'شرعی نکاح' یا رجسٹر والا نکاح: کم عمری کی شادی کی روایت نے نیا راستہ ڈھونڈ لیا

postImg

ماہ پارہ ذوالقدر

postImg

'شرعی نکاح' یا رجسٹر والا نکاح: کم عمری کی شادی کی روایت نے نیا راستہ ڈھونڈ لیا

ماہ پارہ ذوالقدر

فروری 2022ء میں جب خالدہ کی شادی اپنی چچی کے بھائی سے ہوئی تو ان کی عمر 13 سال تھی اور وہ پانچویں جماعت میں پڑھتی تھیں۔ دولہا ظفر اللہ 35 سال کا تھا۔

خالدہ میانوالی کی تحصیل عیسیٰ خیل کے علاقہ کمر مشانی میں رہتی ہیں۔ ان کی شادی بدلے کی شادی تھی۔

وہ جس سکول میں پڑھتی تھیں اس کی ہیڈ مسٹرس نے لوک سجاگ کو بتایا:

"شادی سے کچھ دن پہلے خالدہ کی ماں سکول آئیں اور منت سماجت کرنے لگیں کہ ہمیں بیٹی کا تاریخ پیدائش کا سرٹیفیکٹ بنا کر دیں جس میں اس کی عمر کم از کم 18 سال درج ہو"۔

ہیڈمسٹرس نے انہیں سمجھایا کہ ایسا ممکن نہیں کیونکہ سکول کے طلباء و طالبات کا ڈیٹا سکول میں داخلے کے وقت سکول انفارمیشن سسٹم کی آن لائن ایپلیکیشن میں ب فارم کے مطابق درج ہوتا ہے اور اس میں تبدیلی ممکن نہیں ہوتی۔

"اگلے دن اس کی ماں پھر سکول آئی اور مجھے پانچ ہزار روپے پیش کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ ہمیں سرٹیفیکٹ دیں، ہم نے بچی کی شادی کرنی ہے۔

اس بات پر میں نے انہیں تنبیہہ کی اور واضح الفاظ میں کہا کہ اس سلسلے میں دوبارہ سکول مت آئیے گا"۔

ایک ہفتہ بعد خالدہ کی شادی 35 سالہ ظفراللہ سے بذریعہ 'شرعی نکاح' دھوم دھام سے ہوئی جسے کسی حکومتی ادارے نے نہ روکا۔

اس اختراع کے تحت خاندان کا کوئی بزرگ گواہان کی موجودگی میں ایجاب و قبول کے بعد لڑکے، لڑکی کو نکاح کے بندھن میں منسلک قرار دے دیتا ہے لیکن اس رشتے کا اندراج نکاح خواں کے رجسٹر یا یونین کونسل میں کروایا ہی نہیں جاتا تاکہ قانون کی گرفت سے بچا جا سکے۔

دس سال پہلے ظفر اللہ کی شادی خالدہ کی پھپھو سے طے پائی تھی لیکن ان کا انتقال ہو گیا جس کے بعد ظفراللہ کا خاندان، خالدہ کے خاندان پر مسلسل دباؤ ڈالتا رہا کہ ان کے 'نقصان' کا ازالہ کرنے کے لیے انہیں اپنے خاندان کی کسی اور لڑکی کا رشتہ دیا جائے۔ اسی دباؤ میں خالدہ کے والد نے ظفراللہ کو اپنی کم عمر بیٹی ہی تھما دی۔

حال ہی میں اسی گاؤں سے کم عمری کی شادی کے تین مزید واقعات رپورٹ ہوئے۔ یہ تمام شادیاں بذریعہ 'شرعی نکاح' سر انجام پائیں یعنی نکاح کی مذہبی رسم تو ادا کی گئی لیکن شادی کا سرکاری کھاتوں میں اندارج نہیں کروایا گیا۔

<p>پنجاب میں کم عمر بچے یا بچی سے شادی کی سزا چھ ماہ قید اور 50 ہزار روپے جرمانہ ہے<br></p>

پنجاب میں کم عمر بچے یا بچی سے شادی کی سزا چھ ماہ قید اور 50 ہزار روپے جرمانہ ہے

ثمینہ بی بی کی عمر تقریباً 15 سال ہے اور وہ تحصیل میانوالی کے گاؤں ٹبی داخلی کندیاں کی رہائشی ہے۔ان کی طلاق یافتہ والدہ اپنی بیٹی کے ہمراہ کرایہ کے مکان میں رہتی ہیں۔

