'تم مرد ہو نہ عورت، تمہیں نوکری نہیں ملے گی'

postImg

عروج اورنگزیب

postImg

'تم مرد ہو نہ عورت، تمہیں نوکری نہیں ملے گی'

عروج اورنگزیب

فیضی اسلام آباد میں تھیں جب ان کی ایک دوست نے انہیں بتایا کہ پنجاب حکومت کالجوں میں لیکچرار بھرتی کرنا چاہتی ہے اور یہ کہ پنجاب پبلک سروس کمیشن (پی پی ایس سی) نے ان بھرتیوں کے بارے میں اخبارات میں ایک اشتہار شائع کیا ہے۔ 

فیضی – جو سرکاری کاغذات میں فیاض کے نام سے جانی جاتی ہیں – علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے اردو میں ایم فل کر چکی ہیں۔ انہوں نے اپنا حتمی مقالہ اِسی سال اگست میں یونیورسٹی میں جمع کرایا ہے۔اس تعلیمی قابلیت کی وجہ سے وہ پی پی ایس سی کے اشتہار میں دی گئی شرائط کے مطابق بھرتی کے لئے درخواست دینے کی اہل تھیں۔

لیکن اس میں دِقت یہ تھی کہ وہ عورت یا مرد کے بجائے ایک ٹرانس جینڈر فرد کے طور پر اپنی درخواست جمع کرانا چاہتی تھیں (ان کا قومی شناختی کارڈ بھی ایک ٹرانس جینڈر فرد کے طور پر بنا ہوا ہے) لیکن اشتہار میں لکھا تھا کہ بھرتی کے امیدوار صرف مرد یا عورتیں ہی ہو سکتے ہیں۔ 

فیضی نے اپنی ایک دوست سے مشورہ کیا جس نے انہیں عورت کے طور پر درخواست بھرنے کی تجویز دی۔ فیضی اس تجویز سے مطمئن نہیں ہوئیں لہٰذا انہوں نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں اردو کے شعبے کے سربراہ سے مشورہ کیا جنہوں نے تجویز کیا کہ فیضی پی پی ایس سی کو ایک خط لکھ کر پوچھیں کہ آیا وہ ایک ٹرانس جینڈر فرد کے طور پر لیکچرار بھرتی ہونے کی درخواست دے سکتی ہیں۔

فیضی کو یہ تجویز اچھی لگی۔

انہوں نے بھرتی کے لئے مقررہ فارم بھرا، بنک میں مقررہ فیس جمع کرائی اور اپنی درخواست پی پی ایس سی کو جمع کرا دی۔ اس درخواست کے ساتھ انہوں نے پی پی ایس سی کے نام ایک خط بھی بھیجا جس میں انہوں نے لکھا کہ انہیں ایک ٹرانس جینڈر امیدوار سمجھا جائے۔

لیکن پی پی ایس سی کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ مقصود احمد نے 29 اکتوبر 2020 کو انہیں ایک جوابی خط بھیجا جس میں لکھا تھا کہ 'ٹرانسجینڈر امیدوار اس عہدے کے لیے اہل نہیں۔ آپ کی گزارش پر غور نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے اردو لیکچرار کے لیے آپ کی درخواست رَد کی جاتی ہے‘۔

فیضی اس جواب سے بہت دِل برداشتہ ہوئیں۔ان کا خیال تھا کہ ایک لیکچرار کے طور پر بھرتی ہو کر وہ بالاآخر اس  مشکلات بھری زندگی سے نکل آئیں گی جو انہوں نے اب تک گذاری ہے۔ 

'زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے'

فیضی بتیس سال پہلے ٹوبہ ٹیک سنگھ نامی شہر میں پیدا ہوئیں۔ جب وہ تعلیم حاصل کرنے کی عمر کو پہنچیں تو انہیں لڑکوں کے سکول میں داخل کروایا گیا۔ اگرچہ وہاں انہیں اپنے ہم جماعتوں اور اساتذہ دونوں کی طرف سے جذباتی اور جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا تھا اور ہر طرح کی طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا تھا لیکن اس کے باوجود وہ انٹرمیڈیٹ تک لڑکوں کے ساتھ ہی پڑھتی رہیں۔

