ملک میں سب سے زیادہ ہندو آبادی سندھ کے ضلع عمر کوٹ میں رہتی ہے جہاں لگ بھگ 52 فیصد لوگ ہندو دھرم سے تعلق رکھتے ہیں۔آئندہ انتخابات میں اس ضلعے میں ایک قومی اور تین صوبائی نشستیں کے لیے انتخابات ہوں گے جن میں اس بار بھی ہندو برادریوں کا ووٹ فیصلہ کن کردار ادا کرے گا۔
اس ضلع میں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد پانچ لاکھ 89 ہزار 350 ہے جس میں دو لاکھ 78 ہزار 379 خوتین اور تین لاکھ 10 ہزار 971 مرد ووٹرز ہیں۔
گزشتہ انتخابات میں یہاں کی واحد قومی اور تینوں صوبائی نشستیں پیپلزپارٹی نے جیتی تھیں۔ یہاں پی پی نے اس انتخابی معرکے کے لیے سابقہ امیدوار کھڑے کیے ہیں جن کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے امیدوار آزاد لڑ رہے ہیں جبکہ نواز لیگ اور جی ڈی اے نے مشترکہ امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔
این اے 213 عمرکوٹ پر پیپپلز پارٹی سے نواب محمد یوسف تالپر، پی ٹی آئی کے سابق ایم این اے لالچند مالھی اور جی ڈی اے کی اتحادی ن لیگ کے میر امان اللہ تالپر مد مقابل ہیں۔
اس ضلعے کی انتخابی سیاست پر برادریوں، پیروں، گدی نشینوں اور اقلیتی سیاسی رہنماؤں کی گرفت خاصی مضبوط ہے۔ جس کے سبب غوثیہ جماعت کے سربراہ شاہ محمود قریشی یہاں سے قومی نشست پر دو مرتبہ الیکشن لڑ چکے ہیں اور اب سندھ سے تیسری بار امیدوار ہیں۔
عمرکوٹ نئی حلقہ بندیاں 2023
2018 کا قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 220 عمرکوٹ اب این اے 213 عمرکوٹ ہے
عمر کوٹ کا یہ حلقہ ضلع عمر کوٹ کی مکمل آبادی پر مشتمل ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
2018 کا صوبائی اسمبلی کا حلقہ پی ایس 51 عمر کوٹ 1 اب پی ایس 49 عمرکوٹ 1 ہے
یہ حلقہ پورے پتھورو تعلقے، پورے سمارو تعلقے اور عمرکوٹ تعلقے کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ 2023ء کی نئی حلقہ بندیوں کے مطابق اس حلقے سے عمر کوٹ تعلقے کے صوفی ٹپے دار سرکل کو نکالا گیا ہے۔
2018 کا صوبائی اسمبلی کا حلقہ پی ایس 52 عمرکوٹ 2 اب پی ایس 50 عمرکوٹ 2 ہے
یہ حلقہ عمرکوٹ تعلقے کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ 2023ء کی نئی حلقہ بندیوں کے تحت اس حلقے سے کھیجراڑی ٹپے دار سرکل، سیراٹھی ٹپے دار سرکل اور قاضی محمد درس ٹپے دار سرکل کو نکالا ہے۔
2018 کا صوبائی اسمبلی کا حلقہ پی ایس 53 عمرکوٹ 3 اب پی ایس 51 عمرکوٹ 3 ہے
یہ حلقہ پورے کُنری تعلقہ اور عمرکوٹ تعلقے کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ 2023ء کی نئی حلقہ بندیوں کے تحت اس حلقے میں عمرکوٹ تعلقے کے کھیجراڑی ٹپے دار سرکل، سیراٹھی ٹپے دار سرکل، قاضی محمد درس ٹپے دار سرکل اور صوفی ٹپے دار سرکل کو اس حلقے میں شامل کیا ہے۔
شاہ محمود اس بار سابقہ حلقے سے متصل این اے 214 تھرپارکر ون (ڈاہلی- چھاچھرو) سے میدان میں اترے ہیں۔ پچھلی بار انہوں نے گدی نشین ہونے کے باعث ملتان میں بیٹھ کر یہاں سے ایک لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کیے تھے۔ اگرچہ وہ جیت نہیں سکے تاہم انہوں نے دونوں مرتبہ یوسف تالپر کو ٹف ٹائم دیا تھا۔