مالک مکان باربار ثمینہ کی والدہ کو اپنے معذور بیٹے کے رشتے کے لیے پیغامات بھیج رہے تھے جس سے تنگ آکر انہوں نے ثمینہ کی شادی اپنے 28 سالہ ماموں زاد سے کر دی گئی جو پاکستان آرمی میں بطور کلرک ملازمت کرتا ہے۔

ثمینہ کی والدہ نے لوک سجاگ کو بتایا: "ہم نے امام مسجد صاحب سے نکاح پڑھانے کے لیے رابطہ کیا تو اس نے بچی کا ب فارم دیکھ کر نکاح پڑھانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ 16 سال سے کم عمر بچی کا نکاح رجسٹر میں درج نہیں ہو سکتا۔ پھر میرے بڑے بھائی نے ثمینہ کا شرعی نکاح گھر میں ہی پڑھا دیا"۔

اقوامِ متحدہ کے کمیشن برائے بچوں کے حقوق کے مطابق شادی کی کم سے کم عمر 18 سال مقرر ہے۔ گو حکومت پاکستان اس عالمی اصول کو قبول کرتی ہے لیکن پاکستان کے قانون میں شادی کے لیے لڑکے کی کم سے کم عمر 18 سال اور لڑکی کی عمر 16 سال مقرر کی گئی ہے۔

مسلم فیملی لاز آرڈیننس مجریہ 1961 کے ذریعے کم عمری کی شادیاں روکنے کے لیے نکاح رجسٹرار کو پابند کیا گیا تھا کہ کم عمر بچوں اور بچیوں کی شادیوں کو رجسٹرنہ کیا جائے۔

اس کے علاوہ نکاح نامے کو بھی ازسر نو ترتیب دیا گیا تھا تاکہ دولہا اور دلہن کی باہمی رضا مندی کو یقینی بنایا جا سکے۔ نکاح نامے پر دلہن کے انگوٹھے کے نشان یا دستخط کو لازمی قرار دیا گیا اور نکاح خواں کو پابند کیا گیا کہ وہ تمام دستخط اپنی نگرانی میں مکمل کرائے۔

2005ء میں لوکل گورنمنٹ پنجاب اور محکمہ دیہی ترقی نے تمام ضلعی رابطہ آفیسرز کو ہدایا ت جاری کیں کہ مسلم فیملی لاز آرڈیننس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے اور ان نکاح خواہان کے لائسنس منسوخ کر دیئے جائیں جو ان قوانین پر عمل پیرا نہیں ہوتے۔

دو سال بعد حکومت نے شادی رجسڑیشن فارم کا اجراء کیا جس کے تحت نادرا کے ذریعے دولہا اور دلہن کے کوائف اکٹھے کئے گئے جس میں شناختی کارڈ یا فارم ب کے ساتھ ساتھ عمر کا اندراج بھی کیا جاتا ہے۔

2010ء میں منظور ہونے والی 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد شادی بیاہ کے معاملات صوبائی حکومتوں کے زیرِاختیار آ گئے۔

<p>معاشرتی و مذہبی روایات کی وجہ سے کم عمری کی شادی کو معمولی سی بات سمجھا جاتا ہے<br></p>

معاشرتی و مذہبی روایات کی وجہ سے کم عمری کی شادی کو معمولی سی بات سمجھا جاتا ہے

صوبہ پنجاب نے شادی کے قانون میں ترمیم کا بل 2015ء منظور کیا جس کے تحت اگر کوئی 18 سال سے زائد عمر کا شخص کم عمر بچے (18 سال سے کم عمر لڑکے یا 16 سال سے کم عمر لڑکی) سے شادی کرے گا تو وہ چھ ماہ قید اور 50 ہزار روپے جرمانہ کا سزا وار ہو گا۔

اسی ترمیم کی شق نمبر 5 کم عمری کی شادی کرانے والے نکاح خواں کے لیے بھی یہی سزا متعین کی ہے جبکہ شق نمبر 6 والدین کو بھی اسی سزا کا مستحق قرار دیتی ہے۔