اس دوران ان کے گھر والوں نے انہیں کہنا شروع کیا کہ وہ پڑھائی چھوڑ دیں جس کی وجہ سے ان کے اپنے خاندان والوں کے ساتھ اختلافات ہونے لگے۔ جب ان اختلافات میں کچھ دیگر مسائل بھی شامل ہو گئے تو فیضی نے اپنا گھر چھوڑ دیا اور دیگر ٹرانس جینڈر افراد کے ساتھ رہنے لگیں۔ وہیں رہتے رہتے انہوں نے پرائیویٹ طور پر بی اے اور ایم اے کر لیا۔

ایم اے میں اچھا گریڈ لینے کی بنیاد پر انہیں ایک حکومتی وظیفہ بھی ملا جس کے تحت انہوں نے ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ایک سرکاری سکول میں نو ماہ ایک انٹرن کے طور پر کام کیا۔ یہ تجربہ انہیں اس قدر پسند آیا کہ اگلے دو سال وہ رضاکارانہ طور پر ایک مقامی سرکاری کالج میں پڑھاتی رہیں۔

ان کی لگن کو دیکھتے ہوئے حکومت نے انہیں کالج میں پڑھانے کی تربیت بھی دی جس کا دورانیہ تین ماہ تھا۔ اس کے بعد انہوں نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں ایم فل میں داخلہ لے لیا۔

جب اگست میں پی پی ایس سی نے 31 مختلف مضامین پڑھانے کے لئے 2451 لکچرار  بھرتی کرنے کا اشتہار چھاپا تو اس میں1435 نشستیں خواتین کے لیے اور 1061 اسامیاں مردوں کے لیے رکھی گئیں۔لیکن ٹرانس جینڈر افراد کے لئے کوئی ایک سیٹ بھی مخصوص نہ کی گئی حالانکہ 2018 میں بنائے گئے ایک وفاقی قانون نے انہیں اپنی علیحدہ صنفی شناخت رکھنے اور اس کے مطابق زندگی گذارنے کا حق دیا ہے۔

پی پی ایس سی کا موقف ہے کہ محکمہِ تعلیم میں بھرتیوں کے لئے اس کی جانب سے جاری کردہ اشتہارات اعلیٰ تعلیم کے لئے بنائے گئے صوبائی کمیشن کی ضروریات کو مدِنظر رکھ کر بنائے جاتے ہیں لہٰذا بھرتیوں کے لئے مقرر کردہ درخواست فارم میں تیسری جنس کا خانہ ہونا یا نہ ہونا پی پی ایس سی کا مسئلہ نہیں۔

دوسری طرف فیضی کہتی ہیں کہ وہ پی پی ایس سی کا جواب پڑھ کر سکتے میں چلی گئیں۔ 'پی پی ایس سی نے اپنے جواب میں میرے وجود کو ہی رَد کر دیا جیسے وہ مجھے کہہ رہیں ہوں کہ آپ کو معلوم ہی نہیں کہ یہ عہدہ آپ کے لیے نہیں ہے۔ ظاہر ہے اس پر میرا احتجاج ہی بنتا تھا‘۔

چنانچہ انہوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے یہ سوال پوچھنا شروع کر دیا کہ ٹرانس جینڈر افراد اگر مشکل سے پڑھ لکھ ہی جائیں تو ان کے لئے نوکریوں کا حصول ناممکن کیوں ہے۔

'چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی'

مہلب جمیل لاہور میں صنفی موضوعات پر تحقیق اور صنفی مساوات کی ترویج کے لئے کام کرتی ہیں۔ وہ وفاقی اور صوبائی سطح پر ٹرانس جینڈر افراد کے حقوق پر قانون سازی کے عمل میں شامل رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ 2012 میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے وفاقی حکومت کو حکم دیا تھا کہ ٹرانس جینڈر افراد کے لیے سرکاری نوکریوں میں دو فیصد کوٹہ مختص کیا جائے لیکن جب 2018 میں وفاقی پارلیمان نے بالآخر ٹرانس جینڈر افراد کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک قانون بنایا تو اس میں اس کوٹہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔

مہلب کے مطابق اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ 2017 میں ہونے والی آدم شماری میں ٹرانس جینڈر افراد کی اصل تعداد سامنے نہیں آئی کیونکہ زیادہ تر ٹرانس جینڈر افراد نے سماجی دباؤ  کے تحت خود کو یا مرد یا عورت کے طور پر ہی رجسٹر کرایا۔ 'چونکہ آدم شماری میں صرف دس ہزار افراد بطور ٹرانس جینڈر رجسٹر ہوئے اس لئے حکومت کے لئے مشکل ہو گیا کہ ان کے لئے نوکریوں میں دو فیصد کوٹہ رکھ سکے'۔

لیکن اس کوٹے کی عدم موجودگی میں ٹرانس جینڈر افراد انتہائی تکلیف دہ معاشی زندگی گذارتے ہیں۔  

لاہور کے جنوب مشرق میں واقع شہر قصور میں قائم ایک سماجی تنظیم گُڈ تھنکرز آرگنایزیشن – جو ٹرانس جینڈر افراد کے حقوق کے تحفظ کے لئے بھی کام کرتی ہے – نے 2016 میں ایک رپورٹ چھاپی جس کے مطابق پاکستان میں ٹرانسجینڈر افراد کی اکثریت چار شعبوں سے منسلک ہے۔ ان میں سے 68 فیصد افراد شادیوں اور نجی پارٹیوں میں رقص کا شعبہ اختیار کیے ہوئے ہیں جب کہ 22 فیصد افراد سڑکوں اور ٹریفک اشاروں پر بھیک مانگ کر، چھ فیصد افراد بیوٹی پارلروں میں کام کر کے اور تین فیصد کپڑے سی کر گذر بسر کر رہے ہیں۔ محض ایک فیصد ٹرانسجینڈر افراد نِجی شعبے میں باقاعدہ ملازمتیں کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

گھر میں امتیازی سلوک اور باہر مذہبی تعصب کا سامنا: احمدی خواتین 'دوہرے ظلم' کا شکار۔

فیضی نے اس صورتِ حال کو بدلنے کے لئے پنجاب اور مرکز کی حکمران جماعت پاکستان تحریکِ انصاف سے تعلق رکھنے والی پنجاب اسمبلی کی خاتون رکن مومنہ وحید سے رابطہ کیا تا کہ وہ ٹرانس جینڈر افراد کے لئے نوکریوں کا کوٹہ مخصوص کرنے کے بارے میں اسمبلی سے ایک قرارداد منظور کرائیں۔ لیکن مومنہ وحید کے کرونا وائرس کا شکار ہونے کی وجہ سے ان کی یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔

تاہم گزشتہ ہفتے پنجاب حکومت نے خود ہی فیضی کو ایک مشاورتی اجلاس کے لئے ٹوبہ ٹیک سنگھ سے لاہور بلایا۔ اس اجلاس میں انہیں کہا گیا کہ وہ پنجاب کے انسانی حقوق اور اقلیتوں کے امور کے محکمے کے نام اپنے مسئلے کے بارے میں ایک خط لکھیں۔

ان کو یہ خط بھیجے ہوئے کئی دِن ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک انہیں اس کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ اس پر فیضی کا کہنا ہے:’مجھ سے صرف درخواستیں مانگیں جا رہیں ہیں۔ اور جو بھی مجھ سے درخواست مانگتا ہے میں اسے درخواست بھیج دیتی ہوں۔ لیکن کسی بھی ادارے میں کوئی معنی خیز پیش رفت نہیں ہو رہی۔ ایسے لگتا ہے جیسے کسی ادارے کو خود خبر نہیں کہ اس کا کردار ہے کیا‘۔

تاریخ اشاعت 7 جنوری 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

thumb
سٹوری

"ہماری عید اس دن ہوتی ہے جب گھر میں کھانا بنتا ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

thumb
سٹوری

قصور کو کچرہ کنڈی بنانے میں کس کا قصور ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

افضل انصاری
thumb
سٹوری

چڑیاں طوطے اور کوئل کہاں غائب ہو گئے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنادیہ نواز

گیت جو گائے نہ جا سکے: افغان گلوکارہ کی کہانی

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.