟ نکاح نامہ کب تیار ہو گا؟

thumb
سٹوری

آٹو میٹک مشینوں کے اس جدید دور میں درجنوں سیورمین کیوں مارے جا رہے ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

انرجی بحران: سجاگ کی خصوصی پوڈ کاسٹ سیریز قسط 4، وسیم نذیر

انرجی بحران: سجاگ کی خصوصی پوڈ کاسٹ سیریز قسط 3، طلحہ سعید

انرجی بحران: سجاگ کی خصوصی پوڈ کاسٹ سیریز قسط 2، میاں سلطان محمود

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.