'میں ایک مزدور کی بیٹی ہوں، یونیورسٹی میں پڑھتی ہوں اور ہاسٹل میں رہتی ہوں۔ صبح کلاسیں لے کر شام کے وقت کپڑوں کی کشیدہ کاری کرتی ہوں، آدھے پیسے اپنے بھائی کو بھیج دیتی ہوں جو کوئٹہ میں پڑھتا ہے اور باقی سے اپنا گزارہ کرتی ہوں۔ لیکن یونیورسٹی نے فیسوں میں جتنا اضافہ کر دیا ہے، اب میرے لیے اپنی تعلیم کو مزید جاری رکھنا ممکن نہیں۔ میں یونیورسٹی چھوڑنے کا فیصلہ کر چکی ہوں'۔
یہ کہانی یونیورسٹی آف تربت کی ایک طالبہ کے حوالے سے ایک بلوچ صحافی نے حال ہی میں سوشل میڈیا پر شیئر کی لیکن یہ محض ایک طالب علم کی کہانی نہیں بلکہ اس یونیورسٹی میں پڑھنے والے اکثر طالب علموں کی روداد ایسی ہی ہے۔
یونیورسٹی کی ایک اور طالبہ نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ان کے والد پٹرول کی دکان پر کام کرتے ہیں۔ "ان کے لیے تو ٹرانسپورٹ اور سمسٹر کی فیس ادا کرنا کٹھن تھا لیکن اب (فیس میں اضافے کے بعد) وہ میری تعلیم کا بوجھ بالکل نہیں اٹھا سکیں گے"۔
تربت یونیورسٹی 2012ء میں قائم ہوئی تھی۔ اس سے پہلے یہاں بلوچستان یونیورسٹی کا ایک سب کیمپس تھا۔ یونیورسٹی کے قیام نے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے جو مواقع فراہم کیے، انہیں علاقے کے نوجوانوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ یونیورسٹی کی ویب سائٹ کے مطابق اس وقت یہاں چودہ شعبہ جات میں تین ہزار طالب علم زیرتعلیم ہیں۔
یونیورسٹی نے بہت کم وقت میں گوادر اور پنجگور میں اپنے سب کیمپس قائم کر لئے جو جلد ہی الگ یونیورسٹیوں کی شکل اختیار کر گئے۔ گوادر کیمپس 2019 میں یونیورسٹی آف گوادر بن گیا اور پنجگور کیمپس کو 2022ء میں یونیورسٹی آف مکران کا درجہ دے دیا گیا۔ یوں تربت یونیورسٹی مکران میں یونیورسٹیوں کی ماں قرار پائی۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے بھی یونیورسٹی آف تربت کو تعریفی سند سے نوازا گیا ہے۔
لیکن شاید اب یونیورسٹی کے اچھے دن بیت چکے ہیں۔
یونیورسٹی نے گذشتہ دنوں ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے سمسٹر کی فیس کے علاوہ ٹرانسپورٹ اور ہاسٹل کے چارجز میں بھی اضافہ کردیا۔ صرف سمسٹر فیس میں اوسط اضافہ پچاس فیصد کے لگ بھگ ہے۔ مثلاً کامرس اور اکنامکس کے طلبہ پہلے ایک سمسٹر کی فیس 13 ہزار ایک سو روپے ادا کر رہے تھے جسے بڑھا کر 20 ہزار آٹھ سو کردیا گیا ہے۔ اسی طرح کیمسٹری، باٹنی اور بائیوکیمسٹری کی فیس 16 ہزار ایک سو سے بڑھا کر 22 ہزار آٹھ سو کر دی گئی ہے۔
تربت یونیورسٹی میں زیرِتعلیم طلبا و طالبات کی ایک بڑی تعداد گردونواح کے دیہی علاقوں سے آتی ہے اور ان کی اکثریت کا تعلق غریب گھرانوں سے ہے۔ تمپ، دشت، ہوشاپ سمیت دیگر علاقوں کے طلبا پہلے ہی مالی مشکلات کا شکار ہیں۔
تربت پاکستان کے ان غریب ترین اضلاع میں شامل ہے جس کی آبادی کا 70 فیصد تک حصہ کثیرالجہت غربت (ملٹی ڈائیمینشنل پاورٹی) کا شکار ہے۔ زراعت محدود ہے اور صنعت ناپید۔ اعلیٰ تعلیم کا حصول ہی نوجوانوں کو بہتر مستقبل کی امید دیتا ہے۔
طلبا تربت یونیورسٹی میں فیسوں میں اضافے کے خلاف احتجاجی دھرنا دیتے ہوئے
یونیورسٹی کی ایک طالبہ نے لوک سجاگ سے بات کرتے ہوئے کہا "کسی (طالب علم) کے والد زمباد چلاتے ہیں (زمباد گاڑی جو ایرانی پٹرول اور ڈیزل کی ترسیل کے لیے ذریعہ روزگار ہے) تو کسی کی والدہ یا بہنیں کپڑوں کی کشیدہ کاری کرکے فیسوں کا بندوست کرتی ہیں۔ اب ان ذرائع سے تعلیمی عمل کو جاری رکھنا ناممکن ہو گیا ہے۔ یونیورسٹی نے ان طلبا کی مشکلات کو بڑھا دیا ہے"۔
احتجاج کرنا منع ہے
یونیورسٹی کے طلبا نے فیسوں میں اضافے کے خلاف پہلے پریس کانفرنس کی، پھر احتجاجی ریلی نکالی اور مظاہرہ کیا۔ اس کے باوجود شنوائی نہ ہونے پر طلبا یونیورسٹی کے مین گیٹ پر احتجاجی دھرنا دے کر بیٹھے رہے۔
اس احتجاجی دھرنے میں تین طلبا تنظیمیں شریک تھیں جن میں بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن، بلوچ سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی اور بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (پجار) شامل ہیں۔ اس کے علاوہ والدین اور تربت کی سول سوسائٹی کے اراکین اور کئی سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں نے بھی اس احتجاج میں شریک ہو کر طلبہ سے اظہارِ یکجہتی کیا۔
سٹوڈنٹس الائنس تربت کے رہنماؤں نے یونیورسٹی کے وائس چانسلر و پرو وائس چانسلر کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے بارے میں بتایا کہ انھوں نے ہمیں احتجاج ختم کرنے کا کہا لیکن ہم نے مطالبہ کیا کہ فیسوں اور دیگر چارجز میں اضافے کے نوٹیفکیشن کو واپس لیا جائے لیکن انتظامیہ کی جانب سے کہا گیا کہ یہ سینڈیکیٹ کمیٹی کے فیصلے ہیں اور وہ یہ نوٹیفکیشن واپس نہیں لے سکتے لیکن پھر دو دن بعد انہوں نے نوٹیفکیشن واپس لینے کی حامی بھرلی۔
طلبا رہنماؤں نے انتظامیہ پر واضح کیا کہ آپ فیسوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن واپس لینے کا بیان جاری کریں، ہم اپنے دھرنے کے اختتام کا اعلان کرتے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے دھرنا ختم کرنے کا بیان لکھ کر انتظامیہ کو بھیج بھی دیا لیکن یونیورسٹی انتظامیہ معاہدے سے مکر گئی جس پر طلبا تنظیموں نے احتجاج جاری رکھتے ہوئے اسے مزید وسعت دینے کا اعلان کیا۔
اس پر یونیورسٹی انتظامیہ کو بالآخر گھٹنے ٹیکنا پڑے اور یونیورسٹی نے مارچ تک اضافی فیسوں کی وصولی کا نوٹیفکیشن معطل کر دیا۔ طلبا نے بھی اس وقت تک اپنے احتجاجی دھرنے کو مؤخر کرنے کا اعلان کر دیا۔
اس سے قبل نومبر 2022 میں طلبا نے یونیورسٹی میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی کے خلاف احتجاج کیا تو طلبا کو یونیورسٹی کی جانب سے نوٹس جاری کر دئیے گئے اور انہیں والدین سمیت حاضر ہو کر وضاحت پیش کرنے کو کہا گیا۔
طلبا الائنس میں شامل ایک طالب علم نے بتایا کہ "ہم نے یونیورسٹی میں کرپشن و دیگر مسائل پر احتجاج کیا تو یونیورسٹی انتظامیہ نے والدین کی میٹنگ بلائی تاکہ طلبا کو دباؤ میں لایا جائے اور وہ یونیورسٹی میں اپنے جائز حقوق کے لیے احتجاج تک نہ کر سکیں"۔
'فیس کم ہے اور اضافہ معمولی ہے'
لوک سجاگ نے وائس چانسلر، پرو وائس چانسلر سمیت رجسٹرار سے رابطہ کرنے کی بارہا کوشش کی لیکن کسی نے بھی سوال نامے کا جواب نہیں دیا نہ ہی فون کالز کا جواب دیا گیا۔
بعد میں یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر منصور احمد بلوچ نے یونیورسٹی کے تعلقاتِ عامہ کی جانب سے فیسوں کے معاملے میں ایک بیان جاری کیا، جس کی کاپی ہمیں بھی بھیجی گئی۔
یونیورسٹی پرو وائس چانسلر پروفیسر منصور احمد بلوچ، رجسٹرار گنگزاز بلوچ، ڈائریکٹر سٹوڈنٹس افئیرز اور فنانس، شعبہ جات کے سربراہوں سمیت سینئر فیکلٹی اراکین نے آل پارٹیز کیچ، سول سوسائٹی تربت اور مقامی صحافیوں سے ملاقات کی۔
یہ بھی پڑھیں
طبی تعلیم کی نج کاری: حکومتی پالیسیوں کے باعث ڈاکٹر بننے کی قیمت میں شدید اضافہ۔
پرو وائس چانسلر نے وفد کو اکیڈمک کونسل کی جانب سے نئی منظور شدہ فیسوں کے معاملے میں بریف کرتے ہوئے بتایا کہ تربت یونیورسٹی بلوچستان کی دیگر یونیورسٹیوں کے مقابلے میں کم فیس وصول کر رہی ہے۔ نیز پچھلے تین سال میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے تربت یونیورسٹی کی سالانہ گرانٹ میں کوئی اضافہ نہیں کیا اور صوبائی حکومت کی جانب سے گرانٹ-ان-ایڈ میں کمی کر دی گئی ہے۔
مالی دشواریوں کے باوجود تربت یونیورسٹی نے فیسوں میں معمولی اضافہ کیا ہے۔ کم وسائل کے باوجود تربت یونیورسٹی تعلیمی حوالے سے بہترین سہولیات فراہم کر رہی ہے جس میں لیبارٹری، ہاسٹل میں 24 گھنٹے بجلی سمیت دیگر سہولیات کی فراہمی شامل ہے۔ کفایت شعاری پلان، فیسوں کو دو برابر اقساط میں ادا کرنے کی سہولت سمیت مختلف سکالرشپس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یونیورسٹی کے 80 فیصد طلبا ان سکالرشپس سے مستفید ہو رہے ہیں، اس لیے یہ اضافہ معمولی ہے۔
تاریخ اشاعت 27 جنوری 2023