جنوبی وزیرستان میں ماحول کی خوبصورتی اور ارضی زرخیزی ماند پڑنے کا خطرہ

postImg

شہریار محسود

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

جنوبی وزیرستان میں ماحول کی خوبصورتی اور ارضی زرخیزی ماند پڑنے کا خطرہ

شہریار محسود

loop

انگریزی میں پڑھیں

پاکستان میں کم لوگ ہی جانتے ہیں کہ 'بری خبروں' کی وجہ سے تذکروں میں رہنے والا وزیرستان کا خطہ خیبر پختونخوا کے زرخیز ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ سالانہ اربوں روپے کے چلغوزے پیدا کرنے والا یہ علاقہ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں منقسم ہے۔ جنوبی وزیرستان قبائلی علاقوں کے کل رقبے کا چالیس فیصد ہے اور یہاں نئی انتظامی تقسیم کے تحت اسے دو اضلاع میں تقسیم کر دیا گیا ہے جس میں محسود قبائل کا علاقہ اپر جنوبی وزیرستان جبکہ وزیر قبائل کا علاقہ لوئر جنوبی وزیرستان کہلاتا ہے۔

اس خطے میں لوئر وزیرستان کے علاقے وانا کے لوگوں کی بڑی تعداد زرعی سرگرمیوں اور سبزیوں، پھلوں کی کاشت سے منسلک ہے اور مقامی طور پر کہا جاتا ہے کہ وزیرستان میں زرعی انقلاب انہی کی بدولت آیا ہے۔ وانا اور ملحقہ علاقوں کی پیداوار پاکستان بھر کی سبزیوں اور پھلوں کی منڈیوں تک پہنچتی ہے۔

خیبرپختونخوا حکومت کے مطابق قبائلی اضلاع سے مارکیٹ میں پہنچنے والے 73 فیصد پھل جنوبی وزیرستان سے آتے ہیں۔ حالیہ انتظامی تقسیم کے تناظر میں دیکھا جائے تو  اس میں سے 71 فیصد پھل وانا سے مارکیٹ میں پہنچ رہا ہے۔

پھلوں کے کاروبار سے وابستہ رفیق الدین وزیر کہتے ہیں کہ وانا کی مٹی قدرت کا تحفہ ہے یہاں دوسرے علاقوں کی نسبت پودے کی نشوونما بیس سے پچیس فیصد تیزی سے ہوتی ہے لیکن گزشتہ چند برس سے وانا میں زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک کم ہو رہی ہے جس کی وجہ سے یہاں کی زراعت متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

وانا سے تعلق رکھنے والے انجینئر سیف الرحمن وزیر کے مطابق پانی کی سطح ہر سال 30 سے 40 فٹ نیچے جارہی ہے جو آنے والے وقتوں کیلئے تباہی کا پیغام ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ وانا میں 10 سے 20 ہزار کے درمیان سولر ٹیوب ویل چل رہے ہیں جو کہ پانی کی تیزی سے کم ہوتی سطح کے پیش نظر نہایت خطرناک بات ہے۔

بجلی کی عدم دستیابی کے باوجود ٹیوب ویلوں کی اتنی بڑی تعداد کے بارے میں سیف الرحمٰن وزیر کا کہنا ہے کہ وانا کی ساڑھے چار لاکھ کی آبادی میں تین لاکھ سے زیادہ افراد نے باغات لگا رکھے ہیں، ان میں سے اکثر لوگ ایسے ہیں جن کے کئی کئی باغات ہیں، یہ سارے باغات ٹیوب ویل کے پانی پر انحصار کرتے ہیں جنہیں سولر انرجی سے چلایا جاتا ہے۔

"سولر انرجی کے باعث بجلی کے بلوں کا خرچہ تو ہے نہیں، سارا دن موٹریں چلتی ہیں، اس طرح زمین سے بے دریغ نکالے جانے والے پانی کی مقدار ضرورت سے بھی زیادہ ہوتی ہے اور اس کا بڑا حصہ ضائع ہو جاتا ہے۔"

سیف الرحمٰن کے مطابق اس وقت وانا یا مجموعی طور پر ضلع لوئر جنوبی وزیرستان میں ہنگامی بنیادوں پر چھوٹے ڈیم بنانے کی ضرورت ہے، بصورت دیگر آنے والے سالوں میں پانی کی ایسی قلت پیدا ہو گی کہ لوگوں کو علاقہ چھوڑنا پڑ سکتا ہے۔