تاہم یہ قانون بھی کم عمری کی شادی روکنے میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ثابت ہوا۔ والدین نے قانون سے بچنے لے لیے 'شرعی نکاح' کا راستہ نکال لیا ہے۔

سیکرٹری یونین کونسل کمر مشانی، تحصیل عیسیٰ خیل، شفاءاللہ خان کہتے ہیں کہ "کم عمری کی شادیاں سر انجام ہی شرعی نکاح کے ذریعے پاتی ہیں جسے رجسٹر نہیں کروایا جاتا۔ تاہم جب ایسے جوڑے کی اولاد پیدا ہوتی ہے تو پیدائش سرٹیفکیٹ و دیگر کاغذات کے لیے نکاح نامہ کی ضرورت پڑتی ہے۔ تب نکاح خواں/رجسٹرار کو کچھ پیسے دے کر نئی تاریخوں میں نکاح نامہ بنوا لیا جاتاہے جس کے بعد یونین کونسل سے سرٹیفکیٹ بھی بن جاتا ہے"۔
ایسے کیسز پولیس اسٹیشنز میں شاذ و نادر ہی درج کیے جاتے ہیں۔

ضلعی پولیس آفیسر میانوالی کے ڈیٹا سیل کے اہلکار زمان صاحب نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ضلع بھر میں پچھلے تین سالوں میں کم عمری کی شادی کا ایک کیس بھی رپورٹ نہیں ہوا۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

شادی کے بوجھ تلے دبی بچیاں: شیڈولڈ کاسٹ ہندوؤں میں کم عمری کی شادیاں بچیوں کی صحت کے لیے مہلک رجحان۔

اس سلسلے میں ڈسٹرکٹ سیشن کورٹ میانوالی کے انفارمیشن انچارج محمد عرفان نے بتایا کہ "2015 میں ترمیمی بل کی منظوری کے بعد کم عمری کی شادی کی سزا میں اضافہ کیا گیا لیکن معاشرتی و مذہبی روایات کم عمری کی شادی کو سپورٹ کرتی ہیں جس کی وجہ سےڈسٹرکٹ کورٹ میانوالی میں ایک کیس بھی سامنے نہیں آیا جو کم عمری کی شادی سے متعلق ہو"۔

اسماء مشتاق گزشتہ 10 سال سے ڈسٹرکٹ بار میانوالی میں وکالت کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "قوانین سے لا علمی اور معاملے کی اہمیت کا ادراک نہ ہونے کے سبب ہمارے ہاں ایسے کیسز رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔حال ہی میں منظر عام پر آنے والا دعا زہرا کیس لوگوں کے لیے کم عمری کی شادی سے زیادہ اغواء کی کہانی تھا"۔ اسماء سمجھتی ہیں کہ اس حوالے سے علماء کا کردار بہت اہم ہے۔

نکاح خواں عموماً علماء ہی ہوتے ہیں، لیکن وہ اپنے خطبات میں اس موضوع پر کم ہی بات کرتے ہیں۔

"شادی کی کم سے کم عمر کی حد کے حوالے سے علماء میں واضح اتفاقِ رائے نہ ہونے کے سبب عام لوگ اس کو جرم تصور ہی نہیں کرتے۔ وہ اسے معمولی سی بات سمجھتے ہیں"۔

 نوٹ: کم عمر دلہنوں کی پہچان چھپانے کے لیے ان کے اصل ناموں کو فرضی ناموں سے بدل دیا گیا ہے۔

تاریخ اشاعت 3 اپریل 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

ماہ پارہ ذوالقدر کا تعلق میانوالی سے ہے اور درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہیں۔ ان کے پسندیدہ موضوعات میں ماحول، تعلیم، سماجی مسائل خصوصاً خواتین و بچوں کے مسائل شامل ہیں۔

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

thumb
سٹوری

"ہماری عید اس دن ہوتی ہے جب گھر میں کھانا بنتا ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

thumb
سٹوری

قصور کو کچرہ کنڈی بنانے میں کس کا قصور ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

افضل انصاری
thumb
سٹوری

چڑیاں طوطے اور کوئل کہاں غائب ہو گئے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنادیہ نواز

گیت جو گائے نہ جا سکے: افغان گلوکارہ کی کہانی

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.