عثمان علی کی کروڑوں روپے مالیت کی ٹراؤٹ مچھلی اِس سال 25 اگست کو آنے والے سیلاب میں بہہ گئی ہے۔
وہ پچھلے کئی سالوں سے اس کاروبار سے منسلک ہیں اور خیبرپختونخوا کے ضلع سوات کے صدر مقام مینگورہ سے 50 کلومیٹر شمال میں واقع تفریحی مقام مدین میں پانچ مچھلی فارم اور ٹراؤٹ کی نسل کَشی کا ایک پلانٹ (hatchery) چلاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ سیلاب میں تقریباً 60 ہزار کلو گرام بڑی مچھلیاں اور دو لاکھ 30 ہزار پُونگ مچھلیاں کھو بیٹھے ہیں۔
خیبرپختونخوا کے محکمہ ماہی پروری کے مینگورہ میں متعین اسسٹنٹ ڈائریکٹر ابرار احمد کہتے ہیں کہ چھ ہفتے پہلے آئے سیلاب نے 50 سالہ عثمان علی کی طرح کے ٹراؤٹ پالنے والے درجنوں کاروباری افراد کو شدید مالی نقصان پہنچایا ہے۔ ان کے محکمے کو ملنے والی اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ سوات کی پانچوں تحصیلوں میں مجموعی طور پر ایک سو 51 نجی اور سرکاری ٹراؤٹ فارم مکمل طور پر تباہ ہو گئے ہیں جبکہ 71 مزید فارم جزوی طور پر سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق اس تباہی کے نتیجے میں لاکھوں کلوگرام "ٹراؤٹ یا تو مر گئی ہے یا برساتی نالوں میں بہہ گئی ہے"۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ ابھی اس نقصان کی مالیت کا حتمی اندازہ لگانا ممکن نہیں کیونکہ "سیلاب کی وجہ سے درہم برہم ہو جانے والے مواصلاتی نظام کی بحالی کے بعد ہی صحیح طرح پتہ چل سکے گا" کہ سوات میں کس جگہ ٹراؤٹ کے کتنے فارم سیلاب کا شکار ہوئے ہیں۔
انہی کے محکمے کے ڈپٹی ڈائریکٹر فواد خلیل کہتے ہیں کہ صرف سوات میں ہی نہیں بلکہ شمالی خیبرپختونخوا کے متعدد اضلاع میں ٹراؤٹ مچھلی کی افزائش کے لیے بنائے گئے بیشتر فارم اس سال مون سون میں آنے والے مختلف سیلابی ریلوں میں بہہ گئے ہیں۔ ان کے خیال میں اس تباہی کے نتیجے میں اس کاروبار سے منسلک لوگوں کو ہونے والے نقصان کی مجموعی مالیت "ڈھائی ارب روپے سے زیادہ" ہے۔
تاہم ٹراؤٹ کو منڈیوں اور ریستورانوں تک پہنچانے والے ڈرائیوروں، تاجروں اور ریستورانوں کے مالکوں اور ملازموں کے روزگار کو اس کی عدم موجودگی کی وجہ سے پہنچنے والے نقصان کی لاگت اس تخمینے میں شامل نہیں۔ نہ ہی اس میں ان مزدوروں کی چلی جانے والی نوکریوں کو گنا گیا ہے جو ٹرا ؤٹ کی دیکھ بھال کا کام کرتے تھے۔
مدین میں ایک ٹراؤٹ فارم پر کام کرنے والے واجد علی کہتے ہیں کہ تباہ شدہ مچھلی فارم ان کی طرح کے ہزاروں مزدوروں کو ملازمت فراہم کرتے تھے۔ ان کے مطابق ان میں سے بیشتر کے پاس اب روزگار کا کوئی ذریعہ موجود نہیں۔
وہ خود ایک تباہ شدہ فارم کی مرمت اور صفائی کا کام کررہے ہیں اور کہتے ہیں کہ "سیلاب نے بہت سے لوگوں کا معاش اس بری طرح متاثر کیا ہے کہ اس کی جلد بحالی کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا"۔
ایک تباہ شدہ ٹراؤٹ فارم
