ہمیں جینے دو، ہمیں پانی دو: خیبرپختونخوا کے شمال مغربی علاقے باڑہ میں بنجر ہوتی زمینوں کے کاشت کاروں کی پکار

postImg

اسلام گل آفریدی

postImg

ہمیں جینے دو، ہمیں پانی دو: خیبرپختونخوا کے شمال مغربی علاقے باڑہ میں بنجر ہوتی زمینوں کے کاشت کاروں کی پکار

اسلام گل آفریدی

محمد حسین نامی 30 سالہ زمین دار کا ٹیوب ویل آٹھ ماہ پہلے اچانک خشک ہو گیا۔ انہوں نے 10 سال پہلے یہ ٹیوب ویل تین سو 20 فٹ گہرا بور کر کے لگایا تھا تاکہ اپنی زرعی زمین کو سیراب کر سکیں۔ 

حال ہی میں انہوں نے چھ لاکھ روپے خرچ کر کے چار سو 20 فٹ گہرائی سے پانی کھینچنے والا نیا ٹیوب ویل لگوایا ہے۔ اس کے باوجود ان کا کہنا ہے کہ انہیں مطلوبہ مقدار میں پانی نہیں مل رہا۔ 

وہ خیبرپختونخوا کے شمال مغربی ضلع خیبر کی تحصیل باڑہ میں رہتے ہیں۔ اسی تحصیل کے گاؤں اکاخیل میں رہنے والے 30 سالہ کاشت کار محمد یاسین کہتے ہیں کہ 10 سال پہلے مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت لاکھوں روپے جمع کر کے ایک ٹیوب ویل لگایا تھا جس کے لیے زمین میں تین سو فٹ گہرا بور کیا گیا تھا لیکن جب اسے چالو کیا گیا تو اس میں سے صرف دس منٹ پانی نکلا۔ تب سے یہ ٹیوب ویل مسلسل خشک ہے۔  

اکا خیل پشاور سے 15 کلومیٹر مغرب میں واقع ہے۔ یہاں آفریدی قبیلے کی مختلف شاخوں سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کچھ عرصے پہلے ان کا گاؤں اپنے اردگرد کے علاقوں کی نسبت کافی زرخیز تھا کیونکہ اس کا زیرِ زمین پانی بآسانی باہر نکالا جا سکتا تھا لیکن، محمد یاسین کے بقول، "اب پانی کی کمی کے باعث اس کی زرخیزی بالکل ماند پڑ گئی ہے"۔

نتیجتاً اکا خیل میں صرف بہار کے دنوں میں سبزہ دکھائی دیتا ہے۔ وہ بھی موسم میں حدت آتے ہی جھلس جاتا ہے۔ گاؤں میں کھیتی باڑی بھی نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے جبکہ، فضلِ ربی نامی مقامی کاشت کار کے مطابق، کچھ ہفتے پہلے یہاں پینے کا پانی بھی آسانی سے دستیاب نہیں تھا۔ 

اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے مارچ 2022 میں حکومت نے یہاں اپنے خرچے پر ایک ٹیوب ویل لگایا ہے جس کے لیے چار سو 80 فٹ گہرا بور کیا گیا ہے۔ اس کی تنصیب سے مقامی لوگ خوش ہیں کیونکہ اب انہیں روزمرہ کی ضروریات کے لیے دور دراز علاقوں سے پانی بھر کر نہیں لانا پڑتا۔

خشک سالی کے خدشات

زیرِزمین پانی کی سطح میں کمی کی شکایات صرف باڑہ تک محدود نہیں بلکہ خیبرپختونخوا کے 35 میں سے 28 اضلاع اس مسئلے سے دوچار ہیں۔ 27 اگست 2021 کو وفاقی وزارتِ پانی و آبی ذخائر نے سینیٹ میں پیش کی جانے والی ایک رپورٹ میں اس امر کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا  کہ صوبے کے کچھ ضلعوں میں زیرِ زمین پانی کی سطح پچھلے 10 سال سے اتنی تیزی سے گر رہی ہے کہ آئندہ چند سالوں میں انہیں شدید خشک سالی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک دہائی میں ضلع خیبر میں زیرِزمین پانی کی سطح 74 فٹ گِر گئی ہے جبکہ اسی عرصے میں ضلع ہری پور میں اس میں 61.50 فٹ کمی آئی ہے۔ اسی طرح مہمند، باجوڑ اور کرم کے اضلاع میں اس کی سطح میں 57.42 فٹ، 32.79 فٹ اور 25.75 فٹ تنزلی دیکھنے میں آئی ہے۔ صوبائی محکمہ پبلک ہیلتھ کا کہنا ہے کہ زیرِزمین پانی میں کمی کے نتیجے میں صوبے کے مختلف حصوں میں نصب تقریباً پانچ سو ٹیوب ویل خشک ہو چکے ہیں۔ 

ٹیوب ویلوں اور کنوؤں کی تعمیر کے لیے زیرِزمین پانی کی جانچ کا کام کرنے والے سلیم خان ان اعددوشمار کی توثیق کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کئی سال پہلے انہوں نے جن لوگوں کو ٹیوب ویل لگانے میں مدد دی تھی ان میں سے بیشتر شکایت کرنے لگے ہیں کہ ان کے ٹیوب ویل اب زمین سے پانی کھینچ نہیں پاتے۔

پانی کے معیار اور مقدار کے حوالے سے تحقیق اور منصوبہ بندی کرنے والے قومی ادارے پاکستان کونسل برائے تحقیقِ آبی وسائل کے سربراہ ڈاکٹر منیب خٹک بھی سلیم خان سے متفق ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 2010 کے بعد خیبرپختونخوا کے کچھ علاقوں میں زیرزمین پانی کی سطح ہر سال 13 فٹ سے 16 فٹ نیچے جا رہی ہے۔ ان کے مطابق اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ٹیوب ویلوں اور کنوؤں کے ذریعے زمین سے بڑی مقدار میں پانی نکالا جا رہا ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث حالیہ سالوں میں بارشیں کم ہو گئی ہیں جس کے باعث زیرِزمین پانی کے ذخائر دوبارہ نہیں بھر رہے۔ 

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ زرعی زمینوں کو روایتی طریقے سے سیراب کرنے سے پانی کی بڑی مقدار ضائع ہو جاتی ہے لیکن اس کے باوجود حکومت مزید ٹیوب ویلوں کی تنصیب اور کنوؤں کی کھدائی کو روکنے کے لیے کوئی قانون نہیں بنا رہی۔ اس طرح، ان کے مطابق، کارخانوں، رہائشی علاقوں، تجارتی سرگرمیوں اور گاڑیاں دھونے والے سروس سٹیشنوں میں بے شمار پانی ضائع ہو رہا ہے جسے دوبارہ استعمال میں لانے کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی جا رہی۔ 

اگرچہ خیبرپختونخوا اسمبلی نے انہی مسائل کے حل کے لیے جولائی 2020 میں واٹر ریسورس ریگولیٹری اتھارٹی قائم کرنے کا قانون بنایا تھا لیکن اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی اتھارٹی کا ابھی تک صرف ایک اجلاس ہی ہو سکا ہے۔ 

سیاسی وعدے، کاغذی منصوبے

پاکستان کونسل برائے تحقیقِ آبی وسائل نے 21-2020 میں اسلام آباد کے چند علاقوں میں بارشوں کے پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے کچھ چھوٹے ڈیم تعمیر کیے جن کی وجہ سے وہاں زیرِزمین پانی کی سطح تقریباً ساڑھے چھ فٹ بلند ہو گئی۔ اب یہ کونسل خیبر پختونخوا کے دو جنوبی اضلاع کوہاٹ اور ہنگو میں بھی اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی مدد سے ایسے ہی ڈیموں کی تعمیر کر رہی ہے۔ اسی طرح باڑہ میں مستورہ کے مقام پر اور ضلع خیبر کی دوسری تحصیل جمرود میں جبہ کے مقام پر بھی بارشی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے دو ڈیم بنانے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر منیب خٹک کا کہنا ہے کہ خیبر میں بہت سے برساتی نالے بہتے ہیں اس لیے یہ ضلع چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کے لیے بہت موزوں ہے۔ ان کے مطابق ان ڈیموں کی تعمیر سے نہ صرف اس علاقے میں آنے والے سالانہ سیلاب پر قابو پایا جا سکتا ہے بلکہ مقامی لوگوں کی پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے آبی ذخائر بھی بنائے جا سکتے ہیں۔ 

لیکن سرکاری دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ ان دونوں ڈیموں کی تعمیر کا منصوبہ دراصل 10 سال سے بھی زیادہ پرانا ہے۔ ان دستاویزات کے مطابق مستورہ ڈیم کے قابلِ عمل ہونے کے بارے میں سرکاری رپورٹ 2007 میں مکمل کر لی گئی تھی جبکہ جبہ ڈیم کے متعلق ایسی ہی رپورٹ 2008 میں بنائی گئی تھی۔ 

سابق وزیر اعظم عمران خان نے بھی 5 اپریل 2019کو جمرود کے دورے میں ان دونوں ڈیموں کی تعمیر کا اعلان کیا تھا جبکہ جنوری 2020 میں صوبائی حکومت نے جبہ ڈیم کے لیے نو ارب 90 کروڑ 65 لاکھ روپے مختص کرنے کی منظوری بھی دی تھی۔ لیکن اس تمام پیش رفت کے باوجود ان دونوں ڈیموں کی تعمیر کا منصوبہ ابھی تک صرف سرکاری کاغذوں پر موجود ہے اور اس پر عملی کام شروع بھی نہیں ہو سکا۔

تاریخ اشاعت 3 جون 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

اسلام گل آفریدی پچھلے سولہ سال سے خیبر پختونخوا اور ضم شدہ قبائلی اضلاع میں قومی اور بیں الاقوامی نشریاتی اداروں کے لئے تحقیقاتی صحافت کر رہے ہیں۔

thumb
سٹوری

ماحول دوست الیکٹرک رکشوں کے فروغ کے لیے کون سے اقدامات کی ضرورت ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

مردوں کے راج میں خواتین کو شناختی کارڈ بنانے کی اجازت نہیں

سینٹ کے پیچیدہ طریقہ انتخاب کی آسان ترین وضاحت

فیصل آباد: کرسمس کے بعد ایسٹر پر بھی مسیحی ملازمین تنخواہوں سے محروم

گندم: حکومت خریداری میں سنجیدہ نہیں، کسانوں کو کم قیمت ملنے کا خدشہ

thumb
سٹوری

گولاڑچی کے بیشتر کسان اپنی زمینوں کے مالک کیوں نہیں رہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضا آکاش

مسکان مسیح کے والدین کی "مسکان" کس نے چھینی؟

معذوروں کے چہرے پر خوشیاں بکھیرتے کمپیوٹرائزڈ مصنوعی اعضا

thumb
سٹوری

کیا قبائلی اضلاع میں سباون سکولز انشی ایٹو پروگرام بھی فلاپ ہو جائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceخالدہ نیاز
thumb
سٹوری

ضلع میانوالی کے سرکاری کالجوں میں طلباء کی تعداد کم کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفیصل شہزاد

ڈیجیٹل امتحانی نظام، سہولت یا مصیبت؟

سندھ: ہولی کا تہوار، رنگوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.