وانا میں پانی کی سطح میں کمی کے بارے میں آگاہی پھیلانے اور اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے کئی سال سے متحرک سماجی تنظیم وانا ویلفیئر ایسوسی ایشن کے کرتا دھرتا اس بارے میں لوگوں کو خبردار کرتی آئی ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان تنظیم کی درخواست پر اس مسئلے کے جائزے کیلئے پچاس کروڑ روپے کی منظوری دی جو کہ سالانہ ترقیاتی پروگرام (اے ڈی پی) کا حصۃ تھی۔ لیکن تحریک انصاف کی صوبائی حکومت اس اجتماعی مسئلے کے جامع حل پر قائم نہ رہ سکی اور ہر گزرتے دن کے ساتھ فیزیبلٹی رپورٹ کے مطابق حل کے بجائے کئی چھوٹے منصوبوں میں بٹ گئی۔

سینئر صحافی دلاور خان وزیر وانا میں پانی کے مسئلے کی نشاندہی اور حل کی کوششوں میں کافی عرصے سے سرگرم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پانی کی سطح میں کمی سے وانا کی خوبصورتی اور ذرخیزی بھی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وانا میں چھوٹے ڈیم بنانے کی ضرورت ہے۔ آئندہ چند روز میں ایک تکنیکی ٹیم وانا کا دورہ کر رہی ہے جو ایسے ڈیم بنانے کے لیے موزوں جگہوں کا جائزہ لے گی۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

راجن پور میں زیرزمین پانی میں کیمیائی مادوں کی مقدار خطرناک حد سے تجاوز کر گئی، شہریوں کی صحت اور زندگی کو خطرہ

صورتحال کی سنگینی کے پیش نظر گزشتہ دنوں وانا میں احمد زئی وزیر  قبیلے کے نو بڑے ذیلی قبائل پر مشتمل جرگے کا انعقاد کیا گیا جس میں اہم علاقائی مشران نے شرکت کی۔

اس جرگے میں شامل تمام قبائل کے نمائندے اس مسئلے کے حل کیلئے پرعزم تھےجنہوں نے مشترکہ اعلان میں کہا کہ سمال ڈیم بننے کی صورت میں قبائلی علاقوں میں مروجہ معاوضہ (قومی کمیشن) بھی نہیں لیا جائے گا جس کا مطلب یہ ہے کہ علاقے کے لوگ اس خطرناک مسئلے کے حل کیلئے باہم متفق ہیں۔

وانا ویلفیئر ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری جلال وزیر نے اس بارے میں بتایا کہ پانی کا مسئلہ ان کے علاقے کے مستقبل کیلئے اہم ہے اور تکنیکی سروے کے مطابق زیرزمین آبی سطح میں کمی سے ٹیوب ویلز کا پانی بھی خشک ہوتا جا رہا ہے۔ علاقے کے لوگوں، مشران اور نوجوانوں کی کوشش ہے کہ اس مسئلے کو قومی اتفاقِ رائے سے حل کیا جائے اور اس مقصد کا حصول ان کے لئے بڑی کامیابی ہو گی۔

تاریخ اشاعت 19 اکتوبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

شہریار محسود 2006/007 سے بد امنی سے متاثرہ ضلع جنوبی وزیرستان سے صحافت کر رہے ہیں اور مقامی اخبارات کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر لکھتے آرہے ہیں۔

thumb
سٹوری

گیس لیکج اور سلنڈر پھٹنے کے بڑھتے ہوئے واقعات: "توانائی کے متبادل ذرائع انسانی زندگیاں بچا سکتے ہیں"

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

بجلی کے لیے اربوں روپے کے ڈیم ضروری نہیں

thumb
سٹوری

کروڑہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ: ترقی یا مقامی وسائل کی قربانی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

کیا زیتون بلوچستان کی زراعت میں خاموش انقلاب ثابت ہو گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعاصم احمد خان
thumb
سٹوری

سولر سسٹم اور لیتھیم بیٹری: یک نہ شد دو شد

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

بلوچستان کی دھوپ اور قیمتی ہوائیں ملک کو کیسے گرین توانائی کا حب بنا سکتی ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعاصم احمد خان

پاکستان کے پانی کی کہانی

thumb
سٹوری

"ہمارا روزگار، ماحول، زمین سب تباہ کرکے بڑے شہروں کو بجلی دینا کوئی ترقی نہیں۔"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

زرعی ٹیوب ویلوں کی شمسی توانائی پر منتقلی میں تاخیر: "ہر بار کہتے ہیں فنڈز نہیں آئے، نام اگلی لسٹ میں ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceدانیال بٹ
thumb
سٹوری

پولیس سے چھپتے افغان طلبہ، ڈگری ادھوری رہنے کا خوف، نہ کوئی ہاسٹل نہ جائے پناہ

arrow

مزید پڑھیں

دانیال عزیز
thumb
سٹوری

سوات کی توروالی کمیونٹی ورلڈ بینک سے کیا چاہتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسہیل خان
thumb
سٹوری

"لگتا تھا بجلی، پنکھا ہمارے مقدر میں ہی نہیں، اچھا ہوا کسی کو تو غریبوں کی تکلیف یاد آئی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.