بڑے پیمانے پر ٹراؤٹ کی تباہی سیاحت پر بھی منفی اثر ڈال سکتی ہے۔ سوات ہوٹل ایسوسی ایشن کے صدر حاجی زاہد خان اس حوالے سے شدید تشویش کا شکا رہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے ضلعے میں سیاحت خاص طور پر ٹراؤٹ سے جڑی ہوئی ہے "کیونکہ یہاں آنے والے تمام سیاح یہ مچھلی کھانے کا تجربہ کرنا چاہتے ہیں"۔ لیکن چونکہ ایک ٹراؤٹ مچھلی کی افزائش دو سال میں مکمل ہوتی ہے اس لیے اگلے سال مارچ میں شروع ہونے والے سیاحت کے موسم میں اکثر سیاح یہ تجربہ نہیں کر پائیں گے "جس سے ان کی سوات میں آمد میں کمی واقع ہو سکتی ہے"۔
سیلابی تباہ کاریاں
ٹراؤٹ سرد پانیوں اور سرد ماحول میں پنپنے والی مچھلی ہے۔ سوات سمیت خیببر پختونخوا کے آٹھ شمالی اضلاع اس کی افزائش کے لیے انتہائی موزوں سمجھے جاتے ہیں کیونکہ وہاں کا درجہ حرارت پاکستان کے بیشتر علاقوں کی نسبت کافی کم ہوتا ہے۔
اسی لیے ان اضلاع میں ٹراؤٹ کے کئی سو فارم بنائے گئے ہیں اگرچہ خیبرپختونخوا کے محکمہ ماہی پروری کے پاس ان میں سے محض تین سو 74 کا ریکارڈ موجود ہے۔ اس محکمے کے پراجیکٹ ڈائریکٹرزبیر احمد کا کہنا ہے کہ ان میں سے ایک سو 81 فارم ایسے ہیں جو نجی اور سرکاری شعبے کی شراکت سے بنائے اور چلائے جا رہے ہیں۔ ان کے مطابق سیلاب کی وجہ سے "ان میں سے 56 فارم پورے کے پورے تباہ ہو گئے ہیں جبکہ 23 کو جزوی نقصان پہنچا ہے"۔
یہ بھی پڑھیں
بجلی ہے نہ پانی، مچھلی ہے نہ کاروبار : ہم نے یہ مانا گوادر میں رہیں کھائیں گے کیا؟
ٹراؤٹ کو معدوم ہونے سے بچانے کے لیے ان کے محکمے نے 10 سال پہلے مدین میں ایک برساتی نالے کے کنارے ایک تحقیقاتی مرکز، مچھلیوں کی نسل کَشی کا ایک پلانٹ اور ایک مچھلی فارم بھی قائم کیے تھے لیکن یہ سب کے سب اب سیلاب میں بہہ گئے ہیں۔ ضلع سوات ہی کی تحصیل مٹہ میں بنایا گیا ٹراؤٹ کی نسل کَشی کا ایک دوسرا سرکاری پلانٹ بھی ایک سیلابی ریلے نے تباہ کر دیا ہے۔
مینگورہ سے 40 کلومیٹر شمال میں واقع بحرین نامی قصبے کے رہنے والے 40 سالہ امین اللہ کا کہنا ہے کہ اس تباہی کے اثرات دور کرنے کے کے لیے لمبا عرصہ اور بھاری سرکاری سرمایہ کاری درکار ہوں گے۔ سیلاب سے پہلے وہ خود دو ٹراؤٹ فارم چلاتے تھے جن میں موجود 20 ہزار کلوگرام مچھلی سیلابی پانی کی نذر ہو گئی ہے۔
اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر وہ کہتے ہیں کہ " ٹراؤٹ کو پالنے اور بڑا کرنے میں بہت سا وقت، محنت اور پیسہ صرف ہوتا ہے" جو سیلاب کے مارے مقامی کاروباری افراد خود سے دوبارہ باہم نہیں پہنچا سکتے۔ اس لیے، ان کے مطابق، تباہ شدہ سرکاری تحقیقاتی مراکز اور ٹراؤٹ کی افزائش کے لیے قائم کی گئی حکومتی سہولیات کی بحالی کے بغیر سوات اور اس کے نواحی اضلاع میں اس مچھلی کے کاروبار کا "دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ممکن نہیں"۔
تاریخ اشاعت 7 اکتوبر 2022