اس حلقے میں پیر پگارا کی حر جماعت، مخدوم جمیل الزمان کی سروری جماعت، مخدوم شاہ محمود کی غوثیہ جماعت اور پیر نور محمد شاہ کی جیلانی جماعت کے لوگوں کی کثیر تعداد موجود ہے۔ جن میں سے سروری اور جیلانی جماعتیں پی پی، حر جماعت جی ڈی اے اور غوثیہ جماعت پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑی ہے۔
اسی طرح ہندو ووٹرز پر ڈھاٹ کے رانا ہمیر سنگھ، پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کھٹومل جیون، پونجو مل بھیل اور کرشنا کماری کولھی جبکہ پی ٹی آئی کے لالا مالھی کا زیادہ اثر ہے۔
عمرکوٹ کے رہائشی عارب بھیل اپنی برادری کی فلاحی تنظیم "بھیل سجاگ اتحاد "کے رکن اور سماجی ورکر ہیں۔ انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ اس الیکشن میں ہندو ووٹرز اور خاص طور پر بھیل، مینگھواڑ، اوڈ، کولھی اور جوگی برادریوں نے جس پارٹی یا امیدوار کو سپورٹ کیا یقینی طور پر اسی کی ہی جیت ہو گی۔
عمرکوٹ کے شوانی محلہ کے رہائشی بابو درزی بتاتے ہیں کہ مخدوم شاہ محمود کو یہاں اتنے زیادہ ووٹ پڑنے کی وجہ پی ٹی آئی نہیں بلکہ غوثیہ جماعت سے منسلک ہزاروں مریدین تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس بار شاہ محمود نے اس قومی حلقے سے اپنے قریبی سیاسی رفیق لال چند مالھی کو آزاد حیثیت میں کھڑا کیا ہے۔ جو پچھلی دونوں قومی اسمبلیوں میں مخصوص نشست پر پی ٹی آئی کے رکن رہ چکے ہیں اور ان کی مالھی برداری عمرکوٹ شہر کی اکثریتی برادری ہے۔
ان کے مطابق موجودہ حالات میں پی پی مخالف ووٹ جی ڈی اے اتحاد اور آزاد امیدوار لال چند مالھی میں تقسیم ہو گا اور اس کا فائدہ پیپلزپارٹی اٹھائے گی۔
سابق سٹوڈنٹ لیڈر اور کنری کے بیوپاری راجا دائم سادھو بتاتے ہیں کہ ماضی میں 'امرکوٹ کا حکمران' ڈھاٹ کا رانا خاندان کچھ برسوں کو چھوڑ کر ہمیشہ پی پی کے ساتھ رہا ہے۔
"موجودہ رانا ہمیر سنگھ سوڈھو پچھلی سندھ اسمبلی میں پی پی کے اقلیتی رکن رہے اور اس بار بھی پارٹی نے فہرست میں انہیں پہلے نمبر پر رکھا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کے زیر اثر راجپوت، جوگی اور دیگر ہندو برادریاں پی پی کو ہی ووٹ کریں گی۔"
وہ کہتے ہیں کہ مینگھواڑ برادری کا ووٹ ضلعے کی ہندو برادریوں میں سے سب سے زیادہ ہے۔ پیپلز پارٹی نے ڈاکٹر کھٹومل اور ن لیگ نے نیلم کماری کو مخصوص نشست پر نامزد کیا ہے۔ کھٹومل مینگھواڑ برادری کےپرانے رہنما اور نیلم کماری سیاست میں نووارد ہیں اس لیے برادری میں کھٹومل کی بات زیادہ مانے جائے گی۔
تاہم پی پی مینارٹی ونگ کے رہنما پونجو مل بھیل اقلیتی نشستوں کی پارٹی لسٹ میں اپنا نام آٹھویں نمبر پر آنے پر برہم ہیں۔ انہوں نے پریس کانفرنس میں الزام لگایا کہ پی پی سمیت تمام پارٹیاں مخصوص نشستیں ہندو جاگیر داروں اور سیٹھوں کو بیچتی ہیں۔ جس پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ بھیل برادری کا ووٹ تقسیم ہو گا۔
کستور چند مینگھواڑ عمرکوٹ کے شہر نیوچھور کے سابق کونسلر ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ یہاں کے اقلیتی رہنما ہمیشہ سے رکن اسمبلی، سینیٹر، وزیر و مشیر بنتے آ رہے ہیں اور اب بھی سب کو ایک ہی جماعت سے آسرا ہے۔ اس لیے اقلیتی برادریوں کا 70 سے 80 فیصد ووٹ پی پی کو ہی ملے گا۔
جی ایم بگھت طویل عرصے سے قوم پرست سیاست سے وابستہ ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ پی پی مخالف جماعتوں کے امیدواروں میں اگر سیٹ ایڈجسٹمینٹ نہیں ہوتی تو پی پی امیدوار نواب محمد یوسف تالپر آسانی سے جیت جائیں گے۔
پی ایس 49 پتھورو، سامارو پر سردار علی شاہ پیپلز پارٹی، جماعت غوثیہ کے خلیفہ اکبر پلی آزاد (پی ٹی آئی) اور فقیر خضر حیات منگریو جی ڈی اے کے امیدوار ہیں۔ جبکہ مقامی پی پی رہنما اور سروری جماعت کے خلیفہ علی مراد راجڑ بھی یہاں آزاد الیکشن لڑ رہے ہیں۔
علی مراد بتاتے ہیں کہ یہ ان کا پرانا حلقہ انتخاب ہے جہاں انہوں نے 2008ء میں فنکشنل لیگ کے سابق وزیراعلیٰ اور موجودہ سینیٹر مظفر علی شاہ کو شکست دی تھی۔ 2013ء میں مرشد مخدوم امین فھیم اور سردار علی شاہ میں معاہدہ ہوا تھا کہ 2018ء میں ٹکٹ انہیں (علی مراد کو) ملے گا لیکن اس معاہدے پر کوئی عمل نہیں ہوا۔
اس نشست پر جی ڈی اے کے امیدوار سابق وزیر ممکت فقیر جادم مرحوم کے بھائی فقیر خضر حیات منگریو پہلی بار الیکشن لڑ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ نئی حلقہ بندیوں میں پی پی کو فائدہ پہنچایا گیا ہے تاہم وہ الیکشن میں مقابلے کے لیے تیار ہیں۔
یہاں پی پی کے باغی علی مراد راجڑ کے الیکشن لڑنے کا جی ڈی اے کو فائدہ ہو سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
حیدرآباد: "لوگ صرف پارٹی نشان کو ووٹ دیتے ہیں" کیا یہاں نتائج میں کوئی تبدیلی آئے گی؟
پی ایس 50 عمر کوٹ میں پیپلز پارٹی سے امیر علی شاہ، پی ٹی آئی کے سابق ایم این اے لال چند کے بھائی لیکھراج مالھی آزاد جبکہ نواز لیگ اور جی ڈی اے سے غلام نبی منگریو میدان میں اترے ہیں۔
اس حلقے سے سابق وزیر اعلیٰ ارباب غلام رحیم دو الیکشن ہار چکے ہیں۔ ان کی نہڑی برادری کے یہاں 15 ہزار سے زائد ووٹ ہیں۔ اس مرتبہ انہوں نے یہاں اپنے بیٹے ارباب ابراہیم کو کھڑا کیا تھا مگر پیر پگارا کے خلیفے فقیر غلام نبی کے حق میں دستبردار کرایا لیا ہے۔ جس سے نہڑی برادری کا ووٹ تقسیم ہونے کا اندیشہ ہے اور اس کا فائدہ پی پی کو ہوگا۔
پی ایس 51 کنری پر پیپلز پارٹی کے نواب تیمور تالپر اور ان کے روایتی حریف نواز لیگ و جی ڈی اے کے مشرکہ امیدوار دوست محمد میمن مدمقابل ہیں۔
یہاں بھی صورتحال پی ایس 50 سے مختلف نہیں ہے۔ ڈاکٹر دوست محمد سابق صوبائی وزیر تیمور تالپر سے پچھلے دو الیکشن ہار چکے ہیں اور اس بار بھی تیمور تالپر کا پلہ بھاری ہے۔
برھان الدین کنبھار پیپلز پارٹی کے ضلعی ترجمان ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے امیدوار مقامی لوگ ہیں اور ہر وقت یہاں موجود رہتے ہیں جبکہ مخالفین کبھی ارباب غلام رحیم تو کبھی مخدوم شاہ محمود کو یہاں لاتے ہیں۔ عمر کوٹ کے لوگ امپورٹڈ امیدواروں کو ووٹ نہیں کرتے اس لیے یہاں اب بھی نتائج پچھلے تین انتخابات سے مختلف نہیں ہوں گے۔
تاریخ اشاعت 22 جنوری